تاريخی پس منظر
پرانی کہانیوں کے مطابق جموں کشمیر اشوک موریہ کے زیر انتظام بھی رہا ۔ اشوک موریہ کا دور حکومت 273 قبل مسیح سے 232 قبل مسیح تک تھا ۔ اس کے بعد 2 قبل مسیح تک 234 سال کا کچھ پتا نہیں پھر کشان 2 قبل مسیح سے 7 عیسوی تک حکمران رہا ۔ اس کے بعد کرکوٹا کا عہد آیا ۔ انہیں 855 عیسوی میں اوتپلاس نے نکال دیا ۔ ان کے بعد تنترین ۔ یسکارا اور گپتا 1003ء تک ایک دوسرے کی جگہ لیتے رہے ۔ پھر لوہارا 1346ء تک جموں کشمیر میں رہے ۔ یہ صحیح طرح معلوم نہیں کہ ان سب کے زیر اثر کتنا علاقہ تھا
سال 1346ء میں شمس الدین التمش (یا تتمش) نے جموں کشمیر کو فتح کیا اور یہاں مسلم ریاست کی بنیاد رکھی ۔ اس سلطنت میں گلگت ۔ بلتستان اور لدّاخ بھی شامل تھے ۔ 1586ء میں شہنشاہ مغلیہ جلال الدین اکبر نے جموں کشمیر کو سلطنت مغلیہ میں شامل کر لیا ۔ اس وقت جموں کشمیر کے 80 فیصد کے لگ بھگ لوگ مسلمان تھے ۔ سال 1757ء میں احمد شاہ درّانی نے جموں کشمیر کو فتح کر کے افغانستان میں شامل کر لیا ۔ مگر مرکز سے دور ہونے کی وجہ سےجموں کشمیر میں آہستہ آہستہ انتظامی ڈھانچہ کمزور پڑ گیا چنانچہ پونے پانچ سو سال مسلمانوں کی حکومت رہنے کے بعد 1819ء میں رنجیت سنگھ نے جموں کشمیر کو فتح کر کے اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا
جموں کشمیر کے مسلمانوں کی تحریک آزادی
حکوت بنانے کے بعد سکھ حکمرانوں نے مسلمانوں پر ناجائز ٹیکس لگائے جس کے نتیجہ میں جموں کشمیر میں آزادی کی پہلی تحریک نے جنم لیا ۔ یہ تحریک 1832ء میں شروع ہوئی اور سکھ حکومت کے جبر و استبداد کے باوجود 1846ء تک جاری رہی جب انگریزوں نے سکھوں کو شکست دے کر ان کی سلطنت پر قبضہ کر لیا ۔ انگریزوں نے باقی علاقہ تو اپنے پاس رکھا مگر جموں کشمیر کو 75 لاکھ یعنی ساڑھے سات ملین نانک شاہی سکوں کے عوض اپنے خاص خیرخواہ گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھ بیچ دیا اور اسے جموں کشمیر کا خودمختار مہاراجہ بھی تسلیم کر لیا ۔ اس فیصلہ کے خلاف مسلمانوں نے آزادی کی دوسری تحریک شروع کی جس کو کُچلنے کے لئے گلاب سنگھ نے انگریزوں سے مدد مانگی اور اس تحریک کو سختی سے دبا دیا گیا
لدّاخ نہ تو سکھوں کی حکومت میں شامل تھا اور نہ انگریزوں نے اس پر قبضہ کیا ۔ گلاب سنگھ نے لشکر کشی کر کے اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا ۔ 1857ء میں گلاب سنگھ کے مرنے کے بعد رنبیرسنگھ نے 1885ء تک حکومت کی ۔ اس کے بعد پرتاب سنگھ 1925ء تک حکمران رہا اور ہری سنگھ 1949 تک ۔
ڈوگرہ مہاراجوں کا دور جابرانہ اور ظالمانہ تھا ۔ مسلمانوں کو نہ تحریر و تقریر کی آزادی تھی نہ دِینی اور سماجی سرگرمیوں کی ۔ مگر مہاراجہ ہری سنگھ نے تو اِنتہا کر دی ۔ لاؤڈ سپیکر پر اذان اور جمعہ اور عیدین کے خطبہ پر بھی پابندی لگا دی گئی ۔ اس پر پوری ریاست میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ۔ بزرگوں نے جوان قیادت کو آگے لانے کا فیصلہ کیا ۔ اتفاق رائے کے ساتھ جموں سے چوہدری غلام عباس ۔ سردار گوہر رحمان (ہمارے خاندان سے) ۔ شیخ حمید اللہ وغیرہ اور کشمیر سے شیخ محمد عبداللہ ۔ یوسف شاہ (موجودہ میر واعظ عمر فاروق کے دادا) ۔ غلام نبی گُلکار وغیرہ کو چنا گیا ۔ 26 جون 1931ء کو سرینگر کی مسجد شاہ ہمدان میں جموں کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہوا جس میں پچاس ہزار مسلمانوں نے شرکت کی ۔ جب لیڈر حضرات آپس میں مشورہ کر رہے تھے تو ایک شخص جسے کوئی نہیں پہچانتا تھا نے اچانک سٹیج پر چڑھ کر بڑی ولولہ انگیز تقریر شروع کر دی ۔اور آخر میں کہا “مسلمانوں اِشتہاروں اور جلسوں سے کچھ نہیں ہوگا اُٹھو اور مہاراجہ ہری سنگھ کے محل کی اینٹ سے اینٹ بجا دو” ۔ اس شخص کا نام عبدالقدیر تھا وہ امروہہ کا رہنے والا تھا جو یوپی ہندوستان میں واقع ہے اور ایک انگریز سیاح کے ساتھ سرینگر آیا ہوا تھا ۔ اُسے گرفتار کر لیا گیا
عبدالقدیر کے خلاف مقدمہ کی سماعت 13 جولائی 1931 کو سرینگر سینٹرل جیل میں ہو رہی تھی ۔ مسلمانوں کو خیال ہوا کہ باہر سے آیا ہوا ہمارا مسلمان بھائی ہماری وجہ سے گرفتار ہوا ہے ۔ 7000 کے قریب مسلمان جیل کے باہر جمع ہوگئے ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں مقدمہ کی کاروائی دیکھنے دی جائے ۔ ڈوگرہ حکمرانوں نے اس کی اجازت نہ دی جس پر تکرار ہو گئی اور ہندو آفیسر نے بغیر وارننگ کے پولیس کو گولی چلانے کا حکم دے دیا ۔ 22 مسلمان شہید اور بہت سے زخمی ہوئے ۔ شہید ہونے والے ایک شخص نے یہ آخری الفاظ شیخ عبداللہ سے کہے “ہم نے اپنا کام کر دیا اب آپ اپنا کام کریں”۔ اسی شام جموں کے چوہدری غلام عباس ۔ سردار گوہر رحمان ۔ مولوی عبدالرحیم اور شیخ یعقوب علی اور کشمیر کے شیخ محمد عبداللہ اور خواجہ غلام نبی گُلکار کو گرفتار کر لیا گیا
اس پر غلامی کا طوق جھٹک دینے کے لئے جموں سے ایک زور دار تحریک اُٹھی اور جموں کشمیر کے شہروں ۔ قصبوں اور دیہات میں پھیل گئی ۔ اس تحریک کے سربراہ چوہدری غلام عباس تھے ۔ پھر 1932ء میں پہلی سیاسی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس تشکیل دی گئی ۔ شیخ محمد عبداللہ اس کے صدر اور چوہدری غلام عباس جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے ۔ یہ تحریک پورے جوش و خروش سے جاری رہی جس کے نتیجہ میں مہاراجہ ہری سنگھ جمہوری نظام قائم کرنے پر مجبور ہوا اور 1934ء میں دستور ساز اسمبلی بنا دی گئی ۔ گو یہ مکمل جمہوریت نہ تھی پھر بھی مسلمانوں کے کچھ حقوق بحال ہوئے ۔ 1934ء 1938ء 1939ء اور شروع 1947ء میں اس اسمبلی کے پورے جموں کشمیر میں انتخابات ہوئے جن میں آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس 80 فیصد یا زائد نشستیں لے کر جیتی
Pingback: Tweets that mention Post: تحريک آزادی جموں کشمير ۔ تاريخی پس منظر اور آغاز -- Topsy.com
تحریک آزادی کے تاریخی پس منظر پر بہت اچھی معلومات فراہم کی ہیں۔ اس کے لیے شکریہ۔۔۔
بہت اچھی معلومات ہیں۔ افتخار صاحب آپ کی اس معاملے پر گہری نظرہے، یہ بتائیں کہ جموع کا علاقے میں مسلمان اقلیت میں کیسے تبدیل ہوگئے اور لداخ کی کیا صورت حال۔
کیا کشمیر کی تقسیم کیا کوئی فارمولا کشمیریوں کو قابل قبول ہوگا۔ جیسے پوری وادی کشمیر پاکستان کی طرف آجائے اور جموع و لداخ مستقل طور پر بھارت کو دے دیا جائے۔
ہاں ایک اور بات کہ تحریک آزادی میں 1989 کی طرز کی اچانک شدت کیسے نمودار ہوئی ہے، لوگ کہ رہے کہ لاوا 2007 سے پکنا شروع جو اچانک پھٹا ہے۔ اور آخر میں آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں کہ مقبوضہ جموع و کشمیر کی موجودہ ابتر صورت حال کو پاکستانی میڈیا اور حکومت کیوں نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔
وقاراعظم صاحب
حوصلہ افزائی کا شکريہ
کاشف نصير صاحب
حوصلہ افزائی کا شکريہ ۔ لداخ کی صورتِ بھارت کے قبضہ کے بعد کيا ہوئی ميرے علم ميں نہيں ہے ۔ جموں کشمير کے مسلمان پورا جموں کشمير چاہتے ہيں کسی تقسيم کو نہيں مانيں گے ۔
اگست 1947ء ميں جموں صوبہ ميں مسلمان اکثريت ميں تھے مگر دو يا تين اضلاع ميں ہندو اکثريت ميں تھے ۔ اکتوبر نومبر 1947ء ميں ڈوگرہ اور بھارتی فوج کی پشت پناہی سے مہاراشٹريہ سيوک سنگ ۔ ہندو مہاسبہ اور اکالی دل کے تربيت يافتہ مسلحہ گروہوں نے 3 لاکھ مسلمانوں کا قتلِ کيا جس ميں آدھے سے زيادہ صرف 6 اور 7 نومبر 1947ء کو ہلاک کئے گئے ۔ ميں اِن شاء اللہ اس پر بھی لکھوں گا بلکہ پوری تحريک بشمول 1989ء کے واقعات پر لکھوں گا ۔
ہمارے حکمران اور ذرائع ابلاغ دولت اور جھوٹی شہرت کے بھوکے ہيں ۔ ان کی غلط کاروائيوں کا نتيجہ ہے کہ آج پاکستان ميں پانی کی قلت ہے ۔ يہ بھی تحريکِ آزادی جموں کشمير کا خلوصِ نيت سے ساتھ نہ دينے کا نتيجہ ہے
میری معلومات ممکن ہے مکلمل درست نہ ہوں
اس وقت جب پاکستن کا قیام عمل میں آیا کشمیر میں واحد شخصیت شیخ محمد عبد اللہ کی تھی جس پہ دارومدارتھا کشمیر کس جانب جاءےگا وہ 80 فی صد آبادی کے مانے ہوئے لیڈر تھے اور ان کی دوستی نھرو کے ساتھ تھی محمد علی جناح سے نہیں- شیخ صاحب کا موءقف تھا کشمیر صرف کشمیریوں کا ہے اور نہ پاکستان سے الحاق ہوگا نہ ہندوستان سے۔ ہمارے گاءوں میں پہلے تو ‘شیر کشمیر’ کے نعرے لگتے تھے مگر جب راجہ دہلی بھاگ گیا اور الحاق انڈیا کے ساتھ کر گیا تو صورت حال تبدیل ہونے لگی شیخ عبد اللہ کو غدار کشمیر کا خطاب ملگیا شیخ صاحب کو مائونٹ بیٹن اور نہرو کے گٹھ جوڑ کا احساس نہیں تھا اور غلطی کھا گئے پھر جب انھیں احساس ہئوا تب تک پانی سر سے گزر چکا تھا جب انڈیا نے انھیں جیل میں جھونکا تو وہ پھر سے ‘شیر کشمیر’ ہو گئے چوہدری غلام عباس کا نام ہم کم سنا کرتے تھے ایک بار جب وہ بھمبر تقریر کے کیئے آئے تو انھین دیکھنے گیا تھا شیخ صاحب کو میں نے نہیں دیکھا
میرے خیال میں ممکن ہے اس میں مسلم لیگی لیڈرون کی بھی کچھ غلطی ہے کہ شیخ صاحب سے پورا رابطہ نہیں رکھا گیا تھا اور یہ تصور کر لیا گیا تھا کہ ‘کشمیر’ پاکستان کا حصہ ہے
میری ان باتوں پر روشنی ڈالیئے
بھائی وھاج الدين احمد صاحب
شيخ عبداللہ صاحب 1947ء ميں قيد تھے اُنہيں 7 نومبر 1947ء کو قيد سے نکال کر رياست کا وزيراعظم بنا ديا گيا تھا کيونکہ حالات ڈوگرہ حکومت کی گرفت سے باہر ہوتے نظر آ رہے تھے ۔ 24 اکتوبر 1947ء سے مسلحہ تحريک آزادی شروع ہو چکی تھی اور باوجود 27 اکتوبر کو بھارتی فوجوں کے رياست ميں داخل ہو جانے کے رياست ہاتھ سے نکلتی محسوس ہو رہی تھی ۔ شيخ عبداالہ صرف اس وعدے پر وزير اعظم بنے تھے کہ جموں ميں مسلمانوں کا مزيد قتلِ عام نہيں کيا جائے گا ۔ مگر اس وقت تک جموں خالی ہو چکا تھا ۔ 3 لاکھ کے قريب ہلاک کئے جا چکے تھے باقيوں کو پاکستان دھکيل ديا گيا تھا
سياست کے متعلق اِن شاء اللہ لکھوں گا