ہر طرف سے آواز اُٹھتی رہتی ہے ۔ پنجاب کھا گيا ۔ پنجاب پی گيا ۔ پنجاب يہ ۔ پنجاب وہ
جب تک ميں اسلام آباد ميں تھا ميں بھی سمجھتا رہا کہ پنجاب والے زيادتی کرتے ہوں گے ۔ اللہ کا کرنا ايسا ہوا کہ ميں 18 جولائی 2009ء کو پنجاب کے صدر مقام اور بقول شخصے پاکستان کے دِل لاہور ميں آ بسا ۔ کچھ ماہ تو اپنے جھنجھٹ نبيڑنے ميں لگے پھر آہستہ آہستہ گِرد و پيش کا جائزہ شروع ہوا
ميں بجلی کی ترسيل کے بارے ميں ہميشہ کراچی والوں پر ترس کھاتا رہا تھا ۔ جب اپنے پر بنی تو سمجھ آئی کہ لاہور ميں بجلی بڑھ چڑھ کر اپنا ہاتھ دکھاتی ہے ۔ لاہور ميں قيام کے دوران 24 ميں سے 10 سے 16 گھنٹے بجلی کے بغير گذارنے پڑے جبکہ ہم لاہور کے بہترين علاقہ ميں رہ رہے ہيں ۔ بہت سے لوگوں کے يو پی ايس جواب دے گئے ۔ اس دوران مجھے بھی ايک نئی بيٹری مبلغ 7500 روپے ميں خريدنا پڑی کيونکہ جو بيٹری 2008ء ميں خريد کی تھی وہ مر گئی تھی ۔ جب درجہ حرارت 40 سے 45 درجے سيلسيئس [Celcius] ہو اور بجلی غائب تو ہوش ٹھکانے آ جاتے ہيں ۔ اور اس حال ميں جب ملتان ہو جہاں درجہ حرارت 50 درجے سيلسيئس تک پہنچ جاتا ہے تو اس بارے ميں قدير احمد جنجوعہ صاحب ہی بہتر بتا سکتے ہيں ۔ کراچی کا درجہ حرارت کبھی 33 درجے سيلسيئس سے اُوپر نہيں گيا ۔ لاہور ميں پچھلے کچھ دنوں سے ميرے سونے کے کمرہ ميں جس کی کسی ديوار يا چھت پر دھوپ نہيں پڑتی درجہ حرارت دن رات کا اکثر حصہ 32 سے 33.5 درجے ہوتا ہے
بجلی کے بارے ميں 17 اپريل 2010ء کو اسلام آباد ميں ايک اجلاس بُلايا گيا ۔ شائد ” پنجاب کھا گيا ” کے شور شرابے کے زيرِ اثر صرف پنجاب کے وزيرِ اعلٰی کو بلايا گيا تھا ۔ وزير اعظم يوسف رضا گيلانی صاحب ۔ وزير پانی و بجلی اُس وقت حقا بقا رہ گئے جب وزير اعلٰی پنجاب محمد شہباز شريف نے کہا “جو صوبہ بجلی کے سلسلہ ميں واپڈا کے واجبات باقاعدگی سے ادا کرتا ہے وہاں پر لوڈ شيڈنگ زيادہ کی جا رہی ہے اور جن صوبوں کے ذمہ واپڈا کے اربوں روپے واجب الادا ہيں وہاں بجلی کی لوڈ شيڈنگ کم کی جا رہی ہے ۔ آخر ايسا کيوں ہے ؟ ہونا تو اس کا اُلٹ چاہيئے”۔ [آجکل بجلی کی ترسيل لاہور ميں قائم واپڈا يا پيپکو کی بجائے اسلام آباد ميں قائم سينٹرل کنٹرول اتھارٹی کنٹرول کر رہی ہے]
وزير اعظم صاحب نے واپڈا کے اعلٰی عہديدار سے دريافت کيا تو معلوم ہوا کہ نہ پنجاب کے کسی سرکاری محکمہ کے ذمہ واپڈا کا ايک پيسہ واجب الادا ہے اور نہ پنجاب کے نجی اداروں کے ذمہ کوئی بِل واجب الادا ہے جبکہ باقی تينوں صوبوں کے سرکاری محکموں کے ذمہ اربوں روپے کے بِل واجب الادا ہيں ۔ اس پر وزير اعظم صاحب نے پير 19 اپريل کو اجلاس جاری رکھنے اور باقی تين صوبوں کے وزراء اعلٰی کو اجلاس ميں حاضر ہونے کا حُکم ديا ۔ اب ديکھتے ہيں نتيجہ کيا نکلتا ہے
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
اسےکہاکہ بغل میں چھری منہ میں رام رام۔ سارےصوبےہرمعاملےمیں پنجاب کوہی موردالزام ٹھہراتےہیں لیکن اپنی کارگزاری سب کےسامنےہے۔اوریہ پنجاب ہی جوکہ سب کچھ برداشت کرتاآیاہےاورکرتارہےگا۔ اللہ تعالی میرےملک کوسلامت رکھےاورسب کوشعوروعقل دے۔ آمین ثم آمین
والسلام
جاویداقبال
بہت اچھی بات ہے – مگر کیا خوب ہوتا کے سب سے زیادہ کمانے کر دنے والے کے صوبے کے متعلق بھی یہی راے ہوتی-
ماموں-
بہت خوب لکھا ہے – یہ تو مرد ہی ہیں جو “مادہ پرست ” ہو گیے ہیں-
مگرمیرا اپنا خیال ہے کہ اگر سارے جانورں کو اپنی مادہ کے لیے شاپنگ کروانی پڑے تو ویاں بھی مادا بیوٹی پالر سے خوب صورت ہی باہر آے اور نر انسان نما مرد لگے گا-
عمر صاحب
ميری تحرير “پنجاب پنجاب پنجاب” ميں تو کوئی ايسی بات نہيں ۔ شايد آپ نے کسی اور بلاگ پر تبصرہ کرنا تھا
جناب اجمل صاحب آپ نے کہا ہے کہ ” ہر طرف سے آواز اٹھتی رہتی ہے پنجاب کھا گیا ….” آپ اس کی وضاحت کریں گے .. آپ کا اشارہ کس طرف ہے
شيپر صاحب
ہر بات کی وضاحت ضروری نہيں ہوتی ۔ وضاحت صرف اُس بات کی کی جاتی ہے جو عام فہم نہ ہو ۔ اگر آپ اخبار پڑھنے ہيں يا کم از کم بلاگ پڑھتے ہيں تو سب کچھ جانتے ہوں گے پھر پوچھنے کی ضرورت کيوں پيش آئی
غلطی پنجاب کی ہے اس نے باقی صوبوں کو گھٹی صحيح طريقے سے نہيں ڈالی تھی
انکل آپ اتني تحريريں لکھ کر بھي عملي طور پر ان کے ذہن نہ بدل سکے ابھي بھي يہ ہر وقت پنجاب کي مخالفت کرتے ہيں آپ سے اچھا کام تو ميں نے کر دکھايا ہے ميرے گھر ميں چار پٹھان ہيں کوئي بھي پنجاب مخالف بات کرنے کی ہمت نہيں کر سکتا کم از کم ميرے سامنے
پھپھے کٹنی صاحب
پنجابی ہوتے ہی ڈگے ہيں آپ سميت
پھپھے کٹنی صاحبہ
محبِ وطن پٹھان تو پنجابيوں کو بُرا نہيں کہتے