تین دہائیاں پیچھے کی بات ہے کہ میری خالہ زاد بہن کی بیٹی جو میری بیوی کی بھانجی ہے ہمارے ہاں راولپنڈی آئی ہوئی تھی ۔ وہ اپنی خالہ سے کہنے لگی “خالہ دیکھیں نا ۔ ہم نے یہاں سے کراچی جانا ہو راستہ میں وزیرآباد کے سٹیشن پر اُتریں تو وہاں کیا ہم اپنا گھر بنا لیں گے اور وہیں رہنا شروع کر دیں گے ؟”
میری بیوی نے جواب دیا “نہیں” اور حیرانی سے بھانجی کی طرف دیکھنے لگی
وہ بولی “جب ہماری منزلِ مقصود وہ ہمیشہ رہنے والی دنیا ہے جہاں جنت بھی ہے تو پھر لوگ اس دنیا کو پکا ٹھکانہ کیوں سمجھ لیتے ہیں ؟”
میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
کھول کر پڑھيئے کہ بھارت ميں دہشتگردی کون کرتا ہے جس کا الزام پاکستان يا مسلمانوں پر لگايا جاتا ہے
يہ تين دھائياں پہلے کی بات ہے اب وہ بھانجی چونکہ نانی دادی بن چکی ہو گی اور گمان ہے کہ گھر ميں حقوق کی لڑائی بہو سے لڑ رہی ہوں گی تو ان سے يہی سوال کيا جا سکتا ہے کہ جب دنيا اصل ٹھگانہ نہيں تو اتنا سب کس ليے؟ پھر آپکو جو جواب ملے گا وہی ہمارا بھی جانيے
انسان جنت میں جانا تو چاہتا ہے لیکن مرنا نہیں چاہتا اور یہی زندہ رہنے کا شوق دنیا کو اپنا ٹھکانا بنانے پر مجبور کرتا ہے ۔۔
اسماء بتول صاحبہ
پريشان ہونے کی ضرورت نہيں ۔ ابھی اُسے کے بچے مڈل سکول ميں پڑھ رہے ہيں
فکر پاکستان صاحبہ
بالکل درست کہا آپ نے
آپ مجھے صاحب نہ کہیں صرف فکر پاکستان کہیں ۔۔ آئی ایم فیمیل ۔۔
فکرِ پاکستان صاحبہ
ليجئے ميں آپ کو صاحب نہيں کہوں گا
السلا م علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
واقعی جب بچی اتنی بات کرتی ہےلیکن ہم لوگ ایسےہیں کہ ہروقت اس بات کوبھول جاتےہیں یاکہ جان بوجھ کرپس پشت ڈال دیتےہیں۔
والسلام
جاویداقبال