تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ رسول اکرم سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کے وصال [12 ربيع الاول 632ء] کے بعد کم از کم 500 سال تک ميلادُالنبی بطور محفلِ ميلاد یا جلوس نہيں منايا گيا ۔ مُختلف تحارير سے اکٹھی کی گئی چيدہ چيدہ معلومات مندرجہ ذيل ہيں
تاريخ ابن خلکان ج 3 ص 274 ۔ ميلادُالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی عيد منانے کا آغاز 604ھ ميں ملک المعظم مظفرالدين کوکبوری نے کيا جو 586ھ ميں شہر اربل کا گورنر مقرر ہوا تھا ۔ شاہ اربل مجلس مولود کو ہر سال شان و شوکت سے مناتا تھا ۔ جب اربل شہر کے ارد گرد والوں کو خبر ہوئی کہ اس نے ايک مجلس قائم کی ہے جس کو وہ بڑی عقيدت اور شان و شوکت سے انجام ديتا ہے تو بغداد ۔ موصل ۔ جزيرہ سجادند اور ديگر بلادِ عجم سے گويّے ۔ شاعر اور واعظ بادشاہ کو خوش کرنے کيلئے ناچ گانے کے آلات لے کر ماہ محرم ہی سے شہر اربل ميں آنا شروع ہو جاتے ۔ قلعہ کے نزديک ہی ايک ناچ گھر تعمير کيا گيا تھا جس ميں کثرت سے قبے اور خيمے تھے ۔ شاہ اربل بھی ان خيموں ميں آتا گانا سُنتا اور کبھی کبھی مست ہو کر ان گويّوں کے ساتھ رقص بھی کرتا
حسن المقصد فی عمل المولد ۔ تحرير امام سيوطی ۔ جب محفلِ ميلاد کا چرچا ہوا تو کمزور ايمان والے خوشامدی اکٹھے ہو گئے ۔ عُلمائے سُو کا گروہ ہر دور ميں موجود رہا ۔ اس وقت بھی ايک مشہور عالمِ دين ابن وحيہ تھا ۔ وہ خراسان جا رہا تھا کہ اربل شہر سے گذرا ۔ اسے پتہ چلا کہ يہاں کے بادشاہ نے ايک مجلس ميلاد ايجاد کی ہے جس سے اسے انتہائی رغبت ہے ۔ ابن وحيہ نے مال و دولت کے لالچ ميں ميلاد کی تائيد کيلئے ايک رسالہ “التنوير فی مولد السراج المنير” لکھا پھر بادشاہ تک رسائی حاصل کی اور دربار ميں پڑھ کر سنايا ۔ شاہ اربل نے خوش ہو کر ايک ہزار اشرفی بطور انعام دی
عصرِ حاضر کے ميلادُالنبی منانے والے زعماء کيا کہتے ہیں
ماہنامہ ضيائے حرم دسمبر 1989ء زيرِ سر پرستی محمد کرم شاہ الازہری ۔ يہ درست ہے کہ جس بڑے پيمانے پر آجکل ميلادُالنبی منائی جاتی ہے اس طرح صحابہ کرام يا تابعين يا تبع تابعين کے زمانہ ميں نہيں منائی گئی بلکہ کئی صديوں تک اس کا نشان نہيں ملتا ۔ تاريخی نقطہ نگاہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے يہ ماننا پڑتا ہے کہ مجالسِ ميلاد يا مجالسِ ذکر و شغل کی طرف مسلمانوں کی زيادہ تر توجہ اس وقت ہوئی جب ضروريات اسلام سے فراغت پا کر مسلمان اپنی حکومت اور اسلامی ترقيات سے بہرہ ور ہو کر آرام سے زندگی بسر کرنے لگے اور غير اقوام کے ميل جول نے ان کو اس عمل کی طرف مجبور کيا کہ جس طرح وہ لوگ اپنے اسلاف کی يادگاريں قائم کرتے ہيں اسی طرح ان کے دوش بدوش مسلمان بھی اسلامی شان و شوکت کا اظہار کريں
مقدمہ سيرت رسول عربی از عبدالحکيم اشرف قادری جامعہ نظاميہ رضويہ لاہور ۔ بارہ ربيع الاول کو عام طور پر بارہ وفات کہا جاتا تھا ۔ يہ حضرت علامہ توکلی کی کوششوں کا نتيجہ ہے کہ گورنمنٹ کے گزٹ ميں اسے عيد ميلادُالنبی صلی اللہ عليہ و سلم کے نام سے منظور کروايا
منہاج القرآن ستمبر 1991ء ص 19 ۔ شہنشاہانِ دنيا ميں سب سے پہلے اربل کے بادشاہ نے ميلاد شريف منانے کا اہتمام کيا اور وہ بزرگ اور سخی حکمرانوں ميں سے تھا ۔ شيخ ابن وحيہ نے ميلادُالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے موضوع پر ايک رسالہ التنوير فی مولد البشير النذير لکھ کر بادشاہ کو پيش کيا تو اس نے اسے ايک ہزار دينار انعام ديا ۔ ايک شخص ايک دفعہ شاہ اربل کے پاس ميلاد کے دسترخوان پر حاضر ہوا تو اس نے بيان کيا کہ اس دسترخوان پر 5 ہزار بھُنے ہوئے بکرے 10 ہزار روسٹ مُرغياں ايک لاکھ نان ايک لاکھ کھانے سے بھرے ہوئے مٹی کے پيالے اور 30 ہزار مٹھائی کی طشتریاں تھيں اور بادشاہ ہر سال محفلِ ميلاد پر 30 لاکھ دينار خرچ کرتا تھا
[خليفہ دوم اميرالمؤمنين عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے نامور سپہ سالار اور صحابی خالد بن وليد رضی اللہ عنہ کو اسلئے معزول کر ديا تھا کہ اُنہوں نے جہاد سے واپسی پر دس بارہ ہزار دينار بخشيش کئے تھے]
روزنامہ کوہستان لاہور عيد ميلاد ايڈيشن 22 جولائی 1964ء۔ لاہور میں ميلادُنبی صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کا جلوس سب سے پہلے 5 جولائی 1933ء بمطابق 12 ربيع الاول 1352ھ کو نکلا اور 1940ء تک باقاعدگی سے نکلتا رہا
روزنامہ کوہستان 1964ء حکيم محمد ايوب حسن کا مضمون راولپنڈی ميں ميلادُ النبی ۔ راولپنڈی ميں يہ سلسلہ ايک مدت سے جاری ہے ۔ اس کی ابتداء اس زمانہ ميں ہوئی جب پٹی ضلع لاہور سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ايمان کے ايڈيٹر مولانا عبدالمجيد قريشی نے ايک تحريک شروع کی کہ سارے ملک ميں سيرت النبی صلی اللہ عليہ و سلم کميٹياں قائم کی جائيں
[ميرا ذاتی مشاہدہ ۔ مجھے اچھی طرح ياد ہے کہ کم از کم 1950ء تک بارہ ربيع الاول کو رسول اکرم صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کے کو وصال مبارک کی تاريخ 12 ربيع الاول کے حوالے سے بارہ وفات کے نام سے ياد کيا جاتا تھا]
ان سب حقائق کے باوجود آج مسلمانوں کو اس بات پر قائل کرنا نا ممکن ھے کہ اس دن کو باعث ثواب سمجھتے ہوئے یوں منانا غلط عمل ھے۔
شکریہ جناب معلوماتی تحریر کیلیے۔
احمد عرفان شفقت صاحب
خوش آمديد
حوصلہ افزائی کا شکريہ
سعد صاحب
حوصلہ افزائی کا شکريہ
اچھی بات ہے لیکن جو اس بات کو پہلے سے مانتا ہے وہ مان لے گا اور جو خوش عقیدہ لوگ ہیں اُن کے پاس ہزار تاویلیں موجود ہیں ہاں آپ کا ایمان خطرے میں پڑ سکتا ہے ایسی تحریریں لکھ کر ۔
محمد احمد صاحب
ميرا ايمان خطرہ ميں پڑ سکتا ہے يا ميری جان ؟
معلوماتی تحریر لکھنے کا شکریہ۔ گو کہ یہ موضوع ہمیشہ سے حساس رہا ہے۔ لیکن بات چیت اور گفت و شنید ہی سے تمام غلط فہمیوں کا مداوا ممکن ہے۔ اب بھی اگر لوگ نہیں سمجھتے تو پھر ان کا واقعی اللہ ہی حافظ ہے۔
ارے میاں باؤلے ہوگئے ہو کا.. بھینس کے آگے بین بجاوت ہو..!!
محمد اسد صاحب
حوصلہ افزائی کا شکريہ
مکی صاحب
باؤلا تو ميں ہوں ۔ ۔ ۔ مگر بھينس کہاں ہے ؟
اب تکائے رہت ہو..
معلوماتی تحریر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنحضورکے وصال کی جو تاریخ مشہور ھوچلی ہے کبھی اس کا بھی تجزیہ فرمایں،کردیا ہو تو لنک فراہم کردیجئے
محترم اجملصاحب۔
گو یہ بہت حساس اور نازک موضوع ہے مگر ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ لازمی ہے کہ ہم وہی طریقہ اختیار کریں جس کا حکم اسلام نے دیا ہے۔
میریذاتی رائے میں ميلادُالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے مولود ہونے کی خوشی ہر مسلمان پہ فرض ہے۔ اگر خود خدا نے قرآنِ کریم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم پہ درو بیجھا ہے اور مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم پہ درود بیجھنے کا کہا ہے تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم سے ہماری محبت کا تقاضہ ہے کہ ہم انکی ولادت کی خوشی ضرور منائیں۔ اور اس خوشی منانے کے بہت سے اسلامی طریقے ہو سکتے ہیں جس میں سادگی کو ہر صورت مدِ نظر رکھا جانا چاہئیے کہ اصراف اور بے جا نمود نمائش سے گریزخود اسلام اور اسوۃ حسنہ سے ثابت ہے۔
اسلام نے زندگی کے ہر موقع کے لئیے میانہ روی کی تلقین و تاکید کی ہے۔ جبکہ ایک ایسے ملک میں اسی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے ماننے والے غریبی کی وجہ سے بھوکے سوتے ہوں، علاج اور ادویات کے لئیے رقم نہ ہونے کی وجہ سے گُھٹ گُھت کر جان دے رہے ہوں ۔ الغرض محض غریبی اور ناداری کی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے ماننے والوں کی اکثریت قسم قسم کے مسائل سے دوچار ہو وہاں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے موقع پہ ایسے لوگوں کی عم ڈگر سے بڑھ کر مدد کر کے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے میلاد کی خوشی منانے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔ اس دن سب مسلمان یہ عہد کریں کہ وہ ملک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی امت کے سب دُکھ درد نا صرف چننے کا مداوا کریں گے بلکہ جو اس قابل نہیں کہ خود اپنا بوجھ اٹھا سکیں انھیں اس قابل بنائیں گے کے وہ نبی ریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے باعزت امتی بن سکیں۔ الغرض دین کے دائرے میں رہتے ہوئے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم منانے کے بہت سے طریقے ہیں۔
جس طرح کسی ایسی سنت کو جسے لوگ ترک کر چکے ہوں، بھلا چکے ہوں کو دوباری سے جاری کرنے والے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے بشارت دی ہے ۔ اسی طرح اسلام میں غیر اسلامی رسومات جاری کرنا، عام لوگوں کی فنڈنگ سے انکا پیسہ غیر ضروری رسومات یا جلوسوں وغیرہ پہ خرچ کر دینا جبکہ مستحقین کے مداوے یا مستقل مداوے کا کوئی بندوبست نہ ہو، محض تصنع اور بناوٹ یا ذاتی اور تجارتی مفادات کے لئیے نت نئے ڈھونگ رچانا اسلام میں سختی سے نہ صرف منع ہے بلکہ اسے سخت ناپسند کیا گیا اور بعض صورتوں میں اس پہ سزا بھی ہے۔
جس رسم سے دین اسلام میں نیا مسئلہ کھڑا ہونے کا اندیشہ ہو۔ جس کا اسلام میں کوئی تصور پہلے سے نہ موجود ہو اس بارے میں مسلمانوں کو خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اس واقعے سے سبق سیکھنا چاہئیے جس میں انہوں نے اس درخت کوکٹوا دیا تھا جس کے نیچے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی حیات میں بیعت رضوان کا واقعہ ہوا ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے وصال کے بعد کچھ اصحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم اس درخت کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی یاد میں کھڑے دیکھ کر سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ درخت محض اس اندیشے کے تحت کٹوا دیا تھا کہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم سے محبت اور عقیدت کی وجہ سے اس درخت سے عقیدت نہ پیدا کر لیں کہ جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوتا۔جبکہ شنیدن ہے کہ اس موقع پہ کراچی وغیرہ میں لوگ کعبہ اور روضۃ الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے حقیقی کی مانند ماڈل اور بڑی بڑی تصاویر بناتے ہیں ۔ یہ عمل درست نہیں۔ اسلامی تعلیمات کے بر عکس ہے۔ عید میللا النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے موقع کو سادگی اور وقار کے ساتھ عین اسلامی طریقوں سے بھی منایا جاسکتا ہے اور اس پہ اٹھنے والی خطیر رقم سے غریب بچوں کے لئیے اسکول کالج اور یونورسٹیز کے اخراجات اور ایسے ادارے قائم کرنے میں لاگئی جائے جس سے قوم کی نئی نسلیں سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کر کے ملت اسلامی کے اس اہم ملک پاکستان کو دنیا کے صف اول کے ممالک میں شامل کر سکیں۔اسطرح جدید تحقیق اور ٹیکنالوجی کے حصول میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ہر جگہ پریشان، امت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے مسائل کم ہو سکیں۔ یہ بھی ایک طریقہ ہے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔
نوٹ:۔ یہ میری ذاتی رائے ہے اور اس سے کسی پہ تنقید کرنا اور دل آزاری کرنا مقصود نہیں۔
محمد سعيد پالن پوری صاحب
جہاں تک ميرا خيال ہے وصال سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کی تاريخ پر اختلاف نہيں ہے ۔ البتہ ولادت کی تاریج پر کئی رائے ہيں ۔ ميں اِن شاء اللہ جلد جمع کی ہوئی معلومات پيش کروں گا
محترم افتخار صاحب
یہ بات یقینی ہے کہ آپ نے حجۃ الوداع میں وقوف عرفہ جمعہ کے دن کیا ہے اور وصال کے تعلق سے ربیع الاول کا مہینہ اور پیر کا دن بھی متعین ہے مگر حسابی اعتبار سے بارہ ربیع الاول کو وصال کی تاریخ ماننا سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ نو ذی الحجہ کو جمعہ کا دن مان لینے کی صورت میں اس کے بعد کے تمام مہینے خواہ انتیس کے مان لیجئے یا تیس کے،یا بعض انتیس کے بعض تیس کے، کسی صورت میں بھی پیر بارہ ربیع الاول کو نہیں پڑتا
جاوید بھائی! السلام علیکم
اصل جواب تو اجمل صاحب دیں گے چونکہ آپ صاحب علم آدمی ہیں،بات کوذاتیات پرنہ اترکردلائل سے ثابت یا رد کرتے ہیں اس لئے میں نے سوچا آپ سے کچھ گفتگو کرلی جائے
اقتباس: ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ لازمی ہے کہ ہم وہی طریقہ اختیار کریں جس کا حکم اسلام نے دیا ہے۔
یہ متفق علیہ بات ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میریذاتی رائے میں ميلادُالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے مولود ہونے کی خوشی ہر مسلمان پہ فرض ہے۔ اگر خود خدا نے قرآنِ کریم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم پہ درو بیجھا ہے اور مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم پہ درود بیجھنے کا کہا ہے تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم سے ہماری محبت کا تقاضہ ہے کہ ہم انکی ولادت کی خوشی ضرور منائیں۔
جاوید بھائی استدلال کا تقاضہ تو درود کے وجوب کا ہے نہ کہ خوشی کا۔ اور اگر خوشی کو مان بھی لیا جائےتو اسی مہینہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی وفات بھی ہے اور کسی سے آپکو محبت ہو اور آپ درد مند دل رکھتے ہوںتوآپ کو محبوب کے جانے کے غم میں آنے کی خوشی یاد نہیں رہے گی،خود صاحب بلاگ کو دیکھئے کہ ان کا یوم پیدائش چونکہ دہشت گردی کے سب سے بڑے واقعہ سے مناسبت رکھتا ہے اس لئے ان کو اپنے یوم مولود کی کوئی خوشی نہیں ہوتی،ان کو بس وہی واقعہ یاد آجاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس رسم سے دین اسلام میں نیا مسئلہ کھڑا ہونے کا اندیشہ ہو۔ جس کا اسلام میں کوئی تصور پہلے سے نہ موجود ہو اس بارے میں مسلمانوں کو خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اس واقعے سے سبق سیکھنا چاہئیے جس میں انہوں نے اس درخت کوکٹوا دیا تھا جس کے نیچے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی حیات میں بیعت رضوان کا واقعہ ہوا ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے وصال کے بعد کچھ اصحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم اس درخت کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی یاد میں کھڑے دیکھ کر سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ درخت محض اس اندیشے کے تحت کٹوا دیا تھا کہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم سے محبت اور عقیدت کی وجہ سے اس درخت سے عقیدت نہ پیدا کر لیں کہ جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوتا۔
جاوید بھائ یہاں آپ نے اپنی بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میریذاتی رائے میں ميلادُالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے مولود ہونے کی خوشی ہر مسلمان پہ فرض ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کو رد کرتے ہوئے مصنف کے استدلال کو مان لیا، ان کی پوسٹ کا مقصد ہی یہی ہے کہ سورہ احزاب کی مذکورہ آیت پانچ صدی سے قبل مسلمانوں کے سامنے بھی رہی ہوگی،وہ بھی اس کو بڑھتے ہونگے،پھر ان کو خوشی کیوں نہیں ہوتی تھی یہ بعد والوں ہی کو کیوں ہونی شروع ہوئی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پہلے والوں کو حضور سے محبت نہیں تھی اور بعد والوں کو ہے؟!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس رسم سے دین اسلام میں نیا مسئلہ کھڑا ہونے کا اندیشہ ہو۔ جس کا اسلام میں کوئی تصور پہلے سے نہ موجود ہو اس بارے میں مسلمانوں کو خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اس واقعے سے سبق سیکھنا چاہئیے جس میں انہوں نے اس درخت کوکٹوا دیا تھا جس کے نیچے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی حیات میں بیعت رضوان کا واقعہ ہوا ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے وصال کے بعد کچھ اصحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم اس درخت کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی یاد میں کھڑے دیکھ کر سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ درخت محض اس اندیشے کے تحت کٹوا دیا تھا کہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم سے محبت اور عقیدت کی وجہ سے اس درخت سے عقیدت نہ پیدا کر لیں کہ جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوتا۔
صحیح بات ہے جی!اب آپ یہ بتادیجئے کہ آج کا متنازعہ فیہ “درخت جدید” کاٹ دیا جانا چاہئے یا شرائط کے ساتھ باقی رہنا چاہیئے،واضح رہے کہ جواب حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کے مذکورہ عمل کی روشنی میں ہو
جہاں تک ميرا خيال ہے وصال سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کی تاريخ پر اختلاف نہيں ہے
واقدی،ابن سعد،ابو القاسم سہیلی،ابن جریر،ابن کلبی،ابو مخنف، بیہقی، ابن کثیراورخوارزمی کی مرتبہ تاریخ کی کتابیں دیکھ لیجئے یہ سارے حضرات وصال کی تاریخ میں اختلاف کررہے ہیں
محترم محمد سعید پالن پوری صاحب!
وعليكم السلام ورحمۃ اللہ وبركاتہ۔
محترم! آپ نے مجھے “صاحب علم آدمی” مخاطب کر کے بے جا طور پہ مجھ پہ “باعلم” ہونے کا بوجھ ڈال دیا ہے جبکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ مجھے ہمیشہ اپنی تشنگی کا احساس رہتا ہے۔ اپنی کم علمی کا زیاں ستاتا ہے۔میں ان الفاظ کو آپ کے حسنِ ظن سے تعبیر کئیے لیتا ہوں۔
ماشاءاللہ، آپکی بحث بہت مدلل ہے اور یہ بات میرے لئیے باعث مسرت ہے۔آپ نے جو نکات اٹھائے ہیں ان پہ بات کرنے سے پہلے، میں اپنے الفاظ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میریذاتی رائے میں ميلادُالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے مولود ہونے کی خوشی ہر مسلمان پہ فرض ہے۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی وضاحت کر دوں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے حوالے سے اُن سے محبت کا ذکر ہوتا ہے یا کسی مخصوص موضوع کے تحت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے اسوۃ حسنہ کی بات ہوتی ہے تو دل کو یک گونہ اطمینان و مسرت ہوتی ہے کہ میں اُس نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی امت سے ہوں جنہیں بہت سے غیر مسلم اسکالرز نے بھی بجا طور پہ عالمِ انسانیت کا عظیم ترین انسان قرار دیا ہے مگر جب اپنے اعمال کو دیکھتا ہوں تو اپنے تہی دامن ہونے کی فکر بھی لاحق رہتی ہے۔ تو کوشش یہ ہوتی ہے کہ جس نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی امتی ہونے کا ہمیں دعواہ ہے اُن سے محبت کا تقاضہ ہے کہ انکی امت کے بارے میں بھی اپنی سی سعی کریں ۔ اور جن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے عالم انسانیت کو اسقدر بلندی کا رستہ دکھایا اُن کے لئیے آتے جاتے گھر داخل ہوتے اُن پہ درودو سلام بیجھنا اُن سے محبت کا ایک عام اور سادہ سا طریقہ اظہار ہے۔ ربیع الاؤل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا ماہ ولادت ہونے کی وجہ سے دل کو یہ طمانیت عطا کرتا ہے کہ اس ماہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی آمد باعث رحمت اور باعثِ نجات بنی اور اس ماہ میں زبان پہ درود سالم خود بخود جاری ہو جانا تعجب خیز نہیں۔ میں اس سے زیادہ وضاحت نہیں کر سکتا کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے سمانے میرے پاس کبھی بھی مناسب الفاظ نہیں ہوئے۔ بہر صورت یہ میرے ذاتی جذبات و احساسات ہیں۔ بہت ممکن ہے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات ایک دوسرے سے بڑھ کر سوا ہوں۔
جہاں تک آپ کے سوال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج کا متنازعہ فیہ “درخت جدید” کاٹ دیا جانا چاہئے یا شرائط کے ساتھ باقی رہنا چاہیئے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کا تعلق ہے تو اگر میں غلطی پہ نہیں تو آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ فی زمانہ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم منانے کے جو نت نئے طریقے اختیار کئیے جارہے ہیں اور جن کا تعلق اسلام سے دور دور تک نہیں بنتا بلکہ بعض اوقات یہ طریقے اسلام کی تعلیمات کے بر عکس ہوتے ہیں اور بغیر کسی اسلامی حُکم کے اسیے جلوس وغیرہ نکالنا درست نہیں ۔۔۔۔۔ اگر آپ یوں کہنا چاہ رہے ہیں تو میری رائے میں یہ متنازعہ فیہ “درخت جدید” کاٹ دیا جانا چاہئے تانکہ مذھب میں مذھب ہی کے نام سے نئی نئی رسومات جاری نہ ہوں۔
محبت اور عقیدت کے اظہار کے وہ طریقے اپنائے جائیں جن کا اسلام میں سے وجود ثابت ہوسکے۔ اپنے طور پہ رسومات و روایات جاری کرنے والے اسلام کی تعلیمات کے بر عکس اسلام کی تعلیمات کی غلط تشریح اور تصویر پیش کرتے ہیں جن سے خلق خدا کو رہنمائی ملنے کی بجائے گمراہی ملتی ہے۔اور اسلام ایسی روایات و رسومات سے سختی سے منع فرماتا ہے۔
جاوید گوندل صاحب!
اللہ آپکو جزائے خیر دے کہ آپنے “خوشی” کی وضاحت کردی،آج کل سارے کام “خوشی” کے عنوان سے کئے جارہے ہیں جیسا کہ آپکا مشاہدہ بھی ہوگا اور شعیب صفدر صاحب کے بلاگ پراس موضوع سے متعلق پوسٹ میں ایک تبصرہ نگار کے تبصرہ میں پڑھا بھی ہوگا، آپ کے یہ لفظ استعمال کرنے سے غلط فہمی ہوئی جو کہ آپ کی وضاحت کے بعد دورہوگئی۔ آپ کی وضاحت کردہ خوشی ہر مسلمان کو ہوگی کہ یہ فطری ہے
درخت جدید کے حوالہ سے سوال آپ صحیح سمجھے ہیں اور جواب میں آپ نے جس جرات مندانہ رائے کا اظہار کیا ہے اس پر شکریہ ادا کرتے ہوئے یہی کہوں گا کہ آپ کی حق گوئی و بے باکی کو لاکھوں سلام
آپ کے اوور آل تبصرہ سے اندازہ ہورہا ہے اور یہی میری بھی رائے ہے کہ یہ دن بجائے یوم خوشی کے یوم محاسبہ کے طور سے منایاجائے،اور اس کیلئے کسی جلسہ جلوس کی ضرورت نہیں کہ اس میں علاوہ وقت کے ضیاع کے اور کچھ نہیں ہوتا،بلکہ ہم اس دن کے تعلق سےاپنے آپکو،اپنے گھر والوں کواور رابطہ میں آنے والے دوستوں اور رشتہ داروں کو لیکر بیٹھیں اور اپنے “گریبان میں جھانکیں”،اور اپنے آپکو درست کرتے ہوئے جھانکنے کے اس عمل کو اس حد تک لیجائیں جس کو آپ نے اپنے تبصرہ میں اجاگر کیا ہے
جب ضروريات اسلام سے فراغت پا کر مسلمان اپنی حکومت اور اسلامی ترقيات سے بہرہ ور ہو کر آرام سے زندگی بسر کرنے لگے اور غير اقوام کے ميل جول نے ان کو اس عمل کی طرف مجبور کيا کہ جس طرح وہ لوگ اپنے اسلاف کی يادگاريں قائم کرتے ہيں اسی طرح ان کے دوش بدوش مسلمان بھی اسلامی شان و شوکت کا اظہار کريں
محترم رقم طراز صاحب کی اس بات سے تو مجھے اتفاق ھے کہ غیر اقوام کے میل جول نے اس عمل کی طرف مجبور کیا
مگر “آرام کی زندگی” والی بات سے اتفاق نھیں۔ مسلمان اپنی روایات کھو بیٹھے اور ترقی علوم سے غافل ہو گیے اور طرح طرح کے نئےاسلامی تہوار نکالے اور اس مین وقت کے ساتھ ساتھ غلو بڑھتا گیا ہے حال ھی میں علامہ اقبال رح کا یہ شعر نظر سے گزرا
تو معنیء والنجم نہ سمجھا تو عجب کیا– ہے مد و جزر تیرا ابھی چاںد کا محتاج
ھم دوسروں کی تفسیرون اور تا ویلوں پر توجہ رکھتے ھیں خود سوچنا چھوڑ دیا ھے
دین میں ثواب کے لیے ایجاد کی گئی ہر وہ چیز جس کی اصل خیر القرون میں نہ ہو بدعت کہلاتی ہے ، اور اس بدعت کے بارے میں حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا فرمانا ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں لیجانے والی ہے ۔ “جشن میلاد” کی کوی بھی اصل خیر القرون میں نہیں ملتی ۔
السلام علیکم!
میں انکل ٹام کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔
مزید یہ کہنا چاہوں گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے اپنے آخری خطبہ میں فرمایا تھا، ” آج کے دن میں نے دین مکمل کر دیا”۔جس کے کچھ عرصہ بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
اس کا مطلب ہوا کہ ہمارا دین، دین اسلام ایک مکمل اور کامل دین ہے۔
اور بدعت ہر وہ عمل ہے جو کہ ثواب کی نیت سے دین کا حصہ سمجھ کر کیا جائے مگر دین کا حصہ نہ ہو، وہ دین کہ جس کو ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے مکمل کر دیا ہو۔
اب اگر یہ سمجھا جائے کہ تمام لوگ اس کو ثواب کی نیت سے کرتے یا مناتے ہیں غلط ہو گا۔
بہت سے لوگ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم سے اپنی محبت و عقیدت کے اظہار کے لیے مناتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بارے میں پھر کبھی وضاحت کروں گا، یہاں یا پھر اپنے بلاگ پر۔۔۔۔۔انشاءاللہ
ابھی ذرا جلدی میں ہوں،
فی امان اللہ۔
محسود صاحب
آپ کا خيال درست ہيں ۔ آپ کی تحرير کا انتظار رہے گا
محمد سعيد پالن پوری صاحب
ميں نے اس پر آج تک غور نہيں کيا ۔ ابھی کئی اور جھميلوں ميں پھنسا ہوں