جموں و کشمیر کے شمالی قصبہ سوپورمیں9سالہ بچے سمیت5معصوم نوجوانوںکی ہلاکتوں کے بعد بھارت کے بے لگام فورسز نے منگل کو جنوبی کشمیر کے اسلام آباد قصبے میں2 طالب علموں سمیت 3نوجوانوں کو جاں بحق اور3کو شدید طور پر زخمی کر دیا.ان تازہ واقعات کے بعد تشدد کی خوفناک لہر نے شمالی کشمیر کے بعد اب جنوبی کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے
تفصيلات پڑھنے کيلئے يہاں کلک کيجئے
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » جموں کشمير لہو لہان -- Topsy.com
اللہ تعالی ان ظالموں کے ظلم و جبر کے خلاف کشمیر کے مظلوم مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی مدد فرمائے اور ان کو کفار کے چنگل سے آزادی دے۔آمین۔
عدنان مسعود صاحب
ميں آپ کی دعا پر آمين کہتا ہوں
اب بس ہونا چائيے اس عکر کو يا تو کشميری آرام سے بيٹھ جائيں يا انڈيا و پاکستان دونوں کشمير کو آذاد کر کے خود بھی سکھ کا سانس ليں
اسماء بتول صاحبہ سلامت رہو
کشمیری عوام کا بھی کہنا ہے کہ اب ‘بس’ ہونا چاہئے لیکن آپکی جانکاری کیلئے بتادوں کہ اس ‘بس’ کیلئے کشمیریوں نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں ۔بس دعا کریں
اسماء بتول صاحبہ
کے لوگ پچھلی دو صديوں سے اپنے خون کا نذرانہ پيش کرتے آ رہے ہيں ۔ پچھلے 63ء سال ميں ظُلم انتہاء کو پہنچ چکا ہے ۔ جموں کشمير کو آزاد ديکھنے کی حسرت لئے ميرے دادا جان جون 1955ء ميں رُخصت ہوئے ۔ پھر ميرے والد صاحب جنہوں نے ويزہ لے کر جموں کشمير جانے کی کوشش کی مگر بھارت نے ويزا نہ ديا وہ بھی يہی حسرت لئے جولائی 1991ء ميں رُخصت ہوئے ۔ اب ميں رہ گيا ہوں مگر حسرت و ياس وہيں ہے ۔
ہر ملک کی فوج یہی کرتی ہے
اوپر والا تبصرہ میں نے کچھ سوچ کرکیا ہے
کشمیر کی تحریک کو مشرف نے کافی نقصان پہنچایا ہے ورنہ یہی انڈیا جو ہمیںآنکھیں دکھلا رہا ہے کبھی بہت زچ تھا
شازل صاحب
درست ہے کہ کشمير مسئلہ کو سب سے زيادہ نقصان پرويز مشرف نے پہنچايا مگر اس سے پيشتر بينظير بھٹو اور اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے بھی بہت نقصان پہنچايا
کشمیر یوں سے کوئی کسی اور حوالے سے ہمدردی نہ بھی رکھے تو بھی یہ پاکستان کی بقاء کا سوال ہے ۔ مطلب کی خاطر ہی سہی ، حکمرانوں کو پاکستان پر تو رحم کرنا چاہیے تھا ۔ مگر ہم ان “کُل عقلوں” کی عقلوں کے ایسے شکا ر ہوئے کہ انسانیت کے ناطے تو دور اپنی بقاء کی خاطر بھی ٹک نہ سکے ۔ کشمیر کا طاقتور بیل ہماری چوکھٹ پار کر چکا ہے ، رسی باقی ہے دیکھئے وہ ہمارے نام نہاد لیڈرران کب چھوڑتے ہیں ۔ غیر ت ملی نہ سہی ، غیرت قومی کا مظاہرہ تو کیجیئے ۔
وسلام
طالوت صاحب
اگر ہمارے حکمرانوں نے اپنی جيبيں بھرنے کے ساتھ مُکل و قوم کا بھی خيال کيا ہوتا تو آج ہر طرف پانی پانی کا شور نہ ہوتا ۔ پاکستان کے دريا صحتمند بہہ رہے ہوتے