سائنس نے بہت ترقی کی ۔ موت کی رفتار تو بڑھ گئی مگر زندگی بے آسرا ہی رہی
بنکر بسٹر بم [Bunker Buster Bomb] تو بہت بنا لئے گئے مگر ماں کی محبت کو پھيلانے والا آلہ کسی نے نہ بنايا
پستول ۔ بارود اور ہيروئين بھانپ لينے والے آلات تو بن گئے مگر ماں کے احساسات کو پڑھنے يا ناپنے والا کوئی آلہ ايجاد نہ ہوا
انسان نے بڑے پيمانے پر فنا اور کُشت و خون کے تيز رفتار طريقے تو ايجاد کر لئے مگر ماں کی قدر و منزلت اُجاگر کرنے کوئی آلہ نہ بن سکا
ميں اپنی ماں سے آج سے 30 سال قبل 29 جون 1980ء کو ہميشہ کيلئے جُدا ہو گيا تھا اور جيسے ساتھ ہی قبول ہونے والی پُرخلوص دعاؤں سے بھی محروم ہو گيا
اے جوانوں جن کی مائيں زندہ ہيں وقت کو ضائع مت کرو اور اپنی ماؤں کی اتنی خدمت کرو کہ ماں کے جسم کے ہر رونگٹے سے دعا نکلے
ماں کی دعا اللہ نہيں ٹھکراتا کيونکہ وہ ڈانٹتی ہے تو ہونٹوں سے ۔ دعا ديتی ہے تو دل کی گہرائيوں سے
اس حوالے سے ايک اچھوتا واقعہ
لانس آرام سٹرانگ 1971ء میں پیدا ہوا ۔ وہ دو ہی سال کا تھا کہ اس کا باپ اس کی ماں کو چھوڑ کر چلا گیا۔ اس کی ماں اس وقت بمشکل 19 برس کی تھی۔ اس نے مختلف جگہوں پر نوکریاں کرکے لانس آرم سٹرانگ کو پالا اوربچپن ہی میں اسے اتھلیٹ بننے کی تربیت دی۔ وہ اسے باقاعدہ اتھلیٹک کے مقابلوں میں حصہ لینے کیلئے لے جاتی اور اس کی حوصلہ افزائی کرتی۔ لانس آرم سٹرانگ نے سائیکلنگ کو اپنے لئے منتخب کیا اور 20 سال کی عمر میں امریکہ کی شوقیہ سائیکلنگ کا چمپئن بن گیا۔ 4 برس کے بعد سارے مقابلے جیت کر وہ سائیکلنگ کا عالمی چمپئن بن گیا
1996ء میں جب وہ عالمی چمپئن بن چکا تھا تو ڈاکٹروں نے تشخیص کی کہ اسے کینسر ہے اور یہ کینسر پھیپھڑوں اور دماغ تک پھیل چکا ہے۔ اس موذی مرض کا راز اس وقت کھلا جب آرام سٹرانگ ڈیڑھ ڈیڑھ سو کلو میٹر سائیکلنگ کے مقابلے جیت چکا تھا، وہ اپنے سائیکل پر پہاڑوں کے دل روند چکا تھا اور صرف 21 برس کی عمر میں امریکہ کے ہیرو کا درجہ حاصل کرچکا تھا ۔ ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق آرم سٹرانگ کے زند ہ رہنے کے امکانات 40 فیصد سے زیادہ نہ تھے کیونکہ سرطان جسم کے اندر خطرناک مقامات تک پھیل چکا تھا۔ ڈاکٹروں کا فیصلہ تھا کہ اب آرم سٹرانگ کبھی سائیکلنگ کے مقابلوں میں حصہ نہیں لے سکے گا اور وہ جسمانی طور پر کسی بھی کھیل کے لئے فِٹ نہیں ہوگا۔ جب یہ ساری رپورٹیں آرم سٹرانگ کو دکھائی گئیں تو اس نے جان لیوا بیماری کے سامنے ہار ماننے سے انکارکردیا اور اعلان کیا کہ وہ ڈٹ کر اور مضبوط قوت ِ ارادی کے ساتھ اس بیماری کا مقابلہ کرے گا اور کھیل کے میدان کی مانند بیماری پر بھی فتح حاصل کرے گا۔ 1996ء میں اس کا علاج شروع ہوا اور اس کی شدید کیموتھراپی کی جانے لگی۔ کیموتھراپی سے کینسر کا مریض کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جاتا ہے، اکثر اوقات اس سے بال جھڑ جاتے ہیں اور چہرہ زرد پڑ جاتا ہے لیکن آرم سٹرانگ کی قوت ِ ارادی، بلند حوصلگی، جذبے اور یقین محکم نے رنگ دکھایا۔ اس کی ماں کی دعاؤں نے صحت یابی کی راہ ہموار کی اور 2سال کے اندر اندر آرم سٹرانگ نے بیماری کو شکست دے کر یہ ثابت کر دیا کہ سرطان جیسے مرض کو بھی مضبوط قوت ِ ارادی سے شکست دی جاسکتی ہے
آرم سٹرانگ 2 سال بعد میدان میں اُترا تو پتہ چلا کہ اس کا کنٹریکٹ ختم ہو چکا ہے اور کھیلوں کی دنیا اسے ہمیشہ کے لئے خدا حافظ کہہ چکی ہے ۔ آرم سٹرانگ حالات سے گھبرانے والا اور ہار ماننے والا انسان نہیں تھا چنانچہ اس نے 1999ء میں دوبارہ سائیکلنگ ریس میں حصہ لیااور پھیپھڑوں کی کمزوری کے باوجود چوتھی پوزیشن لے کر دنیاکو حیران کر دیا۔ اس تمام عرصے میں آرم سٹرانگ کا اپنی ماں سے گہرا تعلق قائم رہا۔ وہ ماں سے کتنی محبت کرتا تھا اور اسے کیا مقام دیتا تھا اس کا اندازہ اس ایک واقعے سے ہوتا ہے کہ آرم سٹرانگ نے 1992ء میں اوسلو ناروے میں منعقد ہونے والی عالمی ریس میں حصہ لیا اور دنیا بھر کے مشہور سائکلسٹوں کو شکست دے کر عالمی چمپئن بن گیا۔ اس کی شاندار کارکردگی سے متاثر ہو کر ناروے کے بادشا ہ نے اسے ملاقات کی دعوت کااعزاز بخشا ۔آرم سٹرانگ نے یہ کہہ کردعوت نامہ مسترد کر دیا کہ جب تک میری ماں کو دعوت نہیں دی جاتی میں یہ دعوت نامہ قبول نہیں کروں گا چنانچہ ناروے کے بادشاہ نے آرم سٹرانگ اور اس کی ماں دونوں کو دعوت نامے بھجوائے اور ان کی عزت افزائی کی
آرم سٹرانگ کی مضبوط قوت ِ ارادی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ وہ کینسر کو پوری طرح شکست دینے کے لئے 1999ء میں فرانس پہنچ گیا جہاں ہر سال سائیکلنگ کا عالمی مقابلہ ہوتا ہے جسے ٹور دی فرانس [Tour De France] کے نام سے یاد کیاجاتا ہے۔ اس نے اس عالمی مقابلے میں حصہ لیا اور سب کو پیچھے چھوڑ کر ایک بار پھر مقابلہ جیت لیا ۔ اس کے بعد لانس آرم سٹرانگ مسلسل سات برس تک ٹور دی فرانس میں حصہ لیتا رہا اور عالمی چمپئن بنتا رہا اور مسلسل سات برس تک عالمی چمپئن بن کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا جسے ماہرین کے مطابق شاید ایک سو برس تک توڑا نہ جاسکے
اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جن پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد ِ آدم… یعنی اشرف المخلوقات کو ایک ایسی بے بہا صلاحیت، ناقابل تسخیر قوت اور نادر تحفے سے نوازا ہے جس کی تربیت کرکے اور جس سے کام لے کر انسان ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے اور جس کی قوت سے وہ نہ ہی صرف کائنات کو سرنگوں کرسکتاہے بلکہ بڑی سے بڑی مشکلات پر قابو پاسکتا ہے، موذی سے موذی مرض کو شکست دے سکتا ہے، پہاڑوں کے دل روند سکتا ہے، بلند ترین چوٹیوں کو مسخر کرسکتا ہے، سمندروں کے رخ موڑ سکتا ہے اور زندگی میں وہ سب کچھ حاصل کرسکتا ہے جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہے
قدرت کی اس بے بہا صلاحیت اور نادر تحفے کا نام ہے قوت ِ ارادی
قدرت فیاض ہے اور قدرت یہ صلاحیت تمام انسانوں کو دیتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کچھ لوگ اس صلاحیت سے کام لے کر آسمان کی بلندیوں کو چھو لیتے ہیں، کامیابیوں کی داستانیں بن جاتے ہیں جبکہ اس صلاحیت سے فائدہ نہ اٹھانے والے کرہءِ ارض پر کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگتے رینگتے زندگی گزار دیتے ہیں
مضمون تو اچھا ہے مگر ميری امی تو چوبيس گھنٹے بھائی کے ليے دعاؤں ميں مصروف رہتی ہيں وہ تو وہيں کھڑا ہے جہاں پيدا ہوا تھا
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » قوتِ ارادی اور ماں کی دعا -- Topsy.com
اسماء بتول صاحبہ
لگتا ہے آپ کی طرح آپ کا بھائی بھی نکما ہے
ارے ارے ۔ ٹھہر جاؤ ۔ رونا نہيں شروع کرو ۔
اس ميں والدہ محترمہ کا کيا قصور ہے ؟ والدہ محترمہ لذيذ کھانا پکا کر نوالہ آپ کے منہ ميں بھی ڈال ديں اور نہ آپ نہ چبائيں نہ نگليں تو کيا کھانا خود بخود ہضم ہو جائے گا ؟
بھائی سے کہيئے کہ وہ بھی اپنا دماغ اور جسم استعمال کرے
بھائی پٹرول کی گاڑی نہيں ہے کہ اماں اس ميں پٹرول ڈال کر سٹارٹ کر کے اور چلا کے کہيں لے جائيں گی
السلام علیکم ورحمۃو برکاتہ،
افتخاربھائی، آپ نےبہت اچھامضمون لکھاہے۔ واقعی میں نےبھی کئی دفعہ اس کاتجربہ بھی کیاہےکہ جب بھی مجھ پرمشکل پڑی میں نےاپنی ماں جی کوکہاکہ کچھ مشکل ہےآپ دعاکریں تواللہ تعالی نےاس مشکل سےنجات دےدی۔واقعی ماں کی دعامیں رب تعالی نےبہت طاقت دی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں والدین کی صحیح طورپرخدمت کرنےکی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین
والسلام
جاویداقبال
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
اللہ تعالی آپ کی والدہ کوجنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین ثم آمین
والسلام
جاویداقبال
میں کبھی ہمت نہیں ہارتا کیوں کہ مجھے پتا ہے میری ماں کی دعائیں میرے ساتھ ہیں۔
اُترنے ہی نہیں دیتی مجھ پر کوئی آفت
میری ماں کی دعاؤں نے آسماں کو روک رکھا ہے