ميں نے اپنا پہلا بلاگ منافقت Hypocrisy Thy Name is . . . کے نام سے 9 ستمبر 2004ء کو انگريزی ميں شروع کيا ۔ اس پر اُردو لکھنے کی فرمائش ہوئی تو ميں نے اُردو ميں لکھنا شروع کيا مگر جو قارئين اُردو نہيں جانتے تھے نے احتجاج کيا تو ميں نے اُسے انگريزی کيلئے مختص کرتے ہوئے اُردو کيلئے 5 مئی 2005ء کو يہ بلاگ شروع کيا اور قارئين کے اسرار پر اپنے انگريزی بلاگ کا نام “حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے” رکھ ديا
ميرے اس اُردو بلاگ کو شروع ہوئے آج پانچ سال ہو گئے ہيں ۔ ميں نے 5 مئی 2005ء کو اسے بلاگسپاٹ پر بنايا تھا ۔ حکومت نے بلاگسپاٹ بلاک کر ديا تو اسے 24 دسمبر 2006ء کو ورڈ پريس پر منتقل کيا ۔ پھر اُردو ٹيک والوں کی مہربانی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسے 2 اکتوبر 2007ء کو اُردو ٹيک پر منتقل کر ديا ۔ آخر 26 جولائی 2008ء کو اس بلاگ کو اپنی ڈومين پر منتقل کيا جہاں اللہ کے فضل سے آج تک چل رہا ہے ۔ جب ميں نے يہ بلاگ شروع کيا تو مجھے اُميد نہ تھی کہ میں يا ميرا يہ بلاگ پانچ سال پورے کر سکيں گے ۔ زندگی ۔ صحت اور موت اللہ کے ہاتھ ميں ہے ۔ ميں بارہا بار شکرگذار ہوں اللہ کا کہ ميں ابھی تک اس قابل ہوں کہ پڑھ رہا ہوں اور لکھ رہا ہوں
ميں نے پہلی بار اپنے اس بلاگ کے اعداد و شمار اکٹھے کئے ہيں جو کچھ اس طرح ہيں
ميرا يہ بلاگ
دنيا کی سب سے بڑی ويب سائيٹس بشمول اخبارات و بلاگز ميں 172308 ويں نمبر پر ہے
پاکستان کی سب سے بڑی ويب سائيٹس بشمول اخبارات و بلاگز ميں 2583 ويں نمبرپر ہے
ميرا يہ بلاگ
روزانہ اوسطاً 12681 بار ديکھا جاتا ہے
اور اس کا گوگل پيج رينک 3 ہے
اگر ميں اپنے اس بلاگ پر چھوٹے چھوٹے اشتہارات کی اجازت دے دوں تو روزانہ 45 امريکی ڈالر آمدن ہو سکتی ہے
ميرے اس بلاگ کی ماليت 1990313 امريکی ڈالر لگائی گئی ہے
اب تک کی تحارير ۔ 1246
اب تک کے تبصرے ۔ 7571
اس بلاگ پر ميری تحارير ميں قارئين کی دلچسپی کا کچھ اندازہ مندرجہ ذيل اعداد و شمار سے ہو سکتا ہے
ميری ايک تحرير 8021 بار ديکھی گئی ہے
ميری 3 تحارير 2000 سے 2499 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 11 تحارير 1500 سے 1999 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 5 تحارير 1000 سے 1499 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 6 تحارير 900 سے 999 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 10 تحارير 800 سے 899 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 28 تحارير 700 سے 799 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 26 تحارير 650 سے 699 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 46 تحارير 600 سے 649 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 74 تحارير 550 سے 599 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 115 تحارير 500 سے 549 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 94 تحارير 450 سے 499 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 70 تحارير 400 سے 449 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 211 تحارير 350 سے 399 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 160 تحارير 300 سے 349 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 232 تحارير 250 سے 299 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 81 تحارير 200 سے 249 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 65 تحارير 100 سے 199 بار ديکھی گئيں ہيں
ميری 7 تحارير 65 سے 99 بار ديکھی گئيں ہيں
65 بار سے کم ميری کوئی تحرير نہيں ديکھی گئی
ميری دعا ہے آپ اور آپکا بلاگ سنچری پوری کرے بلکہ اوپر بھی ، اعداد و شمار آپ نے بڑے دلچسپ پيش کئے ہيں مگر يہ چيک کيسے کرتے ہيں دنيا کی مشہور ترين ويب سائيٹس ميں سے اپنا نمبر ، ميں نے بھی چيک کرنا ہے اپنا غير معروف ميں سے نمبر ، ڈالر لے ليا کريں روز کے روز اور اکھٹے والے تو فورا لے ليں
پھپھے کُٹنی صاحبہ
آپ کا بلاگ روزانہ 3876 بار ديکھا جاتا ہے اور آپ 13 امريکی ڈالر روزانہ کما سکتی ہيں ۔ يہ تو ايک ويب سائٹ کے تخمينے ہيں ۔ مجھے بہت پہلے اصلی پيشکش ہوئی تھی کہ ميں چھوٹے چھوٹے اشتہاروں کی اجازت دے دوں تو مجھے ڈالر ديئے جائيں گے مگر ميں نے انکار کر ديا تھا
I think you should take the offer and donate the dollors to needy people
ميرے بلاگ پر تو دو مہينے کے ٹوٹل وزٹر 4768 ہيں ايک روز کے 3876 کيسے ہو گئے سمجھا ديں اور ميرا نہيں خيال آپکو ڈالر لينے سے انکار کرنا چاہيے اشتہار لگا ليں جب ساری دنيا مشہوری کا فاہدہ اٹھاتی ہے تو آپ کيوں نہيں ، ميں آپ کی جگہ ہوں تو انکار نہ کروں
جو دو مہينے کے وزٹر ميں نے اوپر لکھے وہ بمطابق ميرے بلاگ کاؤنٹر ہيں 4768
شيپر صاحب
مجھے انگريزی نہیں آتی اسی لئے يہ بلاگ اُردو ميں ہے
پھپھے کُٹنی صاحبہ
آپ درست کہہ رہی ہيں اور ميں نے بھی درست لکھا ہے ۔ اس ربط پر جا کر ديکھ ليجئے
http://www.valuatemysite.com/www.phapheykutni.3papillons.fr
يہ بلاگ ميں نے پيسے کمانے کيلئے نہيں بنايا بلکہ علم کی ترويج کيلئے ہے ۔ دوسری بات يہ ہے کہ اگر اس پر اشتہار آنے لگيں گے تو بہت سے اچھے قارئين اسے ديکھنا چھوڑ ديں گے ۔ اس وقت ميرا يہ بلاگ دنيا کے دو درجن ممالک ميں پڑھا جاتا ہے
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اشتہار لگ جائیں تو بلاگ کا معیار، بصری تاثر ، حقیقی وقعت اور علمی قدر خاطر خواہ متاثر ہوتے ہیں۔
احمد عرفان شفقت صاحب
ميں آپ سے اتفاق کرتا ہوں
مجھے یاد آیا کبھی میرے بلاگ پر آپ تبصرہ لکھا کرتے تھے کہ اردو میڈیم کے طالب علم نے کچھ لکھا ہے یہاں پڑھ لیں –
خیر بلاگ کی سالگرہ آپ کو مبارک ہو ۔
شعیب، بنگلور سے
شعيب صاحب
شکريہ
افتیخار صاحب – میں معذرت چاہتا ہوں پر جب میں آفس سے تبصرہ کرتا ہوں تو انگریزی میں ہی کر دیتا ہوں – آفس کی مشین پہ اردو نہیں انسٹال ہے
ویسے آپ کے بلاگ کا ٹائٹل اردو اور انگریزی دونوں میں ہے — ہی ہی ہی
کیا بات ہے جناب۔۔ مبارک ہو آپ کو بلاگنگ کا ایک اور سال
بلاگنگ کا ایک اور سال مبارک ہو۔۔۔۔۔
شيپر صاحب
آپ نے اُردو کو انگريزی ميں لکھنا شروع کر دياہے ۔ افتيخار نہيں ہوتا افتخار ہوتا ہےا
راشد کامران و عمر احمد بنگش صاحبان
شکريہ
آپکی باتیں بہت ہی غور طلب ہوتی ہیں ۔ جتنی دیر میں کوئی یہ فیصلہ کرے کے مزید غور کرنے کیلئیے آپ سے ٹیوشن پڑھنے کی بھی ضرورت ہے کہ نہیں، براؤزر کافی مرتبہ پیج ریفریش کر چکا ہوتا ہے ۔مزید یہ کہ ہر وقت آن لائن ہونے کے باوجود مزید غور طلب باتیں کر دینے میں بھی آپ کافی دیر لگاوت ہیں اور اس دوران آپکا اپنا براؤزر بھی کافی ساری کاؤنٹس رجسٹر کروا چکا ہوتا ہوگا ۔
ہزاروں کی تعداد میں سرچ انجنز بھی انڈیکسنگ کیلئے آپکے پیجز وزٹ کرنے کی کوشش کرتے ہونگے ۔اور تو اور مختلف ایجنسیاں بھی آپ کی ایکٹیویٹیز کے بارے میں سن گن لینی کی کوشش کررہی ہونگی اور آپکی باتوں پر تبصرہ کرنے والوں کو بھی ٹریک کیا جارہا ہوگا ۔ آپکا ویب سائٹ کی دوسرے دیگر ویب سائٹس سے بھی کمیونیکیشن ہو ری ہوتی ہے، اس سے کاؤنٹس مزید بڑھ جاتی ہونگی ۔
آپ یا آپ کے چاہنے والوں کی مرضی کے ہونے یا نہ ہونے کے باوجود یہ کاؤنٹس تو بڑھتی ہی رہینگی ۔
اب یہ الزام نہ دیجئے گا کہ بلا وجہ کی جلن ہو رہی ہے ۔ اگر ہمیں بھی کسی بات کے بارے میں اگر کچھ تھوڑا بہت پتا ہے تو کیوں نہ ایسی باتیں ہم بھی آپ سے شیئر کرلیں ۔
ہیلو۔ہائے۔اےاواے صاحب
جو کچھ آپ نے لکھا ہے يہ سب درست ہو سکتا ہے مگر اسے درست ثابت نہيں کيا جا سکتا ۔چنانچہ مبصرکو خيال رکھنا چاہئيے کہ جس تحرير پر وہ تبصرہ کر رہا ہے اُس کا ثبوت مانگنے کی ضد نہ کرے ۔ جب ثبوت کے طور پر کوئی ربط ديا جاتا ہے تو وہ کسی اخبار يا رسالے يا کسی اور ويب سائٹ کا ہوتا ہے ۔ ہمارے پاس اس کوئی ثبوت نہيں ہوتا کہ اُس اخبار يا رسالے يا ويب سائٹ والے نے بالکل درست لکھا ہے
محترم بھوپال صاحب! ہمارا قصور صرف اتنا ہے کہ آپ کو ادھر اودھر سے ملنے والی انفارمیشن کے بارے میں سمری لکھ دی ہے ۔ سٹیٹسٹیکل ایویڈنس نکالنا اپنا کام اور مشغلہ بھی ہے اور ہم دوسروں کے دیئے ہوئے سٹیٹسٹیکل ایویڈنس پر اپنی ناقص سمجھ کے مطابق اعتبار بھی کرلیتے ہیں ۔ثبوت تو عام طور مانگے اور دے ہی دیئے جاتے ہیں اور جہاں تک کسی کریڈیبل ایویڈینس کے بغیر ثبوت دینے یا منوا کے چھوڑنے کی بات ہے وہ تو بغیر مار پیٹ اور دھونس کے ممکن ہی نہیں ہوتی ۔