“اے بھلے لوگو ۔ آپ کی بيوياں آپ کی محبت کی حقدار ہيں ۔ يہ محبت کا مجسمہ ہيں ۔ اِن سے پيار کا سلوک رکھا کرو ۔ يہ نرم دل رکھتی ہيں ۔ ان سے سخت بات نہ کيا کرو ۔ اگر کوئی اُونچی نيچی بات کہہ ديں تو غُصہ نہ کيا کرو مُسکرا ديا کرو ۔ ان کی ضروريات کا خيال رکھا کرو ۔ ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات ہوتی ہيں ۔ جائز طريقہ سے پوری ہوتی ہوں تو پوری کر ديا کرو ورنہ بعد میں آرام سے سمجھا ديا کرو”
ميں نے اللہ کے فضل سے شادی شُدہ زندگی کے 42 سال 4 ماہ اس پر عمل کيا ہے ليکن يہ الفاظ ميرے نہيں ہيں بلکہ مولوی عبدالعزيز کے ہيں جو اُنہوں نے ايک جمعہ کے دن سب مقتديوں کو مخاطب کر کے کہے تھے اور ميں بھی مقتديوں ميں شامل تھا
ہاں جناب ۔ وہی عبدالعزيز جسے پرويز مشرف نے دہشتگرد ظاہر کرتے ہوئے لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر فوج کشی کا حُکم ديا تھا پھر امريکی ڈرون نے تصاوير لے کر بتايا کہ عمارت کے اندر کہاں کہاں انسان موجود ہيں پھر سينکڑوں بے قصور انسانوں کو بھُون کے رکھ ديا تھا ۔ ان ميں بھاری اکثريت 4 سے 17 سال کی يتيم و نادار بچيوں کی تھی اور عبدالعزيز کی بوڑھی والدہ ۔ 17 سالہ بيٹا اور ايک بھائی بھی شامل تھا ۔ عبدالعزيز کے بھائی کے علاوہ کسی کی لاش بھی نہ مل سکی تھی ۔ صرف کيپيٹل ڈويلوپمنٹ اتھارٹی کے غير مسلم خاکروبوں اور دوسرے مزدوروں کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ اُنہيں بھاری معاوضہ کے عوض رات کے وقت ڈيوٹی پر بُلايا گيا تھا اور اُنہوں نے ہاتھوں پر تھيلے چڑھا کر اور ناک پر کپڑا باندھ کر لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں جلی ہوئی لاشوں اور ہڈيوں کو سميٹ کر رات کے اندھيرے ميں ٹرکوں پر لادا تھا مگر اُنہيں يہ معلوم نہيں تھا کہ وہ ٹرک کہاں گئے تھے
مولانا صاحب نے اچھی بات کہی ہے لیکن اس بات کو بھی تسلیم کریں کہ انکی اور انکے بھائی نے جو طریقہ اختیار کیا وہ انتہائی غلط تھا اور اس طرح کے قتل عام کی جہاں فوج زمہ دار ہے وہیں وہ بھی برابر کہ شریک ہیں۔
فارغ صاحب
عام آدميوں کو حقائق معلوم نہيں ہيں کيونکہ صرف وہی خبريں نشر ہوتی رہيں جو ايک فوجی افسر بتاتا رہا ۔ صحافيوں اور لوگوں کو لال مسجد اور جامعہ حفصہ سے اتنا دور رکھا گيا تھا کہ وہ کچھ بھی نہ ديکھ سکتے تھے ۔ دوسری طرف لال مسجد کے خطيب کو مذاکرات ميں اُلجھائے رکھا اور اسی دوران گولوں کی بارش شروع ہو گئی
السلام علیکم!
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں مجرموں کو انصاف کے کٹھرے میں لانے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین۔
افتخار صاحب میلادالنبی کے حوالے سے میری تحریر آپ کی منتظر ہے۔
کبھي آپ سے ملاقات کرواني ہے اپنے ان کي ذرا ايسي باتيں سنائيں انہيں بھي کوئي قدر ہي نہيں ہے ميري اور لال مسجد کا بڑا ذمہ دار مولوي خُود ہے اپني بيوي بچيوں کو تو باہر نکال ليا خود بھي برقعہ اوڑھ کر نکل آيا اور غريبوں کي بچيوں کو يرغمال بنا ليا کہنے والے يہ بھي کہتے ہيں جو لوگ باہر آتے تھے انہيں گولي پيچھے کي طرف سے لگتي تھي اور وہ جو جنت کے ليٹر ہر بچے کے جيب ميں ڈالے تھے وہ کيا تھے
اللہ ٓپ کو اپنی بیوی کے ساتھ خوش و خرم رکھے اور عبدالعزیز برقعہ پوش صاحب کو بھی
اجمل صاحب
آپ نے کیا یاد دلا دیا
مگر ایسی قربانیوں کے تزکرہ کی جگہ یہ نہیں اور نہ ہی آپ لوگوں کے کسی ڈونگرے کی محتاج ہے
آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کون لوگ ہیں بلا-گ کے نام پر۔ بہترہے آپ لال مسجد اور انکے باقی لوگوں کو چھوڑیں انکا اللہ وارث ہے۔ آپ اپنی کمیونٹی کے مطلب کی بات کریں
امید ہے ناراض نہیں ہونگے اور مشورہ قابل غور سمجھیں گے
اسماء بتول صاحبہ
کس کی ملاقات مجھ سے کروانا چاہ رہی ہيں ۔ ميں بڑا کمزور سا انسان ہوں اسلئے ڈرتا ہوں
لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے سلسلہ ميں جھوٹا پروپيگنڈہ بہت زيادہ ہوا اور حقيقت سے بہت ہی کم لوگ واقف ہيں جنہيں چُپ کرا ديا گيا ۔ جب پہلی بار حکومت کی طرف سے ميگا فون پر اعلان کيا گيا کہ جو اپنے آپ کو حکومت کے حوالے کر دے گا اُنہيں کچھ نہيں کہا جائے گا تو جو نمازی لال مسجد ميں تھے وہ ہاتھ اُوپر اُٹھا کر باہر نکلنا شروع ہوئے ۔ مسجد سے باہر نکلتے ہی اُن پر مسجد کے چاروں طرف کھڑے فوجيوں نے فارنگ کی ۔ کچھ اُن ميں سے زمين پر ليٹ گئے جو مسجد کے قريب تھے وہ واپس اندر چلے گئے ۔ دوسری طرف حکومت کے وزير و مشير مولوی عبدالعزيز کے بھائی کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے ۔ اُنہوں نے عبدالعزيز کيلئے اس کے قد کا برقعہ بنوا کر اندر بھيجا کہ باہر آجاؤ اور باقی مذاکرات آمنے سامنے ہوں گے ۔ اُسے باہر لانے کيلئے ميگا فون پر اعلان کيا گيا کہ عورتيں اور لڑکياں باہر آ جائيں ۔ اس طرح 300 کے قريب عورتيں اور لڑکياں جن ميں معلمات اور طالبات شامل تھيں باہر نکليں ۔ جن طالبات کا کوئی والی وارث نہ تھا اُنہوں نے باہر جانے سے انکار کر ديا ۔ اس قافلے ميں مولوی عبدالعزيز بھی شامل تھے ۔ وہ جونہی باہر نکلے اُنہيں گرفتار کر کے لے گئے ۔ جنت کے ليٹر والا بہتان جس نے بھی لگايا ہے اُسے اللہ کو ہی جواب دينا ہو گا
ميری باتوں پر يقين نہ ہو تو کبھی تشريف لا کر لال مسجد کے ارد گرد کے مکانات ميں رہنے والوں سے پوچھيئے ۔ زيادہ نہيں تو صرف اتنا ہی پوچھ ليجئے گا کہ مسجد يا جامعہ حفصہ کے اندر سے کتنی گولياں چلی تھيں تو وہ آپ کو بتائيں گے کہ سب کاروائی باہر سے اندر کی طرف ہوتی رہی مسجد يا جامعہ حفصہ کی طرف سے ايک بھی گولی باہر کو نہيں آئی تھی ۔
فرض کريں ميں نے سب کچھ غلط لکھا ہے اور جو آپ نے لکھا ہے وہی درست ہے ۔ اس کے باوجود سينکڑوں لڑکيوں کو ہلاک کرنے کا جواز کيسے پيدا ہوتا ہے ؟ اور اگر لڑکيوں کو يرغمال بنايا گيا تھا تو حکومت کا فرض تھا کہ اُنہيں رہا کرايا جاتا نہ کہ سفيد فاسفورس کے بموں سے اُنہيں زندہ جلا ديا جاتا
مولوی کے قد کا برقعہ اسپيشل بنوانے کی کيا ضرورت تھی ساری لڑکياں مولوی کے سائز کی ہی تو تھيں
احمد صاحب
ميری دعا ہے کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی آپ کو دين سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفيق عطا فرمائے تاکہ آپ طعن و تشنيع چھوڑ کر اپنی عاقبت سنوارنے ميں لگ جائيں
اجمل صاحب
آمین
اور اللہ پاک آپ کو اور آپکے دینی بھائیوں ( ق اور ش ( کو ایمان عطا کرے ، امت سے جڑنے اور صحابہ کے راستے پر چلنے کی توفیق دے
اور آپ سے پھر یہی درخواست ہے آپ لال مسجد یا انکے باقی علماء اور لوگوں کی فکر نہ کریں بلکہ وفاداری نبھائیں اور اپنے قبیلے کا ساتھ دیں
ہمارا خیال ہے انسان کو دوغلا پن اختیار نہیں کرنا چاہیئے
طعن و تشنيع تو آپ کے بھائی صبح شام کسی عام آدمی پر نہیں بلکہ صحابہ، نبی کے گھر والیوں پر کرتے ہیں اور علماء دین پر۔ اورجسکا مظاہرہ بلا-گ پر بھی روز دیکھا جاسکتا ہے۔ انتے بڑے کفر پر امید کی جاسکتی ہے آپ انکے لیئے ایمان کی دعا کریں گے اور انکو سمجھائیں گے بھی
مگر بات ہے توفیق کی
آپ نے بال سفید کر لیئے مگر انصاف پسندی نہ آئی
احمد صاحب
مجھے آپ کی طرف سے ہدايات کی ضرورت نہيں ہے ۔ ميں نے کيا کرنا ہے وہ آپ سے بہتر جانتا ہوں ۔ جس دن آپ کوئی نيک کام کريں گے تو مطلع کر ديجئے گا
اور جس دن آپ کو معلوم ہو جائے کہ انصاف کسے کہتے ہيں تو انصاف پر بات کيجئے گا ۔ يونہی ہر طرف منہ مارتے رہنا اچھی عادت نہيں ہے ۔ اگر آپ مسلمان ہيں تو قرآن شريف کو پڑھيئے اور اس کا ترجمہ بھی پڑھيئے اور اسے سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کيجئے ۔ اللہ نے ساری دنيا کا ٹھيکہ آپ کو نہيں دے رکھا
لال مسجد میں محصور مولوی حضرات اور تعلیم حاصل کرنے والے بچے بچیوں کی اکثریت کو دنیا کے خطر ناک دہشت گرد فرض کر لیں۔ مانا کہ ان کے پاس خطرناک آتشیں اسلحہ تھا۔مگر ایک عمارت یعنی لال مسجد میں محصوروں کو اسی ملک کی فوج کے خصوصی دستوں کے ذریعئے زندہ جلا دینا، فوجی نقطہ نگاہ سے غیر ضروری طور پہ ظالمانہ طریقہ اختیار کیا گیا۔ محض کچھ دنوں محصورین کی رسد و خوراک روک کر بھی انھیں عمارت سے باہر آنے پہ مجبور کیا جاسکتا تھا جس سے بیگناہ جانوں کا ضیاع نہ ہوتا۔ اور اس ظالمانہ اقدام کے نتیجے میں سیاسی نقطہ نظر سے ملک میںدہشت گردی کے عفریت کو پھیلا دینا پاکستان کے لئیے کسی بھی طور اچھا سودا نہیں تھا۔
لال مسجد فوج اور مسلمان عوام کو لڑانے کی ایک ظالمانہ اور بھونڈی سازش تھی۔جس میں بہت سے ملکی اور غیر ملکی ایکٹر اپنے اپنے مفادات کے تحت شامل تھے جس میں ننگ ملت مشرف کا نام سر فہرست ہے۔
میری رائے میں لال مسجد کے واقعے پہ غیر جانبدارانہ عدالتی تحقیقات ے ذرئعیے اصل واقعات کا کھوج لگایا جائے اور اسے قرطاس ایبض کی شکل میں شائع کیا جائے تانکہ عوام الناس درست واقعات جان سکیں۔ اس سے پاکستان کے استحکام میں اضافہ ہوگا اور افواہوں کی گردش اور الزامات کی حقیقت سامنے آئے گی۔
اسما آپکا کمنٹ دیکھ کر مسلمانوں کی بے حسی پر افسوس ہوا