Monthly Archives: May 2010

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ عوامی نظریہ ضرورت

ہنری بريکٹن [1210 تا 1268ء] ايک برطانوی ماہرِ قانون تھا جس نے کہا تھا “جو عمل قانونی نہ ہو وہ ضرورت کے تحت قانونی بن جاتا ہے”۔ پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل غلام محمد نے من مانی چلانے کيلئے بغير کسی جواز کے پہلے مُنتخب وزير اعظم پھر مُنتخب کابينہ فارغ کر دی اور پھر پاکستان کی مُنتخب اسمبلی کو 24 اکتوبر 1954ء کو اُس وقت چلتا کيا جب اسمبلی پاکستان کا آئين متفقہ طور پر منظور کرنے والی تھی ۔ اس کے خلاف اسمبلی کے سپيکر مولوی تميز الدين صاحب نے سندھ چيف کورٹ [اب ہائيکورٹ] میں پيٹيشن دائر کر دی جو منظور ہو گئی ۔ غلام محمد اور اس کے نامزد نئے وزراء نے اس کے خلاف اپيل دائر کی جس کا فيصلہ مارچ 1955ء ميں عدالت نے جسٹس منير کی سربراہی میں غلام محمد کے حق میں دے ديا ۔ اس کے نتيجہ میں 1950ء سے لے کر اُس دن تک جو بھی کاروائی ہوئی تھی سب غيرقانونی ہو گئی ۔ اس انتشار سے بچنے کيلئے غلام محمد نے اسمبلی توڑنے کے علاوہ تمام احکام کی پرانی تاريخوں سے منظوری کا حکمنامہ جاری کر ديا ۔ اس کالے قانون ‘نظريہ ضرورت” کا استعمال بار بار کيا گيا جس کے نتيجہ میں ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے

يہ تو معاملات حکومتی ہيں جنہيں آج تک سب بُرا کہتے آئے ہيں ليکن “نظريہ ضرورت” کا کُليہ ہماری قوم کی رگوں میں اس قدر حلُول کر چکا ہے کہ جسے ديکھو وہ پورے کرّ و فر سے اس کا استعمال کر رہا ہے ۔ بات چاہے پہاڑوں پر برف پڑنے سے شروع ہو يا درياؤں کا پانی کم ہونے سے ۔ نظامِ تعليم سے يا کھيلوں سے ۔ بات پٹرول اور گيس کی قمتيں بڑھنے کی ہو يا بجلی کی کمی کی ۔ کسی طرح گھسيٹ گھساٹ کر اس میں اسلام اور انتہاء پسندی ضرور لائی جاتی ہے يا کسی طرح مُلا کے اسلام سے ناپسنديدگی کا اظہار ضرور ہوتا ہے

کبھی ان باعِلم اور ہرفن مولا لوگوں نے سوچا کہ يہ مُلا آئے کہاں سے آئے ہيں ؟ اور اِنہيں مسجدوں میں کس نے بٹھایا ہے ؟

جن لوگوں کو مُلا کا اسلام پسند نہيں وہ کونسا اسلام رائج کرنا چاہتے ہيں ؟ وہ اسلام جو اُنہيں من مانی کرنے کی اجازت دے ؟

ايک مسئلے کا حل تو ان لوگوں کے ہاتھ ميں ہے ۔ اگر یہ مُلا بقول ان کے جاہل ہیں تو اپنے محلے کی مسجد کے مُلا کو ہٹا کر وہاں دين اسلام میں اعلٰی تعليم یافتہ آدمی کو مسجد کا امام بناديں ۔ کس نے ان کو ايسا کرنے سے روکا ہے ؟ ليکن وہ ايسا نہيں کريں گے کيونکہ يہی مُلا جس کو وہ اپنی تقريروں اور تحريروں میں جاہل ۔ انتہاء پسند اور نجانے کيا کچھ کہتے ہيں وہ اپنا اور اپنے بيوی بچوں کا پیٹ بھرنے کيلئے محلہ والوں کا دستِ نگر ہے اور اُن کے ہر جائز و ناجائز فعل پر اُن کی مرضی کا فتوٰی ديتا ہے

تعليم يافتہ امام مسجد رکھيں گے تو پندرہ بيس ہزار روپيہ ماہانہ تنخواہ مانگے گا ۔ بات صرف وہ کرے گا جو قرآن و حديث میں ہے اور محلہ والوں کے خلافِ دين افعال پر تنقيد بھی کرے گا ۔ ايسے شخص کو يہ لوگ کيسے برداشت کر سکتے ہيں ؟

ايک اور پہلو ہے جسے شدّ و مد کے ساتھ نظر انداز کيا جاتا ہے ۔ کيا يہ مُلا ہمارے ہی معاشرہ کا حصہ نہيں ہيں ؟ کونسی بُرائی ہے جو ہمارے معاشرے کے ہر طبقہ ميں نہيں ؟ پھر اگر ايک شخص نے داڑھی رکھ لی ہے اور اُس ميں وہی بُرائی ہے جو معاشرے کے دوسرے طبقات جن ميں اکثر مراعات يافتہ ہيں ميں بھی ہے تو مطعون صرف داڑھی والے کو کيوں کيا جاتا ہے ؟

لوگ صرف باتوں پر اکتفا کرتے ہيں کہ آج کی سياست اور کشادہ نظری کی بنياد تقرير و تحرير پر قائم ہے عمل پر نہيں
جبکہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
يہ خاکی اپنی فطرت ميں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

دو سطريں

دو سطروں کے لطيفے ۔ کہاوتيں ۔ بول وغيرہ بھيجنے کی دعوت دی گئی ۔ جن دو سطروں نے انعام پايا وہ يہ ہيں

ايک فلسفی نے لکھا
“زندگی ميں ميری کھو جانے والی اشياء ميں سے
سب سے زيادہ کمی ميں اپنے دماغ کی محسوس کرتا ہوں”۔

جب عورت ہی عورت کی دُشمن ہو جائے

قومی اسمبلی کے بدھ کو ہونیوالے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران مسلم لیگ ن کی خاتون رکن قومی اسمبلی طاہرہ اورنگزیب نے کاسمیٹکس کی درآمد سے متعلق سوال کیا ۔ وفاقی وزیر نے جواب ميں کہا “خواتین اپنے آپ کو جوان رکھنے کیلئے لپ اسٹک ،لوشن اورکریم با ہرسے منگواتی ہیں جن کی ماليت 70 کروڑ روپے سے زائد ہے”

پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی بیگم یاسمین رحمان نے کہا ” اگر حکومت کاسمیٹکس کی درآمد پرپابندی لگادے تو پھر ملک کاخزانہ بچایا جاسکتا ہے”۔ جس پر سید خورشید شاہ نے کہا “پابندی لگائی گئی تو خواتین حکومت کیخلاف احتجاجی جلوس نکالنا شروع کردینگی”

چھٹا يومِ پيدائش

ميں نے اپنا پہلا بلاگ منافقت Hypocrisy Thy Name is . . . کے نام سے 9 ستمبر 2004ء کو انگريزی ميں شروع کيا ۔ اس پر اُردو لکھنے کی فرمائش ہوئی تو ميں نے اُردو ميں لکھنا شروع کيا مگر جو قارئين اُردو نہيں جانتے تھے نے احتجاج کيا تو ميں نے اُسے انگريزی کيلئے مختص کرتے ہوئے اُردو کيلئے 5 مئی 2005ء کو يہ بلاگ شروع کيا اور قارئين کے اسرار پر اپنے انگريزی بلاگ کا نام “حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے” رکھ ديا

ميرے اس اُردو بلاگ کو شروع ہوئے آج پانچ سال ہو گئے ہيں ۔ ميں نے 5 مئی 2005ء کو اسے بلاگسپاٹ پر بنايا تھا ۔ حکومت نے بلاگسپاٹ بلاک کر ديا تو اسے 24 دسمبر 2006ء کو ورڈ پريس پر منتقل کيا ۔ پھر اُردو ٹيک والوں کی مہربانی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسے 2 اکتوبر 2007ء کو اُردو ٹيک پر منتقل کر ديا ۔ آخر 26 جولائی 2008ء کو اس بلاگ کو اپنی ڈومين پر منتقل کيا جہاں اللہ کے فضل سے آج تک چل رہا ہے ۔ جب ميں نے يہ بلاگ شروع کيا تو مجھے اُميد نہ تھی کہ میں يا ميرا يہ بلاگ پانچ سال پورے کر سکيں گے ۔ زندگی ۔ صحت اور موت اللہ کے ہاتھ ميں ہے ۔ ميں بارہا بار شکرگذار ہوں اللہ کا کہ ميں ابھی تک اس قابل ہوں کہ پڑھ رہا ہوں اور لکھ رہا ہوں

ميں نے پہلی بار اپنے اس بلاگ کے اعداد و شمار اکٹھے کئے ہيں جو کچھ اس طرح ہيں

ميرا يہ بلاگ
دنيا کی سب سے بڑی ويب سائيٹس بشمول اخبارات و بلاگز ميں 172308 ويں نمبر پر ہے
پاکستان کی سب سے بڑی ويب سائيٹس بشمول اخبارات و بلاگز ميں 2583 ويں نمبرپر ہے

ميرا يہ بلاگ
روزانہ اوسطاً 12681 بار ديکھا جاتا ہے
اور اس کا گوگل پيج رينک 3 ہے

اگر ميں اپنے اس بلاگ پر چھوٹے چھوٹے اشتہارات کی اجازت دے دوں تو روزانہ 45 امريکی ڈالر آمدن ہو سکتی ہے
ميرے اس بلاگ کی ماليت 1990313 امريکی ڈالر لگائی گئی ہے

اب تک کی تحارير ۔ 1246
اب تک کے تبصرے ۔ 7571

اس بلاگ پر ميری تحارير ميں قارئين کی دلچسپی کا کچھ اندازہ مندرجہ ذيل اعداد و شمار سے ہو سکتا ہے

ميری ايک تحرير 8021 بار ديکھی گئی ہے
ميری 3 تحارير 2000 سے 2499 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 11 تحارير 1500 سے 1999 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 5 تحارير 1000 سے 1499 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 6 تحارير 900 سے 999 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 10 تحارير 800 سے 899 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 28 تحارير 700 سے 799 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 26 تحارير 650 سے 699 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 46 تحارير 600 سے 649 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 74 تحارير 550 سے 599 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 115 تحارير 500 سے 549 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 94 تحارير 450 سے 499 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 70 تحارير 400 سے 449 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 211 تحارير 350 سے 399 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 160 تحارير 300 سے 349 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 232 تحارير 250 سے 299 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 81 تحارير 200 سے 249 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 65 تحارير 100 سے 199 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 7 تحارير 65 سے 99 بار ديکھی گئيں ہيں
65 بار سے کم ميری کوئی تحرير نہيں ديکھی گئی

آئين ؟ ؟ ؟

علامہ اقبال نے فرمايا ہے
آئينِ جواں مرداں حق گوئی و بيباکی
اللہ کے بندوں کو آتی نہيں روباہی

مگر میں بات کر رہا ہوں پاکستان کے آئين کی ۔ عرصہ سے سُنتا آيا ہوں کہ پاکستان کا آئين 1973ء تک کسی نے نہ بنایا ۔ یہ فقرہ اتنے شد و مد سے دہرایا جاتا رہا ہے کہ ہموطنوں کی اکثريت اس جھُوٹ کو سچ سمجھتی ہے

اگست 1947ء کے بعد بھارت میں مسلمانوں کے قتلِ عام عورتوں اور لڑکيوں کے اغواء اور مسلمانوں کی بڑی تعداد کو پاکستان کی طرف دھکيلنے اور پاکستان کے حصے کے اثاثے ضبط کر لينے کے بعد پاکستان جن نامساعد حالات سے دوچار تھا اُن کا اندازہ آج لگانا اگر ناممکن نہيں تو بہت مشکل ضرور ہے ۔ اس کے بعد قائداعظم کی وفات اور 1951ء میں قائدِ ملت لياقت علی خان کے قتل کے بعد کی صورتِ حال اعصاب پر سوار ہونے کيلئے کافی تھی ۔ اس کے باوجود پاکستان کی پہلی مُنتخب اسمبلی نے متفقہ طور پر آئين تيار کر ليا تھا جو اسمبلی کی ايک ہی نشست ميں منظور ہو جانا تھا ۔ معمول کے مطابق پہلے آئين کی منظوری کابينہ نے دينا تھی جس کا اجلاس اُس وقت کے وزير اعظم خواجہ ناظم الدين صاحب بلايا ہی چاہتے تھے کہ غلام محمد جس کا ريموٹ کنٹرول نمعلوم کس کے پاس تھا نے وزير اعظم کو بر طرف کر ديا ۔ سردار عبدالرب نشتر صاحب کے اسے غلط اقدام کہنے پر غلام احمد نے مُنتخب کابينہ کو برطرف کر کے اپنی من پسند کابينہ نامزد کر دی ۔ آئين پر ہونے والا کام نہ رُکا تو پاکستان کی پہلی مُنتخب اسمبلی ہی کو 24 اکتوبر 1954ء کو چلتا کيا ۔ کہا جاتا ہے کہ غلام محمد مرزائی تھا اور شرابی بھی تھا ۔ [اس پر اعتراض کرنے سے پہلے کراچی والے معلوم کر ليں کہ غلام محمد کی قبر کہاں ہے ۔ ميری شُنيد کے مطابق کراچی کے لوگوں نے اس کی لاش کو مسلمانوں کے قبرستان ميں دفن نہ ہونے ديا تو اُسے عيسائيوں کے قبرستان یا اس کے مضافات ميں دفن کيا گيا تھا]

کچھ عرصہ بعد آئين بنانے کا کام نئے وزيرِ اعظم چوہدری محمد علی کے ماتحت ايک کميٹی کے سپرد ہوا مگر اس کميٹی کے اراکين کا تبادلہ کبھی کہيں کبھی کہيں کيا جاتا رہا جو تاخير کا سبب بنا ۔ مسؤدے ميں کئی تبديليوں کے بعد آخر آئين 1956ء ميں منظور ہو گيا مگر 1958ء میں سب کچھ ختم کر کے مارشل لاء لگا ديا گيا

جب مشرقی پاکستان کھونے کے بعد مغربی پاکستان کی اسمبلی کا اجلاس بطور پاکستان کی اسمبلی کے ہوا تو سياستدانوں کے دباؤ پر تيسری بار آئين بنانے کام شروع کيا گيا ۔ پيپلز پارٹی کی حکومت تھی جو سيکولر جماعت تھی ۔ مسؤدہ تيار کرنے کا کام محمود علی قصوری [خورشيد محمود قصوری کے والد] کے سپرد کيا گيا جو کميونسٹ تھے ۔ پرانے مسؤدوں کو بھُلا کر نيا سيکولر مسؤدہ تيار کيا گيا ۔ اس پر بھی ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو کوئی پریشانی تھی کہ آخری دنوں میں عبدالحفيظ پيرزادہ نے اس میں رد و بدل کر کے پيش کيا ۔ اس مسؤدے کو منظور کرنے کی سب کو جلدی تھی اسلئے اس میں کئی خامياں رہ گئيں ۔ سب سے بڑی خامی يہ کہ آئين توڑنا غداری قرار ديا گيا مگر کسی کو غدار کس طرح ثابت کيا جائے گا ۔ اُسے سزا دينے کی کاروائی کون کرے گا اور کس طرح کرے گا ۔ اس کا کہيں ذکر نہيں

جنرل ضياءالحق تو بحیثيت صدر ہی مر گيا مگر پرويز مشرف کے خلاف آئين توڑنے پر آج تک کچھ اسلئے نہيں کيا گيا کہ موجودہ صورت میں يہ کام صرف حکومت کر سکتی ہے جو پی پی پی ۔ ايم کيو ايم ۔ فضل الرحمٰن کی جے يو آئی اور اے اين پی پر مشتمل ہے ۔ يہ لوگ بولنے کے شير اور عمل کے گيدڑ سے بھی کم ہيں اور انہيں مُلک و قوم سے زيادہ حکمرانی کی کرسیاں پسند ہيں جو انہيں پرويز مشرف کے طفيل ملی ہيں تو يہ کيوں اپنے پاؤں پر کُلہاڑا ماريں گے ؟

جمہوری شہنشاہ

ماہ جون 1975ء کی دوپہر میرے علیگ ساتھی ابصار صدیقی سپرنٹنڈنگ انجینئر اسلام آباد دفتر سے گھر جارہے تھے راستے میں ان کی نظر معروف سیاسی لیڈر جناب غوث بخش بزنجو پر پڑی جو چلچلاتی دھوپ میں سڑک پر پیدل چلے جارہے تھے ابصارصدیقی نے اخلاقاً کار روک کر بزرگ رہنما سے کہا “سر ۔ میں آپ کو چھوڑ دوں؟” بزنجو صاحب شکریہ ادا کرکے گاڑی میں بیٹھ گئے ابصار صدیقی انہیں منزل پر پہنچا کر اپنے گھر چلے گئے ۔ اس سے پہلے نہ وہ کبھی بزنجو صاحب سے ملے نہ ان کے سیاسی معاملات سے کوئی واسطہ تھا ۔ اگلے روز دفتر پہنچے تو معطلی کا پروانہ میز پر رکھا تھا ۔ الزام یہ تھا کہ ” آپ رياست مخالف کاروائی [Anti State Activities] میں ملوث پائے گئے ہیں”۔ ابصار صدیقی کے پیرو ں تلے کی زمین نکل گئی نیکی برباد گناہ لازم ۔ ابصار صدیقی کے پاس جو ہمارے بھی ہمدم دیرینہ تھے چیف انجینئر محمدغیاث الدین صدیقی خود کراچی سے اسلام آباد گئے اور ابصار صدیقی کو سرکار کے عتاب سے بچا لائے

کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ خود انجنيئر غیاث الدین صدیقی [تمغہ پاکستان ۔ ستارہ پاکستان] بھی سلطان [ذوالفقار علی بھٹو] کے عتاب کا شکارہوگئے ۔ بقول شیخ سعدی ”خلاف رائے سلطاں رائے جستن بخون خویش باید دست شستن“ [سلطان کی رائے کے خلاف رائے رکھنا اپنے خون سے ہاتھ دھونا ہے]۔ غیاث الدین صدیقی ایک نہایت دیانتدار قابل انجینئر پورا کیریئر بے داغ بلکہ درخشاں سلطان کی جنبش قلم نے سب پر پانی پھیر دیا ۔ قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے ساتھ پاسپورٹ کی ضبطی سلطان کے غیظ و غضب کی نشاندہی کرتی تھی ۔ ان ہی دنوں لیبیا کے سربراہ معمر قذافی کو ایک قابل انجینئر کی ضرورت پڑی کسی نے معتوب صدیقی کا پتہ دیا ۔ خود چل کر پاکستان آیا پرائم منسٹر ذوالفقارعلی بھٹو سے ملا پاسپورٹ حاصل کیا اپنے ساتھ لیبیا لے گیا عزت عہدہ مرتبہ عطا کیا۔ سردار عبدالرب نشتر کا یہ شعرغیاث الدین صدیقی پر صادق آتاہے
بس اتنی سی خطا پر رہبری چھینی گئی ہم سے
کہ ہم سے قافلے منزل پے لٹوائے نہیں جاتے

سردار عبدالرب نشتر نے یہ شعر کب اور کیوں کہا تھا ؟ ایک غمناک کہانی ہے ۔ گورنر جنرل غلام محمد نے جب خواجہ ناظم الدین جیسے شریف النفس یکے از رفیق قائداعظم پرائم منسٹر کو برخاست کرديا تو سردار عبدالرب نشتر نے کہا کہ خواجہ ناظم الدین کو اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے چند روز پہلے بجٹ منظور ہوا ہے ۔ خواجہ صاحب کی برخاستگی ناجائز غیرآئینی فعل ہے ۔ غلام محمد نے طیش میں آکر کابینہ ہی کو توڑ دیا ۔ جس میں سردار عبدالرب نشتر وزیرمواصلات تھے ۔ لیاقت علی خاں کی شہادت میں اپنائے وطن کی جس ہوس کا دخل تھا اور جو مستقبل کے سیاسی انتشار کی نشاندہی کرتا تھا اسی نے سردار عبدالرب نشتر جیسے پاکباز انسان کو بری طرح متاثر کیا۔ سردار عبدالرب نشتر انتہائی راسخ العقیدہ صوم و صلوٰة کے پابند انسان تھے۔ قائداعظم ، مولانا محمد علی جوہر اور علامہ اقبال کی سرپرستی میں تربیت حاصل کئے تھے۔ اپنے سالار قائداعظم سے عقیدت مرشد کے مانند رکھتے تھے۔ شرافت نیک نفسی اور وضعداری کا مجسمہ تھے

تحریر ۔ سعيد صديقی