پاکستان کے ايک چڑيا گھر ميں ايک شير کو روزانہ صرف 2 کلوگرام گوشت کھانے کو ديا جاتا تھا ۔ وہ دن بدن کمزور ہوتا جا رہا تھا ۔ حالات سے تنگ وہ دعا کرتا کہ مجھے کسی اور ملک بھيج ديا جائے ۔ ايک دن دبئی کا پاکستان کے دورے پر آيا ہوا ايک شیخ چڑيا گھر آيا اور ايک شير دبئی بھيجنے کی درخواست کی ۔ شير خوش ہوا کہ قسمت جاگ گئی دبئی ميں ايئرکنڈيشنڈ چڑيا گھر ميں رہوں گا اور کھانے ميں بھی دو نہيں تو ايک بکرا روزانہ ملے گا
دبئی کے چڑيا گھر پہنچنے پر پہلے دن ايک خوبصورت تھيلے ميں نفاست سے بند کی ہوئی اس کی خوراک آئی ۔ اُس نے تھلا کھولا تو اس ميں کيلے تھے مگر تھے بڑے بڑے اور عمدہ معيار کے ۔ شير نے خيال کيا کہ ہو سکتا ہے کہ چڑيا گھر کے مہتمم نے سوچا ہو کہ پاکستان سے آنے کے بعد ميرا پيٹ خراب نہ ہو جائے اور صبر شکر کر کے کيلے کھا لئے ۔ دوسرے دن تھيلا آيا تو اس ميں بھی کيلے نکلے ۔ غصہ آيا مگر کھا ليا ۔ جب تيسرے دن بھی کيلے آئے تو شير نے کيلوں کا تھيلا لانے والے ملازم کو روک کر کہا “تمہيں نظر نہيں آتا کہ ميں شير ہوں ؟ جا کر مہتمم کو بتاؤ کہ ميں شير ہوں”۔ ملازم جا کر واپس آيا اور بولا “تم ہو تو شير مگر سرکاری ريکارڈ ميں بندر لکھا ہے کيونکہ تم بندر کے ويزہ پر آئے تھے”
چلیں بذریعہ لانچ نہیں گیا۔ورنہ شیخوں نے شیر کو پکا تے نسلی غلام بنا لینا تھا۔یہ سرکاری ریکارڈ مسلوں کا ھے۔یہ شیر اگر عیسائیوں کے دیس میں جاتا تو انسان جیسے حقوق ملتے نہ کہ مسلمانوں کےشیر جیسے۔
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » مسئلہ ويزے کا -- Topsy.com
اچھا لطیفه هے پڑھ کر کرب کا احساس هوا
اگر ویزے کی کیٹاکری کی بات هط تو جی یهاں جاپان میں بہت سے گدھے شیر کے ویزے پر آکئے هیں
شاید میں بھی
زبردست لطیفہ ہے