عوامی دور کیا ہوتا ہے ؟ میں سمجھنے سے قاصر رہا اس کا سبب میری کم تعلیم یا کم عقلی بھی ہو سکتا ہے اور میرا ناقص مشاہدہ بھی
ایک چھوٹا سا واقعہ عوامی دور کا
اُس زمانہ میں بین الاقوامی ایئرپورٹ صرف کراچی میں تھی ۔ ميں 1976ء میں ملک سے باہر جا رہا تھا ۔ دساور کو يہ ميرا پہلا سفر نہيں تھا بلکہ چوتھا تھا ۔ ميرے پاس سرکاری پاسپورٹ تھا اور ميں جا بھی سرکاری کام کيلئے تھا ۔ ميرے پاس فرسٹ کلاس کا ٹکٹ تھا ۔ کراچی ایئرپورٹ پر میں بورڈنگ کارڈ لے کر آگے بڑھا تو راستہ بند تھا۔ مسافروں کی لمبی قطار لگی تھی ۔ وہاں پاکستان آرمی کے ایک میجر تھے جو چیکنگ کر رہے تھے ۔ قطار میں کھڑے آدھ گھنٹہ گذرگیا مگر قطار میں معمولی حرکت بھی نہ ہوئی مجھ سے آگے والا شخص دیکھ کر آیا اور بتایا کہ میجر صاحب میموں سے گپ لگا رہے ہیں ۔ میں جا کر کاؤنٹر کے قریب کھڑا ہو کر دس منٹ دیکھتا رہا کہ میجر صاحب دو گوریوں کے ساتھ صرف خوش گپیاں کر رہے تھے
میں نے معذرت مانگ کر کہا “میجر صاحب ۔ پرواز میں آدھ گھنٹہ رہ گیا ہے اور ابھی لمبی قطار انتظار میں ہے”۔ میجر صاحب نے کہا ” آپ کی باری ہے ؟” میں نے بتایا کہ میں قطار کے آخر میں ہوں ۔ کچھ دیر بعد میجر صاحب نے لوگوں کو اس طرح فارغ کرنا شروع کیا کہ کئی لوگوں پر اعتراض لگا دیا کہ وہ نہیں جا سکتے ۔ جب میری باری آئی میرا پاسپورٹ اور ٹکٹ لیا اور کہیں چلے گئے ۔ پی آئی اے کا سٹيشن منيجر تو پہلے ہی پريشان پھر رہا تھا جب پرواز میں 10 منٹ رہ گئے تو مجھے بھی پریشانی ہوئی
پی آئی اے کے منيجر نے مجھے کہا ” خا کر ايئر پورٹ منيجر کو بتائيں”۔ ميں نے جا کر ایئرپورٹ منیجر سے مدد کی درخواست کی ۔ تو وہ جا کر کہیں سے میرا پاسپورٹ اور ٹکٹ لے آیا ۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ ایئرپورٹ منیجر پاکستان آرمی کا اُس میجر سے سينيئر افسر تھا
بہت اعلی ۔ کچھ سوالات، امید ہے کہ برا نہ مانیں گے۔
1۔ کیا آپ نے بعد ازاں میجر کے اس رویہ پر کوئی تحریری درخواست دائر کی؟
2۔ اگر ہاں تو اس کا کیا جواب تھا۔ کیا اس جواب کی روشنی میں مزید فالو اپ کیا گیا؟ کیا آپ کو کوئی تحریری معذرت وصول ہوئی؟
3۔ اگر نہیں تو فالو اپ نا کرنے کا الزام اور نظام کی درستگی کے لئے کوشش نا کرنے کا ذمہ دار کسے قرار دیا جائے گا۔
آپ کے مضمون سے لگتا ہے کہ آپ کسی سرکاری عہدے پر تھے۔ یہ تو اس احتسابی ذمہ داری کو اور بڑھا دیتا ہے۔
شکوہ ظمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصہ کی ایک شمع جلاتے جاتے
عدنان مسعود صاحب
مکمل تفصيل ضروری نہ تھی۔ آپ کے سوالات شايد ميرے درخواست لکھنے سے پيدا ہوئے ۔ ميں نے باقائدہ شکائت ہی کی تھی اور صرف اپنے لئے نہيں بلکہ سب مسافروں کيلئے جس کے نتيجہ ميں اُسی وقت سب مسافروں کو جانے کی اجازت مل گئی تھی
اس تحرير کا مقصد صرف واضح کرنا تھا کہ عوامی نام رکھ کر آمريت چلائی گئی تھی
جہاں تک اپنے حصہ کی ایک شمع جلانے کا تعلق ہے اللہ کے فضل سے ساری عمر يہی کام کيا اسی وجہ سے زيادہ تر ميرے سينيئر افسران مجھ سے ناراض ہی رہے
افتخار صاحب اطہر ہاشمی صاحب نے بلاگ شروع کیا ہے
http://bainalsutoor.wordpress.com/
آپ ایک دفعہ ضرور وزٹ کیجیے۔ دوسرے دوستوں کو بھی فاروڈ کردیں ۔ اگر آپ کا ای میل آئی ڈی مل جائے تو رابطے میں آسانی ہوگی
تلخابہ صاحب
ميرے اس بلاگ کے عنوان کے نيچے چھوٹے چھوٹے کئی عنوانات ہيں ۔ ان ميں ايک رابطہ بھی ہے ۔ اس پر کلِک کيجئے ۔ ميرا اي ميل کا پتہ مل جائے گا
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
بات اجمل بھائي، یہ ہے کہ ہم لوگ اصل میں ڈرتےبہت ہیں اورخصوصی طورپرفوج یاپولیس سےدراصل ان کے کارنامےروزروزنظروں سےگزرتےرہتےہیں توسوچتےہیں کہ ان کوکچھ کہہ دیاتوپتہ نہیں کیاہوگادراصل آپ سرکاری نوکرتھےتواس وجہ سےبچت ہوگئی کوئی پرائیوئٹ آدمی یہ درخواست کرتاتوپھرشایدمعاملہ کچھ اورہوتا۔ واللہ اعلم
والسلام
جاویداقبال
جاويد اقبال صاحب ۔ و علیکم السلام و رحمۃ و برکاتہ
آپ کی بات ايک حد تک درست ہے ۔ ليکن ميں نے ملازمت کے دوران بڑے بڑے افسروں کی ٹانگيں کانپتے ديکھی ہيں ۔ اصل بات اللہ پر ايمان کی ہے جو اکثريت کا ناقص ہو چکا ہے ۔ متذکرہ واقعہ تو بالکل ہی معمولی سا ہے ۔ ميرے ساتھ بہت سے گھمبير واقعات بھی پيش آئے ليکن اللہ کی کرم نوازی سے ميں ثابت قدم رہا اور اللہ ہی نے مجھے بچائے رکھا ۔
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ عوامی دور -- Topsy.com
اتنا لمبا رپھڑا ايسے ہي ڈالا پنجابی ميں دو چار سنا دينی تھيں فورا پاسپورٹ دے ديتا
پنجابی میں سنانا بھی اچحا تو نہیں خیر میں یہ سوچتا رھ گیا ھوں کہ بین الاقوامی پرواز ہے اتنے لوگ وھاں کھڑے انتظار کر رہے ھیں اور وہ صاحب اپنی خوش گپیوں مصروف ہیں اور میجر کے عہدے پہ فائزھیں لیکن ذمہ داریوں کو نبھانے کا اور دوسروں کی مشکلات کا خیال رکھنے کا یہ حال ہے
اپنے ایسے بھایئوں کو دیکھ کر اور ان کا سن کر بہت تکلیف ہوتی ہے
کاش کوئ مسلمان لیڈر عام لوگون کی توجہ اس طرف کراءے افسوس ہے کہ مغرب نے ھم مسلمانوں سے اچھے اطوار اور شائستہ تہذیب سیکھی اورھم مسلمانوں نے ہی اپنی شائستگی کو خیرباد کہ دیا علماء اپنی سی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ خود بھی اچھی مثال پیش نہیں کرتے وقت پہ آنا جانا کام کرنا وغیرہ یعنی وقت کی پابندی مغربی ملکوں میں دیکھنے اور اس پر عمل کرنے کے باوجود مسلمان یہ عادت نہیں چھوڑتے حالانکہ دن میں کم از کم پاںچ بار اس کی مشق کرائ جاتی ھے