پچھلے سال 2 اپريل کو برطانيہ کا گارجين اخبار اچانک ايک وڈيو سامنے لايا کہ طالبان نے ايک 17 سالہ لڑکی کو برسرِ عام کوڑے مارے اور اس کی چيخيں نکلتی رہيں ۔ اس وڈيو کو پاکستان کے ٹی وی چينلز نے بار بار دکھايا ۔ جيو نيوز پر يہ وِڈيو ہر پانچ منٹ کےوقفہ سے سارا دن دکھائی جاتی رہی ۔ لاتعداد مذاکرے اس سلسلہ ميں منعقد کئے گئے اور طالبان کو خُوب خُوب کوسا گيا ۔ حقوقِ نسواں کی ايک نام نہاد علمبردار ثمر من اللہ نے اس کی چیخ چيخ کر اشتہار بازی کی ۔ اسلام کے نام ليواؤں کی وحشتناکيوں کے خلاف مظاہرے ہوئے اور جلوس نکالے گئے ۔ اس سب غوغا کے نتيجہ ميں عدالتِ عظمٰی نے اس کا ازخود نوٹس لے کر تحقيقات کا حُکم دے ديا
ميں نے اس پر لکھا تو مجھ پر طنز کئے گئے ۔ آخر وہی نکلا جو ميں نے لکھا تھا ” کسی نے کہا کُتا کان لے گيا اور کُتے کے پيچھے بھاگ پڑے يہ ديکھا ہی کہ کان تو دونوں اپنی جگہ پر موجود ہيں”
تحقيقات ہوئيں مگر منظرِ عام پر آنے ميں 10 ماہ لگ گئے ۔ وڈيو کی مدد سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے وہ دو بچے ڈھونڈ نکالے جو موقع پر موجود تھے اور ان کی مدد سے جس شخص نے وڈيو بنائی تھی اور جس عورت کو کوڑے مارے گئے تھے انہيں بھی گرفتار کر ليا ۔ جس شخص نے يہ وڈيو بنائی تھی اُسے ايک اين جی او نے پانچ لاکھ روپے اس ڈرامہ کيلئے ديئے تھے ۔ عورت کو ايک لاکھ اور دونوں بچوں کو پچاس پچاس ہزار روپے ديئے گئے تھے
مکمل خبر يہاں کلک کر کے پڑھيئے
اجمل صاحب آپ نے خبر کا لنک نہیںدیا ۔۔۔
قدیر احمد صاحب
ربط دیا ہوا ہے ۔ اسے کھولئے اور پھر اس تحریر کے آخر میں تین روابط ہیں جہاں یہ خبر چھپی ہے
یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ ہم لوگ انفرادی طور پر سوچنے، جانچنے کی اھلیت کھو چکے ہیں۔ جو برین واشنگ میڈیا کر دے اسی کو حقیقت جانتے مانتے ہیں۔ کوئی اس کے علاوہ اصلیت بتانے کی کوشش کرے تو اسے غلط، دقیانوسی اور تنگ نظر قرار دے کر دھتکار دیتے ہیں۔
این جی او کا نام کیوں نہیںلیا گیا ان خبروں میں؟ اور کمشنر مالاکنڈ ڈویژن تو وہی صاحب تھے نا جن کی طالبان سے گاڑھی چھنتی تھی؟ ایک ایسی ہی خبر ہے جس میں ہوائی اُڑائی گئی ہے لیکن کسی بھی ملزم و مجرم کا نام نہیںدیا گیا۔ وہی کتا کان لے گیا والی بات ہے۔
احمد عرفان شفقت صاحب
يہ عصرِ حاضر کی بيماری ہے مگر لوگ سمجھتے نہيں ۔ ميں اس سلسلہ ميں اپنی پوری زندگی کے تجربات لکھنے کا ارادا رکھتا ہوں ۔ اللہ توفيق دے
اس این جی او کا نام بھی نیوز میںہونا چاہیے تاکہ اس این جی او کا اصل چہرہ سامنے آسکے ۔
قدير احمد جنجوعہ صاحب
ڈالروں سے چلنے والی سب اين جی اوز ايسی ہی ہيں کسی کا نام لے ليجئے ۔ اصل مسئلہ تو ثمر من اللہ اور حنا جيلانی کا ہے جو پاکستانی ہيں اور جو آگ اُگلتی رہيں
اس پوسٹپر مجھے ایک لطیفہ یاد آیا کہ ایک صاحب نے اپنے دوست سے کہا “یار ساری خبریں جھوٹی ہوتی ہیں”۔۔ دوست نے پوچھا “بھئ وہ کیسے”؟۔۔ کہنے لگے کل میں نے خود خبروں میں دیکھا ہے۔۔
راشد کامران صاحب
جو خبر ہوتی ہے وہ جھوٹی نہيں ہوتی
اجمل صاحب – آج آپ مجھے قدیر کیوںسمجھہ رہے ہیں ۔۔
uncle main nay bhi yeh mahawara bachpan main suna tha magar samajh nahi aai thee magar ab achi tarah a gai hy hamari aaj kal ki nojawan nasal ka kuch yahi haal hy
شيپر صاحب
يہ آپ کا کمال ہے جو چاہيں اپنے آپ کو شيپ دے ليں :smile:
زائرہ صاحبہ
:smile:
شيپر صاحب
آپ بھی صاحب ہيں کہ صاحبہ ؟ ابھی بتا ديں ۔ اور منہ بند رکھا کريں مکھی مچھر گھُس جائے گا
nice try ….
شيپر صاحب
يہ اُردو کا بلاگ ہے ۔ اپنی لکھائی کی شيپ اُردو کيجئے ۔ انگريزی مجھے نہيں آتی
اہو یہ تو ظلم ہو گیا ۔ سچ کا پتا چل گیا ۔ لیکن میں تو اس بات کا انتظار کر رہا ہوں کہ اس خبر کو عنیقہ ناز اور اسما پھپھے کٹنی اپنے بلاگ پر لگا کر افسوس کریں ۔ اس سے بھی زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ اب اس خبر پر اتنا شور نہیں ہو گیا جتنا کوڑے پڑنے والی خبر پر ہوا تھا ۔