غیرت کا جو استعمال وطنِ عزیز میں ہے اُسے دیکھ کر بعض اوقات کہنا پڑتا ہے کہ ایسی غیرت سے ہم باز آئے ۔ دو مثالیں ذہن میں آئی ہیں ايک اَن پڑھ گھریلو ملازم کی اور دوسری پڑھے لکھے افسر کی
اَن پڑھ کی غيرت
واقعہ ہے 1980ء کی دہائی کا ۔ ایک عورت نے ميری بيگم کے سامنے اپنی مُفلسی بيان کر کے ملازمہ رکھنے کی درخواست کی ۔ اُسے گھر کا کام کرنے کيلئے اسے رکھ ليا گيا اور اس کے خاندان کو اپنی رہائشگاہ سے منسلک کوارٹر میں رہائش دی ۔ اُن کی حالت يہ تھی کہ گال پچکے ہوئے کپڑے خستہ ۔ ميری بيوی مدد کرتی رہی ۔ اللہ نے کرم کيا دوڈھائی سال میں سب صحتمند اور خوشحال ہو گئے ۔ ايک دن اس ملازمہ نے بدتميزی کی جس پر ميری بيوی نے صرف اتنا کہا “ميرے سامنے اس طرح بولتے ہوئے تمہيں شرم نہيں آتی”۔ کچھ دن بعد وہ لوگ کوارٹر خالی کر کے چلے گئے ۔ ڈيڑھ دو سال بعد اس ملازمہ کا خاوند مجھے سڑک پر ملا ۔ کپڑے ميلے کچلے ۔ قميض پھٹی ہوئی ۔ گال چار سال قبل کی طرح پچکے ہوئے ۔ حال احوال پوچھا تو جن کے ہاں کام کيلئے رہ رہے تھے اُن کے ظلم کی داستان سنائی
میں نے کہا کہ “واپس ہمارے پاس آ جاتے”
کہنے لگا “غيرُت آنی آئی [غیرت کی وجہ سے نہيں آيا]”
پڑھے لکھے کی غيرت
دو دہائيوں سے زيادہ عرصہ ہوا کہ ٹيکسلا میں ایک شخص قتل ہو گيا ۔ قصہ مختصر يوں تھا کہ ‘ب” نے “ج” کے گھر والوں کے ساتھ کوئی زيادتی کی جبکہ “ج” گھر پر موجود نہ تھا ۔ گھر آنے پر واقعہ کا عِلم ہوا تو “ج” نے “ب” کے گھر جا کر اُسے آواز دی ۔ جب “ب” باہر نہ نکلا تو “ج” نے “ب” کو بُرا بھلا کہا ۔ تھوڑی دير بعد “ب” ہاتھ میں پستول لئے نکلا اور آتے ہی “ج” کو ہلاک کر دیا ۔ پاکستان آرڈننس فیکٹريز کی انتظاميہ میں ايک گریڈ 18 کے افسر جنہوں نے ماسٹر آف ایڈمن سائنس پاس کيا ہوا تھا ٹيکسلا میں رہتے تھے ۔ میں نے اُن سے قتل کی وجہ دريافت کی تو وہ يوں گويا ہوئے “دیکھيں نا جی ۔ غيرت بھی کوئی چيز ہوتی ہے ۔ “ج” نے “ب” کو گالياں ديں ۔ “ب” کو غيرت تو آنا تھی ۔ اُس نے جو کيا درست کيا ”
دراصل! غیرت جیسے معاملات اب بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور اب صرف غیرت کے نام پر بے غیرتی ہو رہی ہے۔
اللہ ہی رحم کرے
دونوں کے لۓ آپ نے غیرت کا لفظ غلط استعمال کیا ھے۔پہلے والے کو شر م آتی تھی۔اور دوسرے والے کو غصہ آیا
ا ب ت صاحب يا صاحبہ
تشريف آوری کا شکريہ ۔ غيرت کا لفظ ميں نے استعمال نہيں کيا ۔ جو کچھ اُن دونوں نے کہا تھا ميں نے لکھ ديا ہے
وہ تو گئی تیمور کے گھر سے!