ميں نے کبھی پی پی پی کو ووٹ نہيں ديا ليکن 27 دسمبر 2007ء کو ساڑھے پانچ بجے شام مجھے اُس کے قتل کی خبر موبائل فون پر ملی تو برملا ميرے منہ سے نکلا “ظُلم ۔ ظُلم ۔ بہت بڑا ظُلم “۔ ميرے ارد گرد اجنبی لوگ ميری طرف سواليہ نظروں سے ديکھنے لگے ۔ ميں نے جب اُنہيں خبر بتائی تو اُنہوں يقين نہيں آ رہا تھا
پچھلے سوا دو سال ميں بہت کچھ پڑھا اور سنا جا چکا ہے اور اب اقوامِ متحدہ کے خاص کميشن کی رپورٹ کے کچھ حصے بھی سامنے آ چکے ہيں ۔ کميشن کی رپورٹ کے مطابق “27 دسمبر 2007ء کو کيا ہوا” پڑھنے کيلئے يہاں کلک کيجئے
جو حقائق ميرے علم ميں تھے اور مجھے ابھی تک ياد ہيں
سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ميٹنگ ميں فيصلہ ہوا تھا کہ بينظير مری روڈ سے لياقت روڈ کے راستے لياقت باغ ميں داخل ہو نگی اور جلسہ ختم ہونے پر لياقت باغ سے باہر نکل کر داہنی طرف مُڑ کر آنے والے راستہ پر جانے کی بجائے بائيں طرف مُڑ کر لياقت روڈ پر سے ڈی اے وی کالج چوک سے بائيں مُڑ کر گوالمنڈی کے راستہ واپس جائيں گی ۔ مگر جب جلسہ کے بعد اُن کی گاڑی لياقت باغ سے باہر نکلی تو بائيں طرف لياقت روڈ پر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی تھيں چنانچہ خلافِ توقع داہنی طرف مُڑنے کی وجہ سے گاڑی کو مُڑنے ميں زيادہ وقت لگا اور لوگ اکٹھے ہو گئے
لياقت روڈ کے دوسرے سرے پر راجہ بازار کے پاس ڈسٹرکٹ ہيڈ کوارٹر ہسپتال لياقت باغ سے صرف دو منٹ کی ڈرائيو پر تھا جہاں تمام عملہ عام قوانين کے تحت ہر قسم کے حالات سے نپٹنے کيلئے تيار تھا مگر اُس طرف کا راستہ بند کر ديا گيا
رحمان ملک بينظير کا سيکيورٹی ايڈوائزر تھا اور بينظير کی ملکيت اُس بُلٹ پروف گاڑی ميں سوار تھا جو کسی بھی ايمرجنسی کی صورت ميں بينظير نے استعمال کرنا تھی ۔ لياقت باغ آتے ہوئے يہ گاڑی اُس گاڑی کے پيچھے چلتی رہی جس ميں بينظير سوار تھيں مگر لياقت باغ سے واپسی پر وہ گاڑی سب سے پہلے لياقت باغ سے نکلی اور جب تک بينظير کی گاڑی لياقت باغ سے نکل کر داہنی طرف مڑ رہی تھی رحمان ملک زرداری ہاؤس ايف 8 اسلام آباد پہنچ چکا تھا
ضروری شواہد اکٹھے کئے بغير اور کسی قسم کی تفتيش کے بغير جائے وقوعہ کی دھلائی کر کے تمام نشانات مٹا ديئے گئے
پوليس مقتول کا پوسٹ مارٹم ہر صورت ميں کراتی ہے اور اس سلسلہ ميں کبھی مقتول کے ورثاء کی رائے نہيں لی جاتی مگر بينظير کا پوسٹ مارٹم کرنے کيلئے ہسپتال کے ڈاکٹر اسرار کرتے رہے مگر پوليس نے پوسٹ مارٹم نہ کرنے دیا
آصف زرداری ۔ بلاول زرداری يا پی پی پی ميں سے کسی نے اس قتل کی ايف آئی آر کٹوانے کيلئے پوليس کو درخواست نہ دی جو عمل سمجھ سے باہر ہے
پی پی پی کی حکومت بن جانے کے بعد بھی کوئی تحقيقات يا تفتيش نہ کروائی گئی
پی پی پی کی حکومت نے يہ جانتے ہوئے کہ اقوامِ متحدہ قاتل کا تعين نہيں کرتی عوام پر ٹيکس لگا کر وصول کئے گئے لاکھوں ڈالرز کے عوض تحقيقات اقوامِ متحدہ کے حوالے کیں ۔ پھر اقوامِ متحدہ کے کميشن کو متعلقہ عہديداران سے تفتيش بھی نہ کرنے دی گئی اور رپورٹ کو جلد مکمل ہونے سے روکنے کيلئے بار بار روڑے اٹکائے گئے
سوال يہ ہے کہ بينظير کو قتل کروانے والے کون ہيں ؟ حقيقت تو اللہ جانتا ہے يا قتل کروانے والے جانتے ہيں مگر حالات و واقعات تو پرويز مشرف اور آصف علی زرداری کی طرف اشارہ کرتے ہيں
پاکستان کی تا ریخ بتا تی ہے کہ کسی پاکستانی سیاستدان کا کبھی بھی کوئ ایک قا تل نھیں رہا ملکی اسٹیبلیشمنٹ اور غیر ملکی دشمن ممالک مل کر پاکستان کے بہترین دماغوں کو قتل کرتے رہے ہیں اور اس طرح پاکستان کی جڑوں کو کھو کھلا کرتے رہےہیں۔
عين سعيدہ صاحبہ
تبصرہ کا شکريہ ۔ آپ کا تجزيہ بالکل درست ہے ۔ يہی وجہ ہے کہ درست طريقہ سے تفتيش نہيں کرنے دی جاتی ۔ صرف سياستدانوں کا ہی نہيں علماء دين اور کچھ دوسری بڑی ہستيوں کا بھی قتل اسی زمرے ميں آتا ہے