میں صدر مملکت کا کوئٹہ میں خطاب سن رہا تھا۔ صدر صاحب نے تقریر کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ وہ جسٹس نسیم حسن شاہ کو بھٹو کا قاتل سمجھتے ہیں اور پھر ساتھ ہی یہ فرمایا کہ وہ چار فٹ تین انچ کا شخص لاہور میں آزاد پھر رہا ہے۔ ان کے کہنے کا مقصد تو اپنی فراخدلی ظاہر کرنا تھا اور بتانا تھا کہ پی پی پی انتقام پر یقین نہیں رکھتی لیکن ان کی تقریر کے یہ فقرے سن کر مجھے لگا جیسے وہ سوئے ہوئے زخموں کو کرید کر تازہ کر رہے ہیں اور لاہور کے پی پی پی کے جیالوں کو یاد دلا رہے ہیں کہ تمہارے بھٹو کا قاتل کون ہے اور کہاں ہے؟
جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا تھا کہ ایسی باتیں صدر صاحب کو زیب نہیں دیتیں اور ان کا یہ بھی خیال تھا کہ شاید صدر صاحب سپریم کورٹ کے این آر او پر فیصلے سے توجہ ہٹانے کے لئے ایسی باتیں کر رہے ہیں جبکہ چودھری اعتزاز احسن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو کو جسٹس مولوی مشتاق حسین اور جسٹس انوار الحق نے پھانسی چڑھایا تھا
جسٹس نسیم حسن شاہ کے الفاظ قابل غور تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بھٹو صاحب کے وکیل یحییٰ بختیار غصہ نہ دلاتے تو شاید سپریم کورٹ انہیں موت کی سزا نہ دیتی۔ جنرل کے ایم عارف کی کتابیں اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہیں کہ جنرل ضیاء الحق نے بہرحال بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا ہوا تھا اور عدالت عالیہ نے وہی کرنا تھا جو آمر مطلق چاہتا تھا۔ رہا غصہ تو عینی شاہدوں کا بیان ہے کہ جب بھٹو صاحب پر ہائیکورٹ میں مقدمہ چل رہا تھا تو وہ مختلف طریقوں سے جسٹس مولوی مشتاق حسین کا تمسخر اڑاتے اور اسے غصہ دلاتے تھے
جسٹس مولوی مشتاق نے بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی اور چوہدری ظہور الٰہی نے صدر ضیاء الحق سے وہ قلم مانگ لیا جس سے صدر صاحب نے پھانسی کی تصدیق کی تھی چنانچہ چوہدری ظہور الٰہی کو کار میں سفر کرتے ہوئے ماڈل ٹاؤن موڑ لاہور پر قتل کر دیا گیا، کیا یہ انتقام نہیں تھا؟ نہ جانے کیوں میں صدر زرداری صاحب کی تقریر سنتے ہوئے محسوس کر رہا تھا کہ ان کے ان الفاظ سے پی پی پی کے جیالے پھر طیش میں آئیں گے اور پھر خدا جانے کیا ہو
دراصل ہر سیاسی جماعت اور اس کی قیادت کا ایک مزاج ہوتا ہے جسے میں اس جماعت کا کلچر کہتا ہوں۔ عام طور پر سیاسی جماعت میں یہ مزاج یا کلچر اس کی قیادت پیدا کرتی ہے
ضیاء الحق کے مارشل لا لگانے کے بعد ایک عرصے تک ضیاء الحق بھٹو صاحب کو ”سر“ کہہ کر مخاطب کرتا رہا، وہ ان کا بے حد احترام کرتا تھا اور اس کا ہرگز ا رادہ بھٹو صاحب کو پھانسی چڑھانے کا نہیں تھا جس روز بھٹو صاحب نے مختصر سی حراست سے رہائی کے بعد یہ بیان دیا کہ وہ اقتدار میں آکر جرنیلوں کو پھانسی چڑھا دیں گے، اسی لمحے ضیاء الحق اور اس کے ساتھیوں کا موڈ بدلنے لگا اور احترام کی جگہ تصادم نے لینی شروع کر دی
آپ غور کریں تو محسوس کریں گے کہ پی پی پی کا کلچر جارحیت کا کلچر ہے اور اس کی قیادت جارحیت پر یقین رکھتی ہے۔ پی پی پی کے دانشور اسے مزاحمت کہتے ہیں جبکہ دراصل پی پی پی کے مزاج اور خمیر میں جارحیت پوشیدہ ہے اور وہ مزاحمت نہیں بلکہ تصادم کرتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل خود زرداری صاحب کے بیانات اور خاص طور پر نوڈیرو والی تقریر اور یہ کہ اسٹبلشمنٹ نہ ہی صرف ان کے اقتدار بلکہ ان کی جان کے در پے ہے یہ ساری حکمت عملی اور انداز ان کے جارحانہ سیاسی کلچر کی غمازی کرتا تھا۔ اسی طرح راجہ ریاض کی تقریروں میں لاشیں گرانے اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی سندھ کی علیحدگی کی دھمکیاں اور پھر پی پی پی کے کارکنوں کا نہ صرف میاں نواز شریف کا پتلا جلانا بلکہ سڑکوں پر ماتم کرنا، پی پی پی کے جارحانہ انداز کو بے نقاب کرتا ہے۔
بظاہر وزیراعظم صاحب چیف جسٹس کے سامنے سرنگوں ہو چکے ہیں لیکن مجھے یہ تصادم سے نکلنے کی وقتی مصلحت اور حکمت عملی لگتی ہے کیونکہ پی پی پی کی حکومت این آر او پر فیصلے کے صدر صاحب سے متعلقہ حصے اور خاص طور پر سوئس اکاؤنٹس پر مقدمات ری اوپن کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوگی۔ گزشتہ دنوں آپ نے دیکھا کہ کس طرح ججوں کو ملغوف دھمکیاں دی جا رہی تھیں اور کس طریقے سے ان کی دیانت پر شکوک کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ مجھے خدشہ ہے کہ ماضی کی مانند اب بھی پیپلز پارٹی کو جارحیت مہنگی پڑے گی لیکن کیا کیجئے کہ جارحیت جیالوں کے مزاج کا حصہ ہے۔ کس قدر فکر انگیز اور حکمت سے لبریز ہے حضرت علی کا یہ فرمان کہ ”ہر شخص کی شخصیت اس کی زبان کے نیچے پوشیدہ ہوتی ہے“
تحرير ۔ ڈاکٹر صفدر محمود
آزاد عدلیہ کو پھلتا پھولتا دیکھنا سیاسی جماعتوں بشمول مذہبی جماعتوں کے کسی کی خواہش نہیں۔ جس کا اظہار اکثر مواقع پر کیا جاتا رہا ہے۔ کبھی قلم کی سازش اور کبھی عدالتی ڈکٹیٹر کے نام سے بھی اعلیٰ عدلیہ کو نشانہ بنایا گیا۔
ایک مارے ایک سہلائے کی پالیسی پر عمل پیرا صدر اور وزیراعظم اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر صرف پارٹی چیئرمین کو بچانے کے لیے سارا کام کررہے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم میں جس طرح سیاسی آمروں کو توقیت بخشی گئی ہے اس سے اچھی مثال ملنا مشکل ہے۔
کہتے ہیں جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ لیکن اب چونکہ گیدڑ بھی سیاسی ہوگیا ہے، اس لیے پہلے وہ شہر میں اعلیٰ عہدہ حاصل کرتا ہے، پھر اس طرف آتا ہے۔ یوں وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اپنی موت کو ٹال دیا۔
محمد اسد صاحب
آپ نے گيدڑ والی بات خوب کہی ہے