یہ ہماری ایک بڑی سیاسی جماعت کا نعرہ ہے جس کی بنیاد پر اُنہوں نے 1971ء کے الیکشن میں خاصی کامیابی حاصل کی تھی۔ یہ بے چاری سیدھی سادھی قوم ہے آپ اس کو جو بھی نعرہ دیں ، گولی دیں ، یہ بخوشی قبول کر لیتی ہے۔ پاکستان میں اس نعرہ کے بلند ہونے سے پیشتر یہ کمیونزم سے متاثر ہندوستان میں وجود میں آیا تھا اور یہ اس قد ر مشہور ہو گیا تھا کہ منوج کمار نے اپنی فلم کا یہی نام رکھدیا اور اس کو گولڈن جوبلی منا کر بہت شہرت ملی۔ کمیونزم نے ہندوستان میں پہلے اپنے قدم جمائے (مغربی بنگال اس کا گڑھ تھا) اور پھر پاکستان میں کچھ لوگ اس سے متاثر ہوئے کہ اس میں غریبوں کی مدد کا اصول اور وعدہ تھا۔ یہ تین نام یعنی روٹی، کپڑا اور مکان دراصل غریب انسان کی تین اہم بنیادی ضروریا ت کے نام ہیں یعنی خوراک، رہائش گاہ اور لباس (یعنی ستر پوشی)۔ عیار سیاست دانوں نے اس کی مقبولیت کو سمجھ کر انتخاب میں اپنے منشور میں شامل کر کے ووٹ حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیا اور وہ بے چارے غریب کی دلی تمنا اور آواز ہونے کی وجہ سے کامیاب رہے۔ دوسرے وعدوں کی طرح اس کا بھی بُرا حشر ہوا لیکن عوام خواب خرگوش میں مبتلا ہو کر اچھے دنوں کے خواب اور امید میں زند گی گزارنے لگے
ہندوستان میں بھوپال کا ایک چمار جگجیون رام نائب وزیراعظم اور وزیر دفاع کے عہدے پر فائز ہوا (اس کی بیٹی میرا کماری آجکل لوک سبھا کی اسپیکر ہے) ۔ یہ برسوں وزارت کے عہدے پر رہا اور اسکی مالی حالت اس قدر اچھی ہو گئی کہ پارلیمنٹ میں کسی نے جب اس سے سوال کیا کہ جگجیون رام جی آپکے بیٹے سریش بھائی نے چوبیس کروڑ روپیہ انکم ٹیکس کیوں ادا نہیں کیا تو منسٹر صاحب موصوف نے مسکرا کے فرمایا کہ وہ شاید بھول گیا ہو گا۔ اس سے آپ موصو ف کے ماضی اور موجو د ہ دولت کا اندازہ کر سکتے ہیں ۔ کچھ اسی قسم کے معجزات ہمارے ملک میں بھی ظہور پذیر ہوئے ہیں اور عوام ان سے اچھی طرح واقف بھی ہیں لیکن مجبور ہیں ، کچھ کر نہیں سکتے اور بولنے سے ڈرتے ہیں۔ بہرحال یہ اس ملک ہندوستان کا حال ہے جس نے یہ نعرہ ایجا د کیا تھا۔ لاتعداد کئی دوسرے سیاسی لیڈر بھی اس معجزے سے مستفید ہو گئے۔ جب یہ پُرکشش نعرہ پاکستان میں داخل ہو ا تو لیڈروں نے اس کو لبیک کہا اور گلے لگا لیا اور ہر گلی کوچے میں یہ نعرہ دیواروں پر نظر آنے لگا اور اس کا چر چا ہونے لگا لیکن نعرہ اورچیز ہے اور اس پر عمل کرنا دوسری چیز۔ اس نعرے کے تین اجزاء میں روٹی ، کپڑا اور
مکان ہیں اور ان میں روٹی سب سے زیادہ اہم ہے۔ روٹی صر ف روٹی ہی نہیں بلکہ کھانے پینے کی تما م چیزیں مثلاً اجناس، ترکاریاں ، گوشت ،چینی گھی اور تیل وغیرہ شامل ہیں۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ علامہ اقبال جو کمیونزم سے میلوں دور تھے انہیں بھی یہ کہنا پڑا :
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہءِ گندم کو جلا دو
ساتھ ہی انہوں نے ہمیں راستہ بھی بتلا دیا جس پر عمل ہو تو موجودہ نظام ہل جائے گا ۔
اُٹھو میری دنیا کے غر یبوں کو جگا دو
کاخ اُمراء کے در و دیوار ہلا دو
یہ بات برصغیر کے بڑے سے بڑے سوشلسٹ لیڈر کے ذہن میں اور زبان پر نہیں آ سکی ۔ راجہ مہدی علی خان نے یہ مشہور گیت لکھا تھا۔ ”دیوانہ آدمی کو بناتی ہیں روٹیاں“،
”خود ناچتی ہیں سب کو نچاتی ہیں روٹیاں“
عوامی کہاوت مشہور ہے کہ کسی نے بھٹو صاحب سے پوچھا کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا ”چار روٹیاں“۔ معین احسن مشہور بھوپالی شاعر جو علی گڑھ چلے گئے تھے انہوں نے بہت پیارا شعر کہاہے:۔
جب جیب میں پیسے ہوتے ہیں جب پیٹ میں روٹی ہوتی ہے
اس وقت یہ ذرہ ہیرا ہے اس وقت یہ شبنم موتی ہے
جگر مراد آبادی کو یہ شعر بہت پسند تھا ۔ بار بار یہ غزل پڑھواتے تھے اور جوش کی طرف مسکر ا کر کہتے تھے ۔ دیکھئے یہ ہے سوشلزم ۔ مذہبی اعتبار سے بھوکے کو کھانا کھلانا ثواب کا کام ہے ۔ پرانے زمانے میں امیر لوگ لنگر جاری کرتے تھے اور آج بھی نیک دل مخیر حضرات محدود طور پر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس کی جزا دے اور بر کت عطا فرمائے۔ آمین
مشرف نے جہاں لاتعداد بدمعاشیاں کیں وہاں غریبوں سے روٹی تک چھین لی، اپنی گندم سستے داموں بیچ کر مہنگے داموں در آمد کیا اور لوگوں کو لمبی لمبی قطاروں اور فاقہ کشی پر مجبور کر دیا ۔ خوب کمیشن کھا یا اور مزے اُڑائے ، لاتعداد لوگ زخمی ہوئے اور فوت ہو گئے ۔ یہ کارکردگی ہے ہمارے حکمرانوں کی ۔ ماشاء اللہ موجودہ حکومت اُ س سے بھی دس قدم آگے بڑھ گئی ہے ۔ رمضان المبارک کے مہینے میں وزیروں اور ناظمین نے غریب خواتین او ر مر دوں کو تھپڑ لگا ئے ، جوتے مارے اور ڈنڈے برسائے۔ ایسے حکمران یقینا اپنے اعمال کا صلہ پائیں گے۔ اس بدنظمی کا سب سے بڑا سبب آئندہ آنے والے حالا ت سے غفلت ، ذخیرہ اندوزی اور وقت پر اناج کا ذخیر ہ نہ کرنا ہے اور کرپشن ہے۔ سر سے لے کر پیر تک ان کے بدن تعفّن کا شکار ہیں۔ یہی رواج جاری رہا تو کسان کاشتکار ی چھوڑ دے گا، لوگ اناج کو ترسنے لگیں گے اور غریب مستقل فاقہ کشی پر مجبور ہو جائے گا۔ خدا رحم کرے اور ہمیں ایسے حالات سے محفوظ رکھے ۔ آمین
دوسری اہم ضرورت کپڑا ہے جس سے ستر پوشی کے تمام وسائل موجو د ہیں۔ انسان کی تخلیق کے بعد ہی شجر ممنوعہ کے پاس جانے سے آدم و حوّا برہنہ ہو گئے تو ستر پوشی کے لئے درختوں کے پتے ان کے کا م آئے ، پھر جانوروں کی کھالیں یہ کام دینے لگیں ، چرخہ کی ایجا د ہوئی تو کھّد ر سے ہوتے ہوتے بڑے بڑے مِل بن گئے لیکن مہنگائی بھی بڑھنے لگی تو ساحر لدھیانوی چلا اُٹھا :
مِلیں اس لیے ریشم کے ڈھیر بُنتی ہیں
کہ دختران وطن تار تار کو ترسیں
آج اُمراء کے پاس ضرورت سے زیادہ اور غریب کے پاس بمشکل ستر چھپانے کو کپڑ ے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ نئے نئے فیشن کی وجہ سے امیر لوگ پرانے کپڑے جلد غریبوں کو دے دیتے ہیں۔ اسی طرح باہر سے پرانے کپڑے ، جو اعلیٰ قسم کے اور اچھی حالت میں ہوتے ہیں ، در آمد کئے جاتے ہیں اور لنڈ ا بازار میں معمولی قیمت پر غربیوں کو مل جاتے ہیں اور خاص طور پر سر دی کے موسم میں ان کو سردی کی شد ت سے بچا لیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ عر صہ بعد لوگ بنیان اور لنگی اور پھر شاید قدرتی لباس میں نظر آنے لگیں۔ اسی لئے شاعر نے برجستہ کہا تھا:
تن کی عریانی سے بہتر ہی نہیں کوئی لباس
یہ وہ جامہ ہے نہیں جس کا کچھ اُلٹا سیدھا
کپڑے کی انسان کو نہ صرف زندگی میں بلکہ موت کے بعد بھی کفن کی صورت میں ضرورت پیش آتی ہے گویا :
جائے گا جب یہاں سے کچھ بھی پاس نہ ہو گا
دو گز کفن کا ٹکڑا تیرا لباس ہو گا
(اسد بھوپالی )
نعرے لگانے کے بجائے موجودہ حکومت کا فرض ہے کہ غریبوں کو کم قیمت پر کپڑا مہیا کرے اور اپنے لیڈروں کے وعدوں کا ایفا کرے۔
سب سے آخری مگر نہایت اہم ضرورت سر چھپانے کی جگہ ہے جس کو کُٹیا ، چھونپڑی، مکان، فلیٹ، حویلی، محل وغیرہ کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے ۔
دراصل یہ سائبان سر چھپانے اور قیام و رہائش کی جگہ ہے جسے کسی نہ کسی طرح حاصل کرنا فطرت و ضرورت انسانی ہے۔ آسمان ، فلک ، چرخ نیلی کو شاعروں نے ظالم اور بُرا کہا ہے سوائے ایک شاعر آتش لکھنوی کے جس نے کہا تھا:
خدا دراز کرے عمر چر خ نیلی کی
کہ ہم اسیروں کی تربت پہ شامیانہ ہوا
وہ تو تربت پر شامیانہ کو غنیمت سمجھتے ہیں مگر آج زندہ لوگ چھت سے محروم ہیں اور شاعر کو کہنا پڑتا ہے:
فٹ پاتھ پہ سو جاتے ہیں اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
اس طرح پچھلے چند سالوں میں لوگوں کو اس حالت میں پہنچا دیا ہے کہ آج فٹ پاتھ ، ویران علاقہ ، کھنڈرات ، درختوں کے سائے اور کچی
جھونپڑیا ں ان کی پناہ گاہیں بن گئی ہیں۔ غریب اب غریب سے غریب تر ہو گیا ہے، نہ کھانا مل رہا ہے ، نہ کپڑا پہننے کو مل رہا ہے اور نہ سر پہ سایہ ہے۔ یہ موجودہ ترقی یافتہ زمانہ ہے اس کے مقابلہ میں ذرا وہ غیر ترقی یافتہ زمانہ جو حضرت عمر اور حضرت عمر بن عبد العزیز کا دیکھیں ، کوئی غریب نہ تھا، کوئی زکوة لینے والا نہیں ملتا تھا۔ نہ ہوائی جہاز، نہ بحری جہاز، ریل ، ٹرک، ٹیلیفون، موبائل، ای میل، فیکس وغیرہ کچھ بھی نہ تھا پھر بھی مدینہ سے تاشقند ، ثمر قند اور شمالی افریقہ تک کے ممالک کے عوام کو تمام ضروریات زندگی میسر تھیں اور امن و امان قائم تھا۔ حکمران خوف الہٰی سے کانپتے تھے اور رات میں گھنٹوں عبادت اور دعا مانگتے رہتے تھے۔ مگر آج کے حکمران ہر چند روز بعد ایوانوں میں عشائیہ دیتے ہیں ، لاکھوں روپے کے اعلیٰ کھانے کھائے جاتے ہیں اور عوام کو ہر دوسرے روز جھوٹے وعدوں سے بہلا دیا جاتا ہے ۔ اس کی یقینا باز پُرس ہو گی اور ان کے اعمال کا بدلہ ان کو دیا جائے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ کچھ بھی سننے کو تیار نہیں ہیں اور مخلص لوگوں کی تجاریز اور مشورے ان کے بہرے کانوں تک نہیں پہنچتے ، گویا بقول مومن#:
تیرا ہی دل نہ چاہے تو باتیں ہزار ہیں
کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے جوکہ ایوانوں کے مکینوں کے ضمیر کو ہلانے کو کافی ہے :
”جو گھر بنا تے ہیں اس گھر میں وہ نہیں رہتے “
بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ روٹی ، کپڑ ا اور مکان کا نعرہ توپورا نہ ہو سکا بلکہ اس کی جگہ جوتا، لاٹھی اور تھپڑ نے لے لی ہے۔
تحرير ڈاکٹر عبدالقدير خان ۔ بشکريہ جنگ
ڈاکٹر خان زبردست لکھتے ہیں۔ میں ان کا مداح ہوں
ہاہاہا۔ بیوقوفو یہ نعرہ پی پی پی کے ممبران و وزراء کیلئے تھا جو کہ کب کا پورا ہو چکا ہے! نیا نعرہ یہ رہا:
کوٹھا، بنگلہ اور حمام!
روٹی کپڑا اور مکان ۔ پاکستان میں بولا جانے والا دنیا کاسب سے بڑا جھوٹ
عارف کريم صاحب
آپ کا نيا نعرہ سمجھ ميں نہيں آيا ۔ وضاحت کی ضرورت ہے ۔ ويسے اسلام آباد ميں ايک روٹی پلانٹ لگنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا “ہم نے ايک وعدہ روٹی کا پورا کر ديا”۔ روٹی قيمت پر ملتی تھی اور بازار سے مہنگی تھی