انشاء اللہ العزيز
سِتم شَعَار سے تُجھ کو چھُڑائيں گے اِک دن
ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دن
ميرے وطن ۔ ميرے وطن ۔ ميرے وطن
ہم کيا چاہتے ہيں ؟ آزادی آزادی آزادی
آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990 کو منایا گیا
انتباہ ۔ کوئی کراچی یا اسلام آباد میں رہتا ہے یا پشاور یا لاہور یا کوئٹہ میں بالخصوص وہ جو جموں کشمیر کی جد وجہد آزادی میں کوشاں لوگوں کو انتہاء پسند یا دہشتگر کہتا ہے دماغ کی کھڑکی اور آنکھیں کھول کر پڑھ لے اور یاد رکھے کہ تحریک آزادی جموں کشمیر انسانی حقوق کی ایسی تحریک ہے جو نہ صرف اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی تین قرار دادوں اور جنرل اسمبلی کی کئی قرار دادوں کے مطابق ہے
یومِ یکجہتیءِ کشمیر کیوں اور کیسے
آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990ء کو منایا گیا ۔ میں نے اپنے دوسرے بلاگ پر ستمبر 2005ء میں کہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے دوسری مسلح جدوجہد 1989ء میں شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کی ایما پر شروع کی گئی تھی ۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی – بےنظیر بھٹو نے 1988ء میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی خاطر نہ صرف جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ دغا کیا بلکہ بھارت کے ظلم و ستم کے باعث سرحد پار کر کے پاکستان آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کر دی ۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے جن میں جماعتِ اسلامی پیش پیش تھی جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اِظہار کے لئے 5 فروری 1990ء کو یومِ یکجہتیءِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا جو اُس وقت کی حکومت کی مخالفت کے باوجود عوام نے بڑے جوش و خروش سے منایا ۔ بعد میں نواز شریف کی حکومت نے 5 فروری کو چھٹی قرار دیا اور اسے سرکاری طور پر منایا اور آج تک 5 فروری کو چھٹی ہوتی ہے
اہل کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت کی اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947ء میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی پوری منصوبہ بندی کے تحت یہ مسئلہ پیدا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کوئی ایسی دشواری نہیں تھی جو برطانوی حکومت اور برصغیر میں اس کے آخری وائسرائے نے ہمارے لئے پیدا نہ کی ہو اور سب سے زیادہ کاری ضرب جو پاکستان پر لگائی جاسکتی تھی وہ مسئلہ کشمیر کی صورت میں لگائی گئی۔ کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازع کا معاملہ نہیں بلکہ کشمیریوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد پاکستان کی بقا کی جنگ ہے ۔ کشمیر کا مسئلہ برطانوی حکومت نے پیدا کرایا ۔ وہ برصغیر سے جاتے جاتے کشمیر کو بھارت کی جارحیت کے سپرد کر گئے اور اس سروے میں دلال [Middle Man] کا کردار برصغیر میں برطانیہ کے آخری وائسرائے اور آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ادا کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت کے جسم پر ایک ناسور بنا دیا جائے اور اُس کے بعد بھارت محض اسلحہ کی طاقت کے زور پر کشمیریوں پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے اور پاکستان کے تین بڑے دریا راوی چناب اور جہلم بھارت کے قبضہ میں ہیں
قوموں کی زندگی میں ایک وقت فیصلہ کا آتا ہے کہ “جھُکے سر کے ساتھ چند روز عیش قبول کرلیں” یا “سرفروشی کے ساتھ سرفرازی کی راہ اپنائیں”
جَبَر کرنے والے اذِیّتوں سے اور موت سے ڈراتے ہیں
اِیمانی توانائی موت سے نبرُد آزما ہونے کی جرأت عطا کرتی ہے۔ موت میں خوف نہیں ہوتا بلکہ لذت ہوتی ہے اور جذبہءِ ایمانی کا کَیف اس لذّت کو نِکھارتا ہے
اہل جموں کشمیر اب اس لذّت سے سرشار ہو چکے ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم ہے اہل جموں کشمیر پر اور اہل پاکستان پر بھی
اہل جموں کشمیر صرف کشمیر کیلئے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے استحکام اور بقاء کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں
حُرِیّت کی داستانیں اِسی طرح رَقَم ہوتی ہیں ۔ بھارت کی جارحانہ طاقت اس جذبے کا مقابلہ کب تک کرے گی ؟
بھارتی فوج پوری طرح مسلح ہے لیکن وہ انسانی قدروں سے نہ صرف محروم بلکہ ان سے متصادم ہے اس لئے ناکامی اِن شاء اللہ اس کا مقدر ہے
بھارت جموں کشمیر کے لوگوں کی حقِ خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ”دہشت گردی“ کہتا ہے جبکہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے
بدقسمتی ہے میرے اُن ہموطنوں کی جنہیں اپنی آزادی کی جد و جہد کرنے والے بھی دہشتگرد دِکھتے ہیں ۔ شاید اُن کی آنکھوں پر خودغرضی کا پردہ پڑا ہے یا اُن کا ذہن ابلیس کے قبضہ میں ہے
جموں کشمیر کی جد و جہد آزادی کا مختصر جائزہ لینے کیلئے یہاں کلِک کیجئے
انشاء اللہ کشمیر ضرور آزاد ہو گا۔ چاہے بھارت اور اس کے ہمنوا جتنا بھی زور لگا لیں ان کو منہ کی کھانی پڑے گی!
ميں نے آنکھيں کھول کر تو پڑھ ليا ہے مگر ذہن ابھی تک ابليس کے قبضے ميں ہے
5فروری ہر سال اس جذبہ کو مزید توانائی دیتارہے گا اور کشمیریوں کو یہ پیغام ملتا رہے گا کہ ان کی عظیم الشان قربانیاں رائیگاں نہ جائیں گی اور ان کی جدوجہد بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوگی ،ان شاء اللہ ۔
خواب انگیز باتیوں کا اب وقت نہیں رہا اور چند لوگوں کے چکنے چپڑے تبصرے سن کر خوش فہمی کیسی
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
اب کیسی آزادی؟ جو آزاد کہے جاتے ہیں انکو بچا لیں تو بڑی بات ہے حالانکہ آزاد تو وہ بھی کبھی بھی نہیں تھے
شاید کسی کو یاد ہو بہت پہلے چند بار ہم نے عرض کیا تھا
1۔ پاکستان کا خاتمہ کرنے کا فائنل کام شروع ہے ( مشرف قادیانی سے کام میں تیزی آئی(
2۔سارے مسلمان ملک ایک کرکے ایک نشانہ بنیں گے، کیموفلاج کرنے کو کوریا اور ایران کا نام بھی ساتھ ملا دیا تھا
3-اس تمام عرصے میں شیعہ ملکوں پر قبضہ رکھیں گے سقوط کیلئے شیعہ لازم ہیں
4-ہم نے نواز شریف کا چہرہ سامنے آنے سے پہلے عرض کیا تھا وہ بھی کھیل کا حصہ ہے
5- 2015 تک کےوقت کا تخمینہ ہے
6۔کراچی میں جلد خون خرابہ ہوگا کیونکہ وہاں مقامی ایجنٹ پلان پر عمل کی تیاریوں میں مصروف ہیں اس وقت وہاں کافی بہتر تھا
اب چلتے چلتے امریکہ کا کھانے والوں کیلئے خونی کباب
اریامقبول جان کا کالم ایکسپریس میں
ایک کوئی بتا سکتا ہے وہ لڑکی کس کی بیٹی تھی ، بڑی نوازش ہوگی
عبدلقادر حسن کے کالم میں اس لڑکی کا ذکر ہے
احمد صاحب
اللہ سے خیر مانگیئے ۔ کہتے ہیں منہ سے غلط جملہ نہیں نکالنا چاہیئے
افسوس آپ نے آخری تبصرہ مٹادیا مگر کیوں؟
کشمیر پر جامع تحریر
احمد صاحب
اوپر اہم اطلاع لکھی گئی ہے اگر میں اس پر درست طریقہ سے عمل کروں تو آپ کے آدھے سے زیادہ تبصرے حذف ہو جائیں
Khudmakhtiyar
محمد خورشید چوہدری صاحب
خود مُختار کشمیر جموں کشمیر کی بھاری اکثریت کا نعرہ نہیں ہے ۔ جغرافیائی اور تاریخی لحاظ سے بھی خود مُختار کشمیر ایک مُشکل صورتِ حال ہے