ميں 9 مئی 2010ء کی صبح اسلام آباد چلا گيا تھا اور 11 مئی 2010ء کی شام کو واپس لاہور پہنچا ہوں ۔ اسلام آباد ميں مصروفيت اتنی زيادہ تھی کہ ميں کمپيوٹر پر کام کرنا تو کُجا اس کا سوچ بھی نہ سکا
ايک شخص نے 10 مئی 2010ء کو بعد دوپہر ايک بج کر 43 منٹ 41 سيکنڈ پر ميرے بلاگ اور ای ميل ايڈريس کو استعمال کر کے ميری ہی تحرير پر فضول تبصرہ کيا ۔ اُس نے اپنا سب کچھ پوشيدہ رکھنے کی کوشش کی ليکن اُسے يہ شايد خبر نہيں کہ ايک ايسا نمبر ہے جو کوئی پوشيدہ نہيں رکھ سکتا ۔ وہ نمبر ميں نے محفوظ کر ليا ہے ۔ اگر ميں 10 مئی کو ہی يہ تبصرہ ديکھ ليتا تو اُس شخص کے متعلق زيادہ معلومات حاصل ہو سکتی تھيں
بہرکيف اس شخص نے اپنا چھوٹا پن ظاہر کر ديا ہے ۔ اُسے يہ بھی احساس نہيں ہے کہ جب تک اللہ نہ چاہے کوئی کسی کا کچھ نہيں بگاڑ سکتا ۔ اللہ ہميں سيدھی راہ پر چلنے کی توفيق عطا فرمائے
اللہ کا شکر ھے۔کہ وہ تبصرہ آپکا نہیں تھا میرے ذھن میں کچھ منفی خیالات آئے تھے۔ہم آپ کے فین ھونے کی سیٹ کو اب مضبوطی سے پکڑ کر رکھیں گئے۔
uncle agar aap ko pata chal gaya hy to us ka naam bhi yahan bataye takay baki sab bloggers us ki tabiyat saaf kar sakain.
یاسر خوامخواہ جاپانی صاحب
حوصلہ افزائی کا شکريہ ۔ ميں نے اسی لئے حذف کر ديا کہ قارئين ميرے متعلق گمراہ ہوں گے
اس محبت کی وجہ سے جو آپ نے مجھے دی ہے ميں آپ کے قلمی نام ميں ترميم کر رہا ہوں ۔ ياسر ۔ خواہ مخوا جاپانی اصل پاکستانی
زائرہ صاحبہ
بيٹی ۔ اُس نے مجھے براہِ راست بُرا نہيں کہا تھا بلکہ ميری طرف سے قائين کو تڑی دی اور يوں ظاہر کيا جيسے نيں بہت جابر شخص ہوں ۔ ميں نے يہ تحرير اسلئے لکھ دی کہ قارئين ہوشيار ہو جائيں اور وہ خود بھی ديکھ لے کہ وہ پوشيدہ نہيں رہا ۔
افتخار جی شکر کرو ورنہ میرے ساتھ جو ہوا ۔ قسم سے دوبارہ دل نہیں کرتا تھا بلاگ کھلا جائے ۔ پتا نہیں لوگوں کو کیا مسلہ ہے ۔ کہ دوسروں کو تنگ کرنے کے چکر میں لگے رہتے ہیں ۔ اگر یہی کام وہ اپنے لیے اچھے طریقے سے کریں تو دماغ ٹھیک رہے گا ۔ لیکن کون سمجھائے ، اپنے آپ کو بڑا عقلمند سمجھتے ہیں یہ بےوقوف لوگ۔
ہیلو۔ہائے۔اےاواے صاحب
آپ کا تبصرہ پڑھ کر پچپن ميں پڑھی ايک کہانی ياد آ گئی ۔ ايک گاؤں ميں ايک عورت اچانک رونے پيٹنے لگ گئي۔ لوگ جمع ہو گئے ۔کسی نے پوچھا “کيا ہوا ؟” کہنے لگی “تم لوگوں نے يہاں سے اتنے سارے اونٹ گذرتے نہيں ديکھے ؟” لوگوں نے کہا “ہاں ديکھے ہيں اور ان پر کپاس لدی تھی”۔ وہ عورت بولی “يہ ساری مجھے ہی کاتنا پڑے گی “۔
آپ کو ميں جانتا تک نہيں تو فلاسفر کيسے سمجھ سکتا ہوں ؟ باقی رہا ميں جو کچھ ميں ہوں اللہ کی دی ہوئی توفيق سے ہوں ۔ ميں نے اپنے آپ کو فلاسفر کبھی نہيں کہا
آخر ایسی بھی کیا مجبوری ہے ان لوگوں کو خوامخواہ محنت کرتے ہیں فضول تبصروں کے لئے ۔ یقینا نفسیاتی مسائل کا عمل دخل ہے ۔
[مندرجہ ذيل تبصرہ ہیلو۔ہائے۔اےاواے کے نام سے تبصرہ کرنے والے نے مجھے بدنام کرنے کيلئے لکھا ہے ۔ افتخار اجمل بھوپال]
میں ہوں بھونچال
میں نے تو دینی ہی ہیں لوریاں، بھلا ہو بھونچال ۔ مارکس کی بدروح جتنا بھی ہو ئے بے حال ۔
ڈرو بھونچال سے، میں ہوں بھونچال، میں ہوں بھونچال ۔ میں ہوں، میں ہوں، میں ہوں، بھونچال ۔
پاگل بندہ لگتا ہے انکل جی،،،،،
میرے خیال میں اس مسلے کو کسی حد تک حل کیا جا سکتا ہے، مثلا آپ ایک پوسٹ یا صفحہ “میرے تبصرے” کے نام سے اپنی بلاگ پر بنائیں جس میں دوسروں کے تبصرے پر پابندی ہو۔ پھر جس کے بلاگ پر تبصرہ کرنا ہو وہاں اس کا لینک دے کر تبصرہ کریں۔ اور اپنی پوسٹ “میرے تبصرے” پر خود اپنے تبصرے کو کاپی پیسٹ کریں اور لینک میں جس جگہ آپ نے اصل میں تبصرہ کیا ہے اسکا لینک دے دیں۔
عامر شہزاد صاحب
يہ ترکيب تو اچھی ہے ۔ اس سے کم از کم ايک فائدہ ضرور ہے کہ اپنے تبصروں کا ريکارڈ رہتا ہے
ميرے بلاگ پر تو فلٹر لگا ہوا ہے جس کی وجہ سے اگر کوئی ميرے نام سے تبصرہ کرتا ہے تو وہ سپيم ميں چلا جاتا ہے جسے صرف ميں ديکھ سکتا ہوں ۔ ليکن ميرے نام سے اگر کوئی کسی کے بلاگ تبصرہ کرتا ہے تو ميں اُسے روک نہيں سکتا