پچھلے دنوں کچھ تحارير فلسفہ کے متعلق پڑھنے کو مليں جن ميں مسلمانوں ميں فلسفہ کا آغاز کندی سے شروع کر کے درميانی کچھ سيڑھياں چھوڑ کر اس کی مسلمانی ابنِ رشد پر ختم قرار دی گئی ۔ استدلال ليا گيا کہ فلسفہ کا عقيدہ مذہب سے متعلق نہيں ہے ۔ سوچا کہ لکھوں فلسفہ ہوتا کيا ہے تاکہ طويل تحارير اور الفاظ کے سحر ميں کھوئے ہوئے قارئين کم از کم فلسفہ کی اصليت تو سمجھ سکيں ليکن مصروفيت کچھ زيادہ رہی جس میں اسلام آباد بھی جانا پڑا اور خُشک موسم کی سوغات وائرس کيلئے بھی ميں مرغوب ثابت ہوا جس سے معالج اور دوائيوں کی دکان کی قسمت جاگ اُٹھی ۔ حاصل يوں ہے کہ اللہ نے اس کام کا سہرا محمد رياض شاہد صاحب کیلئے مختص کر ديا تھا کہ اُنہوں نے خوش اسلوبی سے لکھا “فلسفہ کيا ہے”
میں پانچويں یا چھٹی جماعت ميں پڑھتا تھا کہ کتاب میں لفظ فلسفی آيا ۔ استاذ صاحب نے ماحول خوشگوار کرنے کی خاطر ايک لطيفہ سنايا “ايک فلسفی گھر ميں داخل ہوا تو اپنی چھتری کو بستر پر لٹا کر خود کونے ميں کھڑا ہو گيا”۔ پھر ميں نے ساتويں يا آٹھويں جماعت ميں کسی سے سُنا کہ فلسفی اگر پورا نہيں تو آدھا پاگل ہوتا ہے
اساتذہ کی تربيت کا اثر تھا کہ اللہ کی خاص مہربانی يا دونوں کہ ميں بچپن سے ہی ہر چيز و عمل کی بنياد پر غور و فکر کرنے کا عادی ہو گيا تھا ۔ سالہا سال محنت اور غور و فکر ميں گذرنے کے بعد مجھے متذکرہ بالا دونوں بيانات درست محسوس ہونے لگے ۔ ميرے طرزِ فکر و عمل کی وجہ سے متعدد بار ميرے گرد کے لوگوں نے مجھے پاگل کہا ۔ کبھی کبھی تو ميں خود بھی اپنے آپ کو پاگل کہہ ديتا
عصرِ حاضر ميں لوگ گريجوئيشن کے بعد چند سال کی محنت سے کسی چھوٹے سے مضمون کی بنياد پر ڈاکٹر آف فلاسفی کی سند حاصل کر ليتے ہيں ۔ ايک دور تھا جب کاغذ کی سند ناياب تھی اور لوگ ساری عمر عِلم کی کھوج اور غور و فکر ميں گذار ديتے تھے مگر اُنہيں ايسی سند نہ دی گئی صرف اُن ميں سے چند کا نام تاريخ ميں نظر آ جاتا ہے اگر کوئی تاريخ پڑھنے کی زحمت کرے ۔ يہ وہ زمانہ ہے جب عِلم کی بنياد ہی فلسفہ تھی اور ہر عالِم جنہيں دورِ حاضر ميں سکالر کہا جاتا ہے کا مطالعہ ہمہ جہتی ہوتا تھا کيونکہ وہ کتاب کے کيڑے نہيں بلکہ فلسفی ہوتے تھے اور ہر عالِم يا فلسفی بيک وقت کئی علوم کی بنياد کا مطالعہ کر رہا ہوتا تھا
ميرا خيال ہے کہ فلسفی بننے کيلئے کسی سکول يا مدرسہ ميں جانا ضروری نہيں ہے ۔ فلسفہ کا تعلق انسان کی سوچ ۔ محنت اور طرزِ عمل سے ہے ۔ ميں ساتھی طلباء کے ساتھ 1960ء ميں کراچی اليکٹرک سپلائی کمپنی کے مطالعاتی دورے پر گيا ۔ دورہ کے بعد ہميں جنرل منيجر صاحب نے بتايا کہ ايک شخص جو کہ چِٹا اَن پڑھ ہے وہ سب سے زيادہ اور اُن سے بھی زيادہ تنخواہ پاتا ہے کيونکہ وہ بھرتی تو بطور مستری ہوا تھا مگر فکر و عمل کے باعث فلسفی اور انجنيئر ہے ۔ وہاں موجود انجنوں اور اُن کے کام کا مطالعہ کر کے وہ ان کی بنياد پر پہنچنے ميں کامياب ہوا اور اس فلسفہ اور حاصل مطالعہ سے کام لے کر اس نے دو انجن کارآمد بنا ديئے ہيں اور تيسرے پر کام کر رہا ہے
ميری نظر ميں وہ شخص بھی فلسفی ہے جس نے چار پانچ دہائياں قبل چاول کے ايک دانے پر ہاتھ سے پورا کلمہ طيّبہ لکھنے کا طريقہ دريافت کيا ۔ ميری نظر ميں پاکستان کا حسب نسب رکھنے والا وہ جوان بھی فلسفی ہے جس نے 1970ء کی دہائی ميں دوسری جنگِ عظيم ميں کالی ہو جانے والی لندن کی عمارات کو صاف کرنے کا ايک قابلِ عمل نسخہ تيار کيا تھا جبکہ برطانيہ کے بڑے بڑے سائنسدان اس میں ناکام ہو چکے تھے
دورِ حاضر ميں صيہونی پروپيگنڈہ اتنا ہمہ گير ہو چکا ہے کہ جو خبر اس منبع سے نکلتی ہے اسے من و عن قبول کيا جاتا ہے اور موجود تاریخ کا مطالعہ کرنا بھی گوارہ نہيں کيا جاتا ۔ محمد رياض شاہد صاحب نے اپنی متذکرہ بالا تحرير ميں ايک نہائت مُختصر مگر جامع تحرير لکھ کر حقائق کے ساتھ ايسی سوچ کا توڑ پيش کيا ہے
بلاشُبہ مسلمان کے دشمنوں نے تاتاريوں کے رُوپ میں بغداد کی بہترين عِلمی لائبريری فنا کر کے سوائے ناصر الدين طوسی کے جو اپنی جان بچانے کی خاطر اُن سے مل گيا تھا تمام اہلِ عِلم کو تہہ تيغ کر ديا ۔ فرنينڈس اور اُس کے حواريوں کی صورت ميں يہی کچھ غرناطہ ۔ اشبيليہ اور قرطبہ ميں ہوا ۔ 1857ء ميں ہندوستان ميں انگريزوں نے تمام علمی خزانہ تباہ کرنے کے بعد اہلِ عِلم و ہُنر کو تہہ تيغ کر ديا ۔ اور حال ہی ميں امريکہ اور اُس کے اتحاديوں نے بغداد کی نہ صرف قومی لائبريری بلکہ ہر يونيورسٹی کو تباہ کر ديا اور اہلِ عِلم کو نابود کر ديا
اس کے باوجود دورِ حاضر ميں تھوڑی سی موجود تاریخ کا ہی مطالعہ کيا جائے تو يہ حقيقت عياں ہو جاتی ہے کہ اعلٰی سطح کا پہلا مسلمان فلسفی يعقوب ابن اسحاق الکندی [800ء تا 873ء] نہيں تھے بلکہ ابو موسٰی جابر ابن حيّان تھے جو وسط آٹھويں صدی عيسوی ميں پيدا ہوئے اور 803ء ميں وفات پائی ۔ ان کا فلسفہ جديد علمِ کيمياء کی بنياد بنا ۔ دوسرے نامور فلسفی ابو عبداللہ محمد ابن موسٰی الخوازمی [780ء تا 850ء] ہيں جنہوں نے لوگرتھم اور ايلوگرتھم ۔ الجبراء اور عربی کے ہندسوں کا استعمال کرتے ہوئے اعشاریہ نظام کے نئے علم دريافت کئے ۔ مزيد يہ کہ صفر کو قيمت عطا کی ۔ يہی وہ فلسفہ اور عِلم ہے جو عصرِ حاضر کی کمپيوٹر اور ڈيجيٹل ٹيکنالوجی کی بنياد بنا ۔ اگر يہ علوم نہ ہوتے تو آج نہ کمپيوٹر ہوتا اور نہ ڈيجيٹل ٹيکنالوجی
يعقوب ابن اسحاق الکندی کا نام تيسرے نمبر پر آتا ہے
مزيد يہ کہ عبدالوحيد محمد ابن احمد ابن محمد ابن رشد [1126ء تا 1198ء] کے بعد دو صديوں ميں کم از کم 5 اعلٰی پائے کے مسلمان فلسفی ہوئے ہيں جن ميں سے آخری عبدالرحمٰن ابن محمد [1332ء تا 1395ء] تھے جو ابن خلدون کے نام سے مشہور ہوئے ۔ ان کا فلسفہ تاریخ اور عمرانيات سے متعلق ہے
“ميری نظر ميں وہ شخص بھی فلسفی ہے جس نے چار پانچ دہائياں قبل چاول کے ايک دانے پر ہاتھ سے پورا کلمہ طيّبہ لکھنے کا طريقہ دريافت کيا ۔ ميری نظر ميں پاکستان کا حسب نسب رکھنے والا وہ جوان بھی فلسفی ہے جس نے 1970ء کی دہائی ميں دوسری جنگِ عظيم ميں کالی ہو جانے والی لندن کی عمارات کو صاف کرنے کا ايک قابلِ عمل نسخہ تيار کيا تھا جبکہ برطانيہ کے بڑے بڑے سائنسدان اس میں ناکام ہو چکے تھے ”
ان افراد کے بارے میں بھی کچھ بتائیے !
اجمل صاحب
اسلام علیکم
میں بہت مشکور ہوں کہ آپ نے اس ناچیز کی تحریر کو قابل حوالہ سمجھا ۔ خدا جزائے خیر عطا کرے
اقتباس:
عصرِ حاضر ميں لوگ گريجوئيشن کے بعد چند سال کی محنت سے کسی چھوٹے سے مضمون کی بنياد پر ڈاکٹر آف فلاسفی کی سند حاصل کر ليتے ہيں
اگر آپ نے ازراہ مذاق لکھا ہے تو بڑا عمدہ مزاح تخلیق کیا ہے لیکن اگر واقعی سنجیدگی سے لکھا ہے تو دکھ کی بات ہے کہ پڑھے لکھے لوگ اس طرح کی باتیں عام کررہے ہیں۔ ہر چیز ارتقا پذیر ہوتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ہر چیز کے میعارات قائم ہوئے ہیں تعلیم ان میں سے ایک ہے۔ گیارہویں صدی کے میعارات پر اکیسویں صدی کے چیلینجز کا سامنا نہیں کیا جاسکتا اور ہماری اس کوشش کے نتائج سامنے ہیں۔ “چھوٹے سے مضمون کی پی ایچ ڈی” کی بات کی ہے تو صرف ایک ملک اسرائیل نے اس میدان میں ہماری سٹی گم کر رکھی ہے اور آپ لوگوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ پی ایچ ڈی محض ایک مضمون لکھنے سے حاصل ہوجاتی ہے۔ امید نظر ثانی کریں گے۔۔ کم از کم تعلیم کے معاملے میں لوگوں کو گمراہ نا کریں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری اور حقیقی ڈگری میں بڑا فرق ہے۔ کب تک آپ لوگوں کو چند غیر معمولی پڑھے لکھے لوگوں کی کہانیاں سنا کر تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش جاری رکھیں گے؟
راشد کامران صاحب
کاش آپ لفظ پکڑنے کی بجائے نفسِ مضمون پر غور کرتے ۔ میں نے کسی کی تحقير نہيں کی ہے صرف يہ واضح کرنے کی کوشس کی ہے کہ آج ہم تھوڑا سا علم حاصل کر کے پھولے نہيں سماتے تو کم از کم ہميں اُن لوگوں کو ياد رکھنا چاہيئے جن کی عمروں کی محنت کے نتيجہ ميں وہ بنيادیں قائم ہوئيں جن پر ہم بلند عمارتيں تعمير کرنے کے قابل ہوئے ۔ اور ہميں انہيں بھی نہيں بھولنا چاہيئے جنہوں نے قابلِ قدر محنت کی مگر ان کا نام کسی مدرسہ يا جامعہ کے انعام يافتہ ميں نہيں ہے جنہيں انگريزی ميں کہتے ہيں
Unsung heroes
ميں نے تعليم کے خلاف نہ کبھی کچھ لکھا ہے اور نہ کہا ہے کيونکہ علم ہی وہ روشنی ہے جس کے سہارے ميں ہميشہ سے راہ پاتا آيا ہوں ۔ جو کچھ چودہویں صدی تک ہوا اُسے نظرانداز کرنا بغیر بنياد کے عمارت تعمير کرنے والی بات ہے
ميں نے کہاں لکھا ہے کہ پی ایچ ڈی محض ایک مضمون لکھنے سے حاصل ہوجاتی ہے ؟
اور يہ اعزازی ڈگری کہاں سے آ ٹپکی ؟ آپ مجھے يہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہيں کہ آپ علم کے گہوارے ميں بيٹھے ہيں اور ميں ٹوبہ ٹيک سنگھ کے کنويں ميں ہوں جہاں سے کبھی باہر نہيں نکلا
آپ کا مندرجہ ذيل استدلال آپ کی تنگ سوچ پر دلالت کرتا ہے
کب تک آپ لوگوں کو چند غیر معمولی پڑھے لکھے لوگوں کی کہانیاں سنا کر تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش جاری رکھیں گے؟
سعود صاحب
ميں ان حضرات سے ملا اور بات چيت بھی کی اُن سے کچھ سيکھنے کيلئے مگر اب تو مجھے اُن کے نام بھی ياد نہيں رہے
ایک صاحب فرماتے ہیں
“کم از کم تعلیم کے معاملے میں لوگوں کو گمراہ نا کریں”
یعنی باقی معاملات میں کرتے رہیں جیسے سب کر رہے ہیں
اور اب ایک بات کہ۔۔۔
آپ واقعہ بغداد میں اپنے لوگوں کی پردہ پوشی کرکے خود بھی فلسفی بن گئے ہیں کیا سمجھے؟
اور تیسری بات کہ
آپ نے اس خاتون کا دل دکھایا ہے جو 3 بچوں کی ماں ہوکر بھی فلسفی بنی اور پی ایچ ڈی کی مگر وہی فلسفہ پن اسکے گلے میں گوبھی کے پھولوں کے ہار بن گیا
احمد صاحب
ہر بات ميں طنز ؟ کون ہيں يہ اپنے لوگ اور پرائے لوگ ؟ ميرے لئے تو سب اپنے ہی ہيں ۔ آپ کو بھی ميں اپنا ہی سمجھتا ہوں مگر آپ ہاتھوں سے پھسل پھسل گرتے ہيں ۔ اگر تين بچوں کی ماں عافيہ صديقی کی بات کر رہے ہيں تو يہ فقرہ ايک مسلمان کے منہ کو زيب نہيں ديتا
لاحول ولا
عافیہ صدیقی کے بارے میں تو قدیانی اور رافضیوں کے کسی نے ایسی بات نہیں سوچی اتنا بے حس اور ظالم اور ہوگا بھی کون
یہ تو ایک اور صاحبہ کیلئے کہا تھا جو عورت ہوکر عافیہ کی سب سے بڑی دشمن بنی ہوئی تھی
آپ نے بغداد کے قصہ میں کسی کی پردہ پوشی کی۔ اسکی طرف اشارہ تھا
اور جہاں دلیل سے ہوئی نہ سمجھمے وہاں ہلکہ سا طنز کرنے سے لوگوں کو ٹھیس اٹھتی ہے جو انکی آئندہ کی غلط بیانی کو مشکل بنا دیتی ہے بس اتنی سی بات تھی
آپ ناراض نہ ہوں جیسے بھی ہیں اپنی برادری (بلاگرز ( سے بھلے بہتر ہیں
“مگر آپ ہاتھوں سے پھسل پھسل گرتے ہيں”
ہاہاہاہا خوب
مگر یہ سب تو کمال آپ کے ہاتھوں میں لگے ایرانی مکھن کا ہے
حضور کیا سمجھے ؟
احمد صاحب
ميں نہ کبھی ايران گيا ہوں نہ ايرانی مکھن ديکھا ہے ۔ ميں خالص پاکستانی مکھن کھاتا ہوں ۔ ہاتھوں کو پہلے جرمنی کی بنی نيويا کريم لگاتا تھا اور اب جرگنز لگاتا ہوں ۔ اب آپ کہيں کہ يہودی کا مال لگاتا ہوں