امریکی تھنک ٹینک کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں دینی مدرسے نہیں بلکہ سرکاری تعلیم کا ناقص نظام عسکریت پسندی کے فروغ کی وجہ بن رہا ہے ۔ بروکنگز انسٹيٹیوٹ کی رپورٹ جو آج جاری کی جارہی ہے میں عسکریت پسندی اور تعلیم کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سکولوں ميں اندراج کی کم شرح تشدد کا رجحان بڑھانے کا خطرہ پیدا کررہی ہے جبکہ تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے بارے میں پاکستان کی صلاحیت طلب سے بہت کم ہے
پاکستان کا سرکاری تعلیمی نظام بہت زیادہ کرپٹ ہے اور محکمے میں عہدے سیاسی بنیادوں پر دیئے جاتے ہیں جبکہ اساتذہ چاہے کلاسیں لیں یا نہ لیں انہیں تنخواہ ملتی رہتی ہے ۔ پاکستان میں ہر آنے والی حکومت تعلیم کو اپنے سیاسی عزائم پورا کرنے کیلئے آلے کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق سرکاری اسکولوں کا نصاب اور طریقہ تدریس عدم برداشت کو جنم دینے کا سبب بننے کے علاوہ طلباء کو لیبر مارکیٹ کے مطابق تیار کرنے میں بھی ناکام ثابت ہورہا ہے ۔ جس سے نوجوان مایوسی کا شکارہورہے ہیں اور نتیجتاً عسکریت پسندوں کی بھرتی کا دائرہ بڑھ رہا ہے
بروکنگز کے ماہرین کے مطابق دینی مدارس کے بارے مغرب میں پایا جانے والا یہ تصور غلط ہے کہ وہ عسکریت پسندی کو فروغ دے رہے ہیں کیونکہ صرف اسکول جانے کی عمر کے بچوں کا 10 فیصد سے بھی کم مدرسوں میں جاتا ہے ۔ اس لئے انہیں اچھی تعلیم اور استحکام میں رکاوٹ سمجھنا غلط ہے جبکہ سیکیورٹی کیلئے چیلنج سمجھتے ہوئے صرف مدرسوں پر توجہ مرکوز کرنے کی غلطی کی بھی تصحیح ہونی چاہیئے ۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں صرف 54 فیصد آبادی پڑھ سکتی ہے اور 5 سے 9 سال کی عمر کے 68 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے جبکہ ایک چوتھائی سے بھی کم لڑکیاں ابتدائی اسکول کی تعلیم مکمل کرپاتی ہیں ۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اسکولوں تک رسائی کی کمی تنازعات اور عسکریت پسندی کے فروغ کا سبب بنتی ہے