Monthly Archives: March 2010

یومِ پاکستان

Flag-1 آج يومِ پاکستان ہے ۔ بروز ہفتہ 12 صفر 1359ھ اور گریگورین جنتری کے مطابق 23 مارچ 1940ء لاہور میں بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کی شمال کی طرف اُس وقت کے منٹو پارک میں جو پاکستان بننے کے بعد علامہ اقبال پارک کہلایا مسلمانانِ ہِند کے نمائندوں نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس کا عنوان “قراردادِ لاہور” تھا لیکن وہ minar-i-pakistan قرارداد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فضل و کرم سے قراردادِ پاکستان ثابت ہوئی ۔ مینارِ پاکستان علامہ اقبال پارک میں ہی کھڑا ہے ۔ مینار پاکستان بطور یادگار قراردادِ پاکستان تعمیر کیا گیا تھا ۔ عوام نے اسے یادگارِ پاکستان کہنا شروع کر دیا جو کہ مناسب نہ تھا ۔ چنانچہ اسے مینارِ پاکستان کا نام دے دیا گیا

مندرجہ بالا واقعہ ثابت کرتا ہے کہ اتحاد و یکجہتی کامیابی کا پیش خیمہ ہوتی ہے جو 55 سال سے زائد ہمارے ملک سے غائب رہنے کے بعد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مہربانی سے مارچ 2009ء میں کافی حد تک بحال ہوئی ہے ۔ اللہ قادر و کریم کے حضور میں دعا ہے کہ یہ ملی یکجہتی نہ صرف قائم رہے بلکہ مزید بڑھے اور قوم کا ہر فرد اپنے ذاتی مفاد کو بھُول کر باہمی اور قومی مفاد کیلئے جد و جہد کرے اور مستقبل کی دنیا ہماری قوم کی مثال بطور بہترین قوم کے دے ۔ آمین
میرے مشاہدے کے مطابق بہت سے ہموطن نہیں جانتے کہ 23 مارچ 1940ء کو کیا ہوا تھا ۔ متعلقہ حقائق کا مختصر ذکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں

آل اِنڈیا مسلم لیگ نے اپنا سالانہ اجتماع منٹو پارک لاہور میں 22 تا 24 مارچ 1940ء کو منعقد کیا ۔ پہلے دن قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے کہا “ہندوستان کا مسئلہ راہ و رسم کا مقامی معاملہ نہیں بلکہ صاف صاف ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ اسی طرز سے سلوک کرنا لازم ہے ۔ مسلمانوں اور ہندوؤں میں اختلافات اتنے بشدید اور تلخ ہیں کہ ان دونوں کو ایک مرکزی حکومت کے تحت اکٹھے کرنا بہت بڑے خطرے کا حامل ہے ۔ ہندو اور مسلمان واضح طور پر علیحدہ قومیں ہیں اسلئے ایک ہی راستہ ہے کہ انہوں اپنی علیحدہ علیحدہ ریاستیں بنانے دی جائیں ۔ کسی بھی تصریح کے مطابق مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لوگ اپنے عقیدہ اور فہم کے مطابق جس طریقے سے ہم بہترین سمجھیں بھرپور طریقے سے روحانی ۔ ثقافتی ۔ معاشی ۔ معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے ترقی کریں

قائد اعظم کے تصورات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اے کے فضل الحق جو اُن دنوں بنگال کے وزیرِ اعلٰی تھے نے تاریخی قرارداد مقاصد پیش کی جس کا خلاصہ یہ ہے

کوئی دستوری منصوبہ قابل عمل یا مسلمانوں کو منظور نہیں ہو گا جب تک جغرافیائی طور پر منسلک مسلم اکثریتی علاقے قائم نہیں کئے جاتے ۔ جو مسلم اکثریتی علاقے شمال مغربی اور مشرقی ہندوستان میں ہیں کو مسلم ریاستیں بنایا جائے جو ہر لحاظ سے خود مختار ہوں ۔ ان ریاستوں میں غیرمسلم اقلیت کو مناسب مؤثر تحفظات خاص طور پر مہیا کئے جائیں گے اور اسی طرح جن دوسرے علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں اُن کو تحفظات مہیا کئے جائیں

اس قراداد کی تائید پنجاب سے مولانا ظفر علی خان ۔ سرحد سے سردار اورنگزیب ۔ سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسٰی ۔ یونائیٹڈ پراونس [اب اُتر پردیش] سے چوہدری خلیق الزمان کے علاوہ اور بہت سے رہنماؤں نے کی ۔ اس قراداد کے مطابق مغرب میں پنجاب ۔ سندھ ۔ سرحد اور بلوچستان اور مشرق میں بنگال اور آسام پاکستان کا حصہ بنتے ۔ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی اور اس کی تفصیلات طے کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ۔ یہ قراداد 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے دستور کا حصہ بنا دی گئی

مندرجہ بالا اصول کو برطانوی حکومت نے مان لیا مگر بعد میں کانگرس اور لارڈ مؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت سے پنجاب اور بنگال کے صوبوں کو تقسیم کر دیا گیا اور آسام کی صورتِ حال بھی بدل دی گئی ۔ بگال اور پنجاب کے صوبوں کو نہ صرف ضلعی بنیاد پر تقسیم کیا گیا بلکہ پنجاب کے ایک ضلع گورداسپور کو تقسیم کر کے بھارت کو جموں کشمیر میں داخل ہونے کیلئے راستہ مہیا کیا گیا

مسلم اکثریتی علاقے ۔ muslim-majority-mapاس نقشے میں جو نام لکھے ہیں یہ چوہدری رحمت علی کی تجویز تھی ۔ وہ لندن [برطانیہ] میں مقیم تھے اور مسلم لیگ کی کسی مجلس میں شریک نہیں ہوئے

۔

۔

۔

۔

۔
مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی
m-l-working-committee

شاہنواز ممدوٹ سپاسنامہ پیش کر رہے ہیں
welcome-addr-22-march-1940

چوہدری خلیق الزمان قرارداد کی تائید کر رہے ہیں
seconding-reson-march-1940

۔قائدِ ملت لیاقت علی خان اور افتخار حسین خان ممدوٹ وغیرہ قائد اعظم کے ساتھ
quaid-liaquat-mamdot

بچ کے رہنا

یہ ہے کمپیوٹر کا کمال ۔ پینٹ شاپ کے ذریعہ کچھ بھی بنایا جا سکتا ہے ۔ ہوشیار رہیئے اور کسی پر شک نہ کیجئے ۔ کل کو آپ کے ساتھ بھی اسی طرح کا کچھ ہو سکتا ہے

یہ زیبرہ ہے یا مگر مچھ
Zebra

اتنا تناور درخت ہاتھوں میں ؟
Tree in Hand

گھر آکٹوپس کے سکنجے میں
The Octopus

سڑک کھسک گئی
Road Slide

ناک ہی ناک
Big Nose

یہ کیسے انڈے ہیں
Head Eggs

بطخ کے انڈے میں سے نکلا کتا ؟
Dog Duck

روتے انگور
Crying Grapes

آگ میں گھوڑا
Burning Horse

مٹر کی پھلی میں فٹ بال
Football Peas

بوتل میں آدمی
Man in Bottle

آنکھ میں انگلیاں
Hand in Eye

پنجابی طالبان کيسے ؟

کیی قارئین نی بتایا تھا کہ پنجابی طالبان کیسے نہیں پڑھی جاتی . اب اسی دوبارہ اسی لئے شایع کیا ہے

اگر جنوبی وزيرستان کو بھارتی بيرونی فوجی چوکی جس ميں مذہبی رنگ ميں مُکتی باہنی موجود ہے کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ يہ قياس ہوائی يا مجذوب کی بڑ نہيں ہے بلکہ اطلاعات کی چھوٹی چھوٹی سينکڑوں کڑيوں سے ترتيب پاتی ہوئی حقيقت ہے جو پچھلے سالوں ميں مختلف انٹيليجنس ايجنسوں کو حاصل ہوئی ہيں

پورا مضمون يہاں کلک کر کے پڑھيئے

برطانوی صحافی اور عافیہ صدیقی

برطانوی صحافی مریم ایوان ریڈلی نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی حکومت نے تاحال ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی وطن واپسی کے لیے امریکی حکومت سے کوئی درخواست نہیں کی۔ افغانستان کی بگرام جیل میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موجودگی کا انکشاف کرنے والی نو مسلم برطانوی صحافی مریم ریڈلی آج کراچی پہنچیں توائرپورٹ پر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور پاسبان کے کارکنوں نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ میڈیا سے گفتگو میں مریم ریڈلی کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ غیر قانونی تھا اور یہ کہ نیو یارک میں ان کے مقدمہ کوچلایا جاناہی نہیں چاہیے تھا۔ انھوں نے کہا کہ وہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دینے کے لیے پاکستان آئی ہیں۔ اس موقع پرڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ وہ عافیہ صدیقی کے مقدمے میں اپیل کے لیے خود وکیل کا انتخاب کریں گی

ميری انگريزياں

اخبار والا کبھی کبھی اخبار کے ساتھ اشتہار بھی پھينک جاتا ہے ۔ ميں نے کبھی توجہ نہيں دی
پچھلے دنوں ايک اشتہار آيا جس پر لکھا تھا
Saddle Ranch
مطلب گھوڑے کی کاٹھی والا مويشی باڑہ ۔ سوچا جائيں گے اور گھوڑے کی سواری کريں گے
تفصيل پڑھنے کيلئے آگے بڑھا تو لکھا تھا
Happy Lunches
دھماکے روزانہ کا معمول بن چکے ہيں منہ ميں نوالا ڈاليں تو حلق ميں پھنس کے رہ جاتا ہے ۔ اسے پڑھ کر دل گارڈن گارڈن ہو گيا کہ خوشی کا ظہرانہ بھی ملے گا ۔ جلدی سے اس خوشی کے ظہرانے کی تفصيل پڑھنے لگا
لکھا تھا
Jalapano Bullets
پڑھتے ہی دل دھک سے رہ گيا ۔ پہلے ہی ہمارے ملک ميں گولياں چلتی رہتی ہيں ۔ يہ “جلی بھُنی گولياں” نمعلوم کتنی خطرناک ہوں گی
جلدی سے آگے بڑھا
لکھا تھا
Mini Chimichangas
” Mini” تو اُس سکرٹ کو کہتے ہيں جو پہنا جائے تو پوری ٹانگيں ننگی رہتی ہيں اور “چمی” اُسے کہتے ہيں جو چِپکُو ہو ۔ ساتھ چَنگاز بھی لکھا تھا يعنی چَنگا کی جمع ۔ مطلب بنا “ننگی ٹانگوں والے چِپکُو چَنگے
آگے بڑھا تو لکھا تھا
Hush Puppies
يعنی “ہُش کتُورے”
ميرے منہ سے نکلا “ہائے ميں مر گئی” اور آگے پڑھنے کی ہمت نہ ہوئی

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ سُنا ہے کہ ۔ ۔ ۔

سُنا ہے کہ مردوں کا چال چلن ٹھيک نہيں ۔ مرد ظُلم کرتے ہيں ۔ جو عمل بُرا ہے وہ بُرا ہے چاہے جو بھی کرے اسلئے غلط عمل کرنے والے کا دفاع نہيں ملامت کرنا چاہيئے ليکن ۔ ۔ ۔

عورتيں اپنے بيٹے يا بھائی يا خاوند کے متعلق کيا کہتی ہيں ؟ اگر بيٹے بھائی خاوند سب ٹھيک ہيں تو پھر بُرا کون ہے ؟
اگر بيٹا بُرا ہے تو اُس کی ماں عورت نے بيٹے کی تربيت درست کيوں نہ کی ؟
اگر خاوند بُرا ہے تو کيا اُس بيوی عورت نے اُسے درست کرنے کی کوشش کی يا بصورتِ ديگر احتجاج کے طور پر اُس سے کم از کم گھر کے اندر ہی عليحدگی اختيار کی ہے ؟

سُنا ہے کہ بازاروں ميں باغيچوں ميں سير و سياحت کی جگہوں ميں مخلوط محفلوں ميں کچھ عورتيں ننگے سر پھرتی ہيں ۔ کچھ کپڑے اتنے چُست پہنے ہوتی ہيں کہ جسم کے تمام خد وخال عياں ہوتے ہيں ۔ کچھ کی قميضوں کے گريبان اتنے بڑے ہوتے ہيں کہ پُشت پر شانے اور سامنے آدھی چھاتی نظر آتی ہے کچھ نے ساڑھی زيبِ تن کی ہوتی ہے اور ان کی کمر اور پيٹ ننگے ہوتے ہيں اور کچھ ايسی بھی ہوتی ہيں جنہوں نے نہائت مہين کپڑے کی قميض بغير بنيان یا شميض پہنی ہوتی ہے

کيا عورت يہ ديکھنے کيلئے ايسا کرتی ہے کہ مرد خراب ہيں يا نہيں ؟

کہتے ہيں کہ ايک شخص جو کئی جرائم ميں ملوث تھا پکڑا گيا اور اسے پھانسی کی سزا ہوئی ۔ حسبِ معمول پھانسی چڑھانے سے پہلے اُس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو کہنے لگا “ميں نے اپنی ماں کے کان ميں کچھ کہنا ہے” ۔ جب ماں سُننے کيلئے آئی تو اُس نے ماں کے کان کو دانتوں سے کاٹ ليا ۔ بڑی مشکل سے چھڑايا گيا تو کہنے لگا “ميری ماں لوگوں کی شکايات اس کان سے سُنتی تھی اگر يہ ميری درست تربيت کرتی تو ميں آج پھانسی نہ چڑھتا”

سُنا ہے کہ کچھ عورتيں ماڈلنگ کرتی ہيں جس ميں جن کپڑوں کا وہ اشتہار ہوتی ہيں اُن کی نسبت اُن کے جسم کے خدو خال اور حرکات کی نمائش زيادہ ہوتی ہے
سُنا ہے کہ کچھ عورتيں مخلوط محفلوں ميں ناچتی ہيں اور اپنے اعضاء کی خوبصورتی بھی نماياں کرتی ہيں

کيا متذکرہ بالا سب عورتيں صحتمند معاشرہ کی نشانی ہيں ؟

سورت 7 الْأَعْرَاف آیت 26
اے اولادِ آدم ۔ ہم نے تم پر لباس اتارا ہے کہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لئے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو اور بہترین لباس تقوٰی کا لباس ہے۔ یہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔ شائد کہ لوگ اس سے سبق لیں

سورت 24 النور آيت 30
مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں ۔ یہ ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں اللہ ان سے خبردار ہے

سورت 24 النّور آیت 31
اور اے نبی ۔ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود ظاہر ہو جائے اور وہ اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل کھينچ لیں ۔ وہ اپنے بناؤ سنگھار کو ظاہر نہ کریں سوائے شوہر یا باپ یا شوہروں کے باپ اپنے بیٹے یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائی یا بھتیجے یا بھانجے کے یا اپنی میل جول کی عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو [کم سِنی کے باعث ابھی] عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے ۔ اور نہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی چلا کریں کہ ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ [حکمِ شریعت سے] پوشیدہ کئے ہوئے ہیں ۔ اے مومنو ۔ تم سب کے سب اللہ سے توبہ کرو ۔ توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے

سورت 33 الْأَحْزَاب آیت 59
اے نبی ۔ اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی چادریں اپنے اوپر لٹکا لیا کریں ۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں ۔ اور اللہ غفور و رحیم ہے

چلتے چلتے

کچھ کرنے کو جی نہيں چاہ رہا تھا تو ميں نے يونہی ادھر ادھر ديکھنا شروع کيا ۔ اتفاق سے پہلی ہی چيز جو کھولی يہ ہے ۔ ميں جانتا ہوں کہ چند قاری اسے بکواس کہيں گے مگر جہاں ہم روزانہ بہت سی بکواس سُنتے اور پڑھتے ہيں وہاں يہ بھی سہی کہ بعض اوقات بکواس بھی ہميں منزل کی تلاش ميں سرگرداں کرتی ہے
Urdupoint
Urdupoint 2
Urdupoint 3
Urdupoint 4