ہمارے ملک میں یہ سلسلہ چل نکلا ہے کہ سیکورٹی ادارے جب کسی کو گرفتار کرنے نکلتے ہیں تو میڈیا کی ٹیموں کو بھی ساتھ لے لیتے ہیں جس کے باعث جہاں ایک طرف ميڈيا کے اس ادارے کی شہرت میں اضافہ ہوتا ہے وہاں ان اہلکاروں کی ترقی کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے جديديت پسند ہموطن ايسی خبر کو لے اُڑتے ہيں اور بڑھ چڑھ کر کسی خاص کميونٹی کی مذمت شروع ہو جاتی ہے يہاں تک کہ دين اسلام کو بھی نہيں بخشا جاتا۔ ہونا تو يہ چاہيئے کہ پڑھے لکھے لوگ “کُتا کان لے گيا” سُنتے ہی کُتے کے پيچھے بھاگنا شروع کرنے سے پہلے يہ تو ديکھ ليں کہ کان اپنے سر کے ساتھ ہی لگا ہے يا واقعی کُتا اُتار کر لے گيا ہے ؟
اشتياق بيگ کے مضمون سے اقتباس
دنیا بھر میں قانون کا یہ اصول ہے کہ آپ اس وقت تک بے گناہ ہیں جب تک آپ مجرم ثابت نہ ہوجائیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں آپ اس وقت تک مجرم تصور کئے جاتے ہیں جب تک آپ اپنی بے گناہی ثابت نہ کردیں۔ کچھ اسی طرح کا واقعہ 9 مئی بروز اتوار صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے فیض محمد کے ساتھ ہوا جو مسقط میں سول انجینئر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہا تھا۔ سالانہ تعطیلات اپنی فیملی کے ساتھ کراچی میں گزارنے کے بعد وہ تھائی ایئر ویز کی ایک پرواز کے ذریعے مسقط جانے کے لئے کراچی ایئر پورٹ پہنچا ۔جسمانی تلاشی کے دوران جب وہ ا سکینرز سے گزرا تو ا سکینرز کے الارم بج اٹھے، فیض محمد کے جوتوں سے الیکٹرک سرکٹ برآمد ہوا۔
فیض محمد نے سیکورٹی اہلکاروں کو بتایا کہ اس نے یہ جوتے لائٹ ہاؤس میں واقع استعمال شدہ جوتوں کی ایک دکان سے خریدے تھے اور ان جوتوں کے اندر اور باہر وائبریٹرزتحریر تھا۔ دکاندار نے اسے بتایا تھا کہ انہیں پہننے سے آرام ملتا ہے چونکہ مسقط میں اسکا کام زیادہ تر کھڑے رہنے کا تھا اسلئے اس نے یہ جوتے خرید لئے اور اس سے پہلے بھی وہ ان جوتوں میں مسقط جا چکا ہے۔ مگر کسی نے اس کی باتوں پر یقین نہ کیا اور اسے ہتھکڑی لگاکر ایک ”دہشت گرد“ کے طور پر میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا ۔ اے ایس ایف کا دعویٰ تھا کہ ملزم کے جوتوں میں چھپا سرکٹ دھماکہ خیز مواد میں نصب کرکے دھماکہ کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں ملک بھر کے ٹی وی چینلز ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے فیض محمد کو ایک ”دہشت گرد“ کے طور پر پیش کررہے تھے اور اس کا بھرپور میڈیا ٹرائل کیا جارہا تھا۔ ملکی اور غیر ملکی تمام ٹی وی چینلز اس کی گرفتاری کی خبریں نمایاں طور پر نشر کررہے تھے۔ پرنٹ میڈیا بھی الیکٹرونک میڈیا سے پیچھے نہ تھا
اس واقعہ سے پورے ملک کی بدنامی ہوئی اور ملک بھر میں موجود پاکستانیوں کی تشویش میں اضافہ ہوا جو پاکستانیوں اور دیگر مسلمانوں پر مسلسل دہشت گردی کے الزامات سے پہلے ہی پریشان تھے۔ فیض محمد کو مزید تفتیش کے لئے ایئر پورٹ پولیس کے حوالے کردیا گیا جہاں محکمہ داخلہ کے حساس اداروں، سی آئی ڈی، ایس آئی یو اور انویسٹی گیشن پولیس پر مشتمل ایک جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم تشکیل دی گئی۔ دو دن کی تفتیش کے دوران انویسٹی گیشن پولیس ٹیم شہر کی مختلف مارکیٹوں سے ویسے ہی جوتے خرید کر لے آئی جیسے فیض محمد نے پہن رکھے تھے اور ان جوتوں میں ویسا ہی سرکٹ نصب تھا
بعد میں اخباروں نے ایک چھوٹی سی خبر شائع کی جس میں تحریر تھا ”مشتبہ جوتے رکھنے والا زیر حراست نوجوان فیض محمد بے گناہ قرار پایا ہے اور اسے رہا کردیا گیا ہے۔“اخبارات میں شائع اس کی بے گناہی اور اس کے دہشت گرد سے متعلق ایک چھوٹی سی تردید اس پر لگا ہوا ”دہشت گرد“ کالیبل اور اس کی تکالیف و مشکلات کا ازالہ نہیں کرسکی۔ فیض محمد کی ”دہشت گرد“ کے طور پر گرفتاری کی خبریں مسقط میں اس کی کمپنی تک بھی پہنچ چکی تھیں جس کے باعث اسے ملازمت سے برطرف کردیا گیا اور وہ روزگار سے محروم ہوگیا۔
اس طرح بے گناہ شخص کو شدید ذہنی کوفت اور بے پناہ مشکلات سے دوچار کردیا اور اس کی سزا فیض محمد کے ساتھ اس کے والدین، بیوی اور بچوں کو بھگتنا پڑی۔اگر اس طرح کا واقعہ امریکہ اور یورپ میں پیش آتا تو متاثرہ شخص ان اداروں کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ دائر کرکے کروڑ پتی بن سکتا تھا لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں اس طرح کی کوئی روایت یا قانون نہیں۔
آپ نے وہ انڈیا والے مولانا صاحب کا لطیفہ نہیں پڑھا جنہیں جہاز “اڑانے” کے چکر میں اندر کر دیا گیا۔
سعد وہ لطیفہ تو نہیں، ایک افسوسناک واقعہ تھا۔۔۔فیض محمد والے المیے کی طرح۔
جو بھی تھا مگر روشن خیالوں کیلیے ایک لطیفہ ہی تھا
سعد و احمد عرفان شفقت صاحبان
ميرا جی چاہتا ہے کہ اپنی ايک پرانی تحرير دوبارہ لگاؤں مگر سوچتا ہوں کہ جن کے ذہنوں پر پردہ پڑا ہو اُن پر کوئی اثر ہونے کی اُميد نہيں
بات آپ کی ھی وزنی ھے۔کتا کان لے گیا۔بھاگو بھاگو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تماشہ دیکھو۔مزا نہیں آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نیا شکار دیکھو۔
میںنے اشتیاق بیگ کا کالم ملاحظہ کرلیا تھا
واقعی یہ المیہ ہے کہ ہم خبر کو اتنا بڑھا چڑھا دیتے ہیں خبر چاہے درست ہو یا غلط پھر اسے یونہی چھوڑ دیتے ہیں
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جوتوںوالے معاملے کو بھی اسی زور وشور سے غلط ثابت کیا جاتا لیکن یہ ہمارا میڈیا خبر دینا جانتا ہے اسے اس کی پرواہ نہیںکہ کسی پر کیا بیتی اور کیا اثر ہوا۔
ساری دنیا میں صبح شام دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بھونپو بجایا جاتا ہے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے کہ شیطان کی آنت کی طرح پھیلتی جاتی ہے۔ دنیا ہر آنے والے دن میں گزرے دن کی نسبت دہشت گردی کے ہاتھوں زیادہ غیر محفوظ ہوئی جاتی ہے۔ دہشت گردی ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آرہی ۔ انسانی جانوں کا بلیدان ہے کہ رکنے میں نہیں آرہا۔ کھربوں ڈالر اس جنگ میں خرچ کئیے جاچکے ہیں ۔ ھزاروں پاکستانیوں کی جان اس دہشت گردی بینٹ چڑھ چکیں ہیں۔ جن میں پاکستانی سرکاری اداروں بشمول پولیس اور فوج کے اہلکار اور آفیسرز بھی شامل ہیں۔پہلے سے سی ہی پتلے بجت کا بھی ذیادہ حصہ اسی جنگ کی نذر ہورہا ہے ۔ ملک میں پانی بجلی آٹا بشمول دیگرے اور انسانی حقوق اور قوم کا کہیں پتہ نہیں چلتا ۔ خود امریکہ بہادر بھی اب اسے “بہت” جان کر اب اس جنگ کو کسی انجام تک پہنچا کر اس جنگ کی تنگی سے جان چھڑوا لینا چاہتے ہیں۔ اس جنگ کو اسقدر سنجدگی سے لیا گیا ہے کہ اس جنگ کے باعث پوری دنیا اپنی تاریخ کی سب بڑی کساد بازاری کا شکار ہو رہی ہے۔ تو ایسے میں تو اس جنگ کو پہلے سے زیادہ سنجیدگی سے لیا جانا چاہئیے تھا۔جبکہ تقریبا ساری دنیا میں یہ معاملہ یکساں طور پہ لاگُو ہے کہ معمولی چوروں کے گروہ کا کوئی رُکن اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت میں آجائے تو اسکی گرفتاری کی تشہیر اس وقت تک نہیں کیا جاتی جب تک اسے سے مطلوبہ تفتیش مکمل نہیں ہوجاتی ، جس میں اس چور سے اس کے باقی افراد کا کھوج لگانے کی کوشش کی جاتی ہے تانکہ باقی ماندہ گروہ کو بھی گرفتار کیا جاسکے۔ ممکنہ حد تک کوشش کی جاتی ہے کہ گرفتار شدہ چور کی گرفتاری کی بھنک کسی کو نہ ملے چہ جائیکہ اس سے تفتیش طلب سوالات کے جوابات نہ حاصل کر لئیے جائیں۔
امریکہ ، پاکستان و دیگر ممالک جن کے قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی دہشت گرد کو جب زندہ گرفتارکرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ایسے دہشت گردوں کی گرفتاری کو تو اسٹیٹ سیکرٹ یعنی ریاستی راز سمجھا جانا چاہئیے تھا کہ ان کے باقی ساتھیوں کا پتہ چلایا جاسکے اور انھیں بے خبری میں دھر لیا جائے۔ اور اسکے بعد ہی عدالت ، میڈیا اور عام عوام کو اس دہشت گرد کے بارے میں بتایا جائے جب اسکے گرفتار ہونے کی خبر عام ہونے سے تفتیش کو کوئی اثر نہ پڑے ۔جبکہ صاحب! پاکستان اور امریکہ سمیت بہت سے اتحادیوں کی حکومتیں کتنی بھولی ہیں اورانکے قانون نافذ کرنے والے ادارے کتنے سادہ ہیں اور یہ کسطرح کے دہشت گرد گرفتار کئیے جاتے ہیں۔ کہ ادہر نہیں گرفتار کرنے کے لئیے “ہینڈز اپ” کہا جاتا ہے ادہر سارا میڈیا بریکینگ نیوز کی شکل میں چیخ چیخ کر لائیو گرفتاری دکھا رہا ہوتا ہے۔پاکستان و امریکہ دونوں میں یوں برابر ہو رہا ہے۔
یہ پلے برسوں سے کھیلا جارہا ہے۔ یا تو وہ ہے نہیں جو ہمیں باور کیا جاتا ہے۔ یالائیو گرفتاری براہ راست ٹی وی پہ کاسٹ کرنا بھی غالبا دنیا میں دہشت گردوں سے تفتیش کرنے کا کوئی انوکھا طریقہ ہے۔
ہم سادہ ہیں یا میر عیار؟۔ ہے کوئی جو اس اسرار سے پردہ اٹھائے؟۔
جاويد گوندل صاحب
اصل بات پروپيگندہ کرنا ہے جس کے مذموم مقاصد ہيں ۔ مجھے تو شک ہے کہ جب کچھ امن ہونے لگتا ہے تو امريکہ خود اپنے تيار کردہ دہشتگرد سے کاروائی کروا ديتا ہے تاکہ جس مذموم مقصد کيلئے يہ سارا قصہ جارج واکر بُش نے شروع کيا تھا وہ حاصل کرنے کيلئے امريکہ کو جنگ کا جواز ملتا رہے