ایک کچھوا دریا میں تیر رہا تھا کہ اسے “بچاؤ بچاؤ” کی آواز آئی ۔ اُس نے دیکھا کہ ایک بچھو ڈُبکیاں کھاتا بہتا جا رہا ہے ۔ کچھوے نے بڑھ کر اُسے اپنی پیٹھ پر اُٹھا لیا اور دریا کے کنارے کی طرف تیرنے لگا ۔ لمحے بعد کچھوے کو ٹُک ٹُک کی آواز آئی تو پوچھا “یہ میری کمر پر کیا مار رہے ہو ؟” بچھو نے کہا “ڈنک مارنا میری عادت ہے”۔ کچھوے نے کہہ کر”اور میری عادت ڈُبکی لگانا ہے” ڈُبکی لگائی اور بچھو ڈوب گیا
شیخ سعدی
میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پانچ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے
محترم اجمل صاحب
اسلام علیکم
جانور مجبور محض ہوتے ہیں وہ اپنی قدرتی پروگرامنگ کی وجہ سے مجبور ہوتے ہیں مگر انسان کو تو اللہ پاک نے عقل و شعور عطا کیا ہے ۔
اگر آپ اپنے انگلش بلاگ کے مضامین اردو میں ٹرانسلیٹ کر کے اردو بلاگ پر شاع کریں تو بہت سے کا بھلا ہو گا اور کچھ علم میں اضافہ بھی ۔
محترم اجمل صاحب
آپ شاید لاہور میں ہیں اور آپ کا گھر بھی آر اے بازار کے نزدیک ہے ۔ میں آپ کی خیریت کا خداوند کریم سے طلبگار ہوں ۔
محمد رياض شاہد صاحب
السلام عليکم و رحمت اللہ
آپ کی تشويش کيلئے ممنون ہوں ۔ ميں مع اہلِ خانہ اور لاہور ميں سب عزيز و اقارب خيريت سے ہيں مگر اتنے ہموطنوں کی ہلاکت کا غم ايک فطری عمل ہے
آپ نے درست اندازہ لگايا ۔ جائے وقوعہ ميری رہائش گاہ سے سڑک کے راستہ 2 کلو ميٹر کے فاصلہ پر ہے اور سيدھی لکير ايک کلو ميٹر سے بھی کم ہے اور معمول کی راہگذر ہے ۔ ايک بار پھر شکريہ ۔ جزاک اللہ خير