مجھے ياد نہيں آ رہا کب مگر پہلے بھی ذکر ہوا تھا کہ لفظ ” نکتہ ” درست ہے يا ” نقطہ “۔ اب شاہدہ اکرم صاحبہ نے يہ سوال اُٹھا يا ہے ۔
اُردو ہماری قومی زبان ہے مگر جتنا بُرا سلوک ہماری قوم نے اس کے ساتھ پچھلی چار دہائيوں ميں کيا ہے ايسا کسی قوم نے اپنی زبان کے ساتھ نہيں کيا ہو گا ۔ نہ صرف بودے طريقہ سے اس ميں انگريزی کا جڑاؤ بلکہ الفاظ کا غلط استعمال اور غلط ہِجے ۔ ايک روز مرّہ کی مثال ہے کہ” طالب ” کی جمع ” طلباء ” ہے مگر دورِ جديد کے تمام علوم سے ليس لوگ ” طلبہ ” لکھتے ہيں ۔ اسی طرح ” طالب علم ” کی جمع ” طالب علموں ” لکھی جاتی ہے ۔ مُستقبَل کو مُستقبِل کہا جاتا ہے ۔ خير آتے ہيں اصل موضوع کی طرف ۔
” نُکتہ ” اور ” نُقطہ ” دونوں ہی درست ہيں ليکن دونوں کا مطلب مُختلف ہے ۔ ميں ان کے فقروں ميں استعمال سے معنی واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں
نُکتہ چِينی اچھی عادت نہيں
شاہدہ اکرم صاحبہ نے خُوب نُکتہ نکالا ہے
سيّد حيدرآبادی صاحب بہت نُکتہ داں ہيں
. . . . ميں نے چار نُقطے ڈالے ہيں
ب کے نيچے ايک نقطہ ۔ ت کے اُوپر دو نقطے
کسی چيز کی بہت ہی کم تعداد بتانے کيلئے مبالغہ آرائی کرتے ہوئے نُقطہ کا لفظ استعمال کيا جاتا ہے
ذاتی التماس
ميرے عِلم کے مطابق شاہدہ اکرم صاحبہ ايک تابعدار بيٹی ۔ جانثار بہن ۔ وفادار بيوی ۔ سمجھدار ماں اور صُلح جُو فردِ قوم ہيں اور سب سے بڑھ کر اچھی عورت کی مثال ہيں چنانچہ حسّاس بھی بہت ہيں اور برداشت کی قوت بھی بہت رکھتی ہيں ۔ اللہ اُنہيں سدا تندرُست و صحتمند ۔ خوش و خُوشحال رکھے ۔ اپنے قارئين سے بھی ميری درخواست ہے کے اُن کيلئے يہی دعا کريں
اسمیں اردو کا کیا قصور ہے۔ قصور ہے تو حکومت کا جسنے اول دن سے ہی سرکاری زبان غلاموں کی زبان انگریزی رکھی تھی!
آپ نے بھی خوب نکتہ نکالا ہے
عارف کريم صاحب
اُردو کا قصور کس نے کہا ؟ قصور اُن کا ہے جن کی قومی زبان اُردو ہے
” طالب ” کی جمع ” طلباء ” ہے مگر دورِ جديد کے تمام علوم سے ليس لوگ ” طلبہ ” لکھتے ہيں
محترم! طلبہ بھی طالب کی جمع کے طور پر ملتا ہے اردولغت میں بھی اور عربی لغت میں بھی۔ دیکھئے مصباح اللغات:۵۱۳ فیروز اللغات
سيّد حيدرآبادی صاحب بہت نُقطہ داں ہيں
اگر اس سے دقیقہ رس مراد ہے تو املاءسمجھ سے باہر ہے اس کے علاوہ اور کچھ مراد ہے تو میں اس کے جاننے کا شائق ہوں
ميرا سر درد کر رہا ہے نکتہ نقطہ کچھ سمجھ نہيں آيا شاہدہ جی کے ليے ميری بھی يہی دعا ہے
محمد سعید پالن پوری صاحب
فيروز اللغات ميںدورِ جديد اشتہار بازی کا دور ہے ۔ لوگ مکئی کے پھُولے کو حقارت سے ديکھتے ہيں اور پاپ کارن کھانا پسند کرتے ہيں ۔ اغلاط اسی طرح جنم لے کر زبان زدِ عام ہوتے ہيں ۔ اور ڈکشنريوں کی زينت بنتے ہيں ۔ آپ ترکيبِ الفاظ کے ماہر ہيں ۔ اسی اصول کے تحت بتايئے کہ طالب کی جمع طلبہ کيسے بنتی ہے ؟
نُقطہ دان آپ کی سمجھ ميں کيوں نہيں آيا يہ ميں بھی سمجھنے سے قاصر ہوں ۔ وائے ميری کم علمی
اسماء بتول صاحبہ
يہ سب پھپھے کُٹنی کی شرارت ہے کہ آپ کا سر درد کر رہا ہے ۔ ورنہ سر درد نہيں کرتا بلکہ سر ميں درد ہوتا ہے ۔ آپ بتائيں بھلا سر کس کو درد کر رہا ہے ؟
چلئے فیروز اللغات چھوڑ دیتے ہیں۔ عربی ڈکشنریز میں بھی یہ لفظ جمع کے طور پر ہے اس بارے میں کچھ فرمایئے۔ یہ مت کہیئے گا کہ بات اردو “طلبہ” کی ہورہی ہے عربی “طلبہ” کی نہیں
محمد سعید پالن پوری صاحب
بات گرامر کی کيجئے
ویسے معلوم نہیں کیوں آپ کا تبصرہ پڑھ کر مجھے آپ کی ایک پوسٹ بعنوان “فاتح” یاد آگئی۔
میں جو سمجھ پایا ہوں وہ یہ کہ “نکتہ” سے مراد ہے رمز یا باریک بات۔ جبکہ “نقطہ” کا مطلب ہے dot۔ ان معنوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ جملہ سمجھ سے بالا تر ہے۔
سيّد حيدرآبادی صاحب بہت نُقطہ داں ہيں
عمار عاصی صاحب
آپ کا نُکتہ بالکل درست ہے ۔ ميں اسے اپنی حماقت سے کم کچھ نہيں کہہ سکتہ کہ ميں نے نُکتہ کو نُقطہ لکھ ديا تھا ۔ توجہ دلانے کا شکريہ ۔ اب ميں نے درست کر ديا ہے