انجنیئرنگ کالج لاہور میں ہمارا ہمجماعت ” ز ” تھا ۔ اُس کا خاندان 1947ء میں یوپی سے ہجرت کر کے آیا تھا اور کراچی میں رہائش اختیار کی تھی ۔ لڑکا شریف اور محنتی تھا ۔ اُس کے متعلق مشہور تھا کہ اُس سے بحث میں سب ہار جاتے ہیں
ہمارا آخری سال شروع ہونے والا تھا گرمیوں کی چھٹیاں گذار کر واپس ہوسٹل پہنچے تھے ۔ پڑھائی دو دن بعد شروع ہونا تھی ۔ میرے کمرے میں دس بارہ ہمجماعت کرسی میز اور چارپائی پر بیٹھے تھے اور خوش گپیاں ہو رہی تھیں
ایک بولا ” ‘ ز ‘ یار اب آخری سال شروع ہو رہا ہے ۔ راز تو بتاؤ تم سب کو بحث میں کیسے مات دیتے ہو ؟”
پھر کيا تھا سب باری باری مطالبہ کرنے لگے ۔ ایک ساتھی بولا ” یہ کراچی کی ٹریننگ ہے ”
آخر ” ز ” کہنے لگا ” سُنو ۔ اس کا کراچی سے کوئی تعلق نہیں ۔ تم سب بیوقوف ہو ”
اس پر شور مچ گیا ۔ میں نے سب کو چُپ کرایا اور کہا ” یار پوچھتے ہو تو پھر سُنو بھی ”
سب خاموش ہو گئے تو ” ز ” نے کہا ” میں یہ کہا چاہ رہا تھا کہ سب کو بیوقوف سمجھو اور بولتے جاؤ ۔ دوسرے کو بولنے کا موقع نہ دو ۔ اگر کوئی لاہور کی بات کرے کراچی کی بات کرو ۔ کراچی کی بات شروع کرے تو پشاور کی بات شروع کر دو ”
پچھلے دو تین ماہ سے مجھے ” ز ” بہت یاد آ رہا ہے ۔ کیسی پتے کی بات کی تھی اُس نے
درست کہا
محترم افتخار اجمل صاحب!
اسطرح کے کچھ لوگ آج بھی پائے جاتے ہیں۔ اور بدرجہ اُتم پائے جاتے ہیں۔ وہ ایک موضوع چھڑیں گے جن پہ انکی تحقیق یا معلومات واجبی اور عمومی سی ہوتی ہیں ۔ موضوع پہ گرفت بہت کمزور ہوتی ہے مگر وہ دعواہ امام الدانش ہونے کا کرتے ہیں۔ جب ان سے انہی کے الفاظ کی وضاحت مانگی جائے تو ا ادہر کی باتیں کرنی شروع کر دیتے ہیں۔ ذاتی تجربات جن کا ان کے اپنے سوا کوئی چشم دید گوہ نہیں ہوتا۔ جن واقعات کا کوئی ریکارڈ کہیں اور سے نہیں ملتا مگر ان فرضی واقعات کو وہ اس قدر پُر سوز انداز میں بیان کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہےکہ ایک ہی جست میں عالم ،فاضل کے منصب سے شعلہ بیاں جذباتی مجمع باز کے کردار پہ اتر آتے ہیں۔ اس پہ طُرہ یہ کہ انھیں چند ایک کاسہ لیس ، خوشامدی اور سیاسی ضرورت کے تحت ، انٹر نیٹ کی دنیا میں “اِن” رہنے کے لئیے “بقائے باہمی” کے نظریہ ضرورت کے تحت ایک دوسے کی ہاں میں ہاں کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔ کہ سر پیٹ لینے کو دل کرے۔اور اس پہ وپ اپنے آپ کو بقراط اور افلاطون سے کسی طور پہ کم سمجھنے کو کسی طور پہ بھی تیار نہیں ہوتے۔
یہاں تک تو ہمیں بھی برداشت ہے کہ چلیں جمہور کے زریں اصولوں کے تحت ہر ایک اپنی سی ہانکنے کی آزادی ہے۔ مگر افسوس اس وقت ہوتا ہے جب وہ جہالت کی پستیوں میں غرقاب ہو کر ، اسلام کے ساتھ ٹھٹا اور اسلامی شعائر کے ساتھ دل لگی شروع کرتے ہیں۔ استفسار کرنے پہ مذید گمراہی کا اندھیر پھیلاتے ہوئے ۔ اسلام میں ہمیشہ سے طے شدہ معاملات کو بھی چھیڑنے سے باز نہیں آتے۔
کیا انٹر نیٹ کے پردے کے پیچھے چھپ کر ہر کسی کی دل آزاری کرنے کا حق محض اسلئیے انھوں نے اپنے لئیے تفویض کر یا ہے کہ حقیقی زندگی میں کوئی انکا جائز محاسبہ نہیں کر سکتا۔ مگر کیا اس سہولت کے فراہم ہونے پہ ہم ہر قسم کی اخلاقی قیود سے بھی آزاد ہوجاتے ہیں۔؟ کیا مسلمانوں کا اور اپنے بارے میں علم سے واسطہ ہونے کا دعواٰی رکھنے والوں کو یہ زیب دیتا ہے؟۔ یا پھر بنی اسرائیل کی طرح ہم پستی کے اُس معیار پہ پہنچ چکے ہیں جہاں بنی اسرائیل اپنے غرور ، تفاخر اور خود پسندی کی وجہ سے خدا کو بھی خاطر میں لانے انکاری ہیں؟۔
قدیر احمد و جاوید گوندل صاحبان
شکریہ ۔ ایسے لوگوں کو چپ کرانے کا طریقہ بھی یہی ہے کہ ان کے ساتھ وہی کیا جائے جو وہ کر رہے ہیں ۔ آدمی سامنے ہو تو اللہ کے فضل سے میں اسے چپ ہونے پر مجبور کر دیتا ہوں ۔ بلاگر یا بلاگ کے مبصر کو صرف ایک بار چپ کرایا تھا
لیکن یہاں تو ابھی تک متوقع ”ز“ آیا ہی نہیں ابھی تک
ڈفر صاحب
” ز” کا کلیہ چند بلاگر اور قارئین استعمال تو کر رہے ہیں ۔ گوندل صاحب بھی یہی کہتے ہیں