ہاں ۔ ایک ٹیلیفون کال جو میں آج تک نہیں بھُلا سکا ۔ محمد خُرم بشیر بھٹی صاحب نے پردیسی کی روداد بیان کی ۔ غیر ملک میں ایک پاکستانی کی کیفیت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے
یہ واقعہ ہے 1983ء یا 1984ء کا ہم لبیا سے واپس آ چکے تھے اور راولپنڈی سیٹیلائیٹ ٹاؤن اپنے گھر میں رہائش پذیر تھے ۔ میں روزانہ راولپنڈی سے واہ نوکری پر جاتا اور آتا تھا کیونکہ واہ میں ابھی سرکاری رہائشگاہ نہ ملی تھی ۔ عید کا دن تھا ۔ نماز پڑھ کر واپس آیا ہی تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی ۔ ٹیلیفون اُٹھا کر السلام علیکم کہا تو آواز آئی “میں بہت دیر سے لاہور ٹیلیفون کر رہا ہوں”
میں نے بات کاٹ کر کہا “یہ تو راولپنڈی ۔۔۔”
ابھی میرا فقرہ پورا نہ ہوا تھا کہ اس نے منت کے لہجہ میں کہا ” ٹیلیفون بند نہ کریں ۔ میں امریکہ سے بول رہا ہوں ۔ میرا گھر لاہور میں ہے ۔ آج عید ہے میرا بہت دل چاہا کہ اپنے شہر کے کسی آدمی سے بات کروں ۔ کئی گھنٹے کوشش کے باوجود کسی سے بات نہ ہو سکی پھر میں نے یونہی یہ نمبر ملایا تو مل گیا ۔ بس آپ باتیں کیجئے اور مجھے میرے وطن اور میرے شہر کا بتایئے”
میں اس کے ساتھ کافی دیر باتیں کرتا رہا ۔ بالآخر میں نے اُسے کہا ” مجھے لاہور اپنے گھر کا ٹیلیفون نمبر یا پتہ لکھا دیں ۔ میں آپ کے گھر والوں کو آپ کا سلام اور عید مبارک پہنچا دوں گا ”
وہ کہنے لگا ” میرے والدین اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں اور میرا کوئی سگا بہن بھائی نہیں ۔ میں کس کو پیغام بھیجوں ؟ اپنے شہر کے کسی آدمی سے باتیں کرنا چاہتا تھا ۔ آپ سے باتیں کر کے میرے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا ہے ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے اور میرے وطن کو بھی سلامت رکھے”
بس جی کچھ لوگوں کی کہانیاں بڑی درد ناک سی ہوتی ہیں، اللہ ایسے پردیسیوں کو سکھ چین کی زندگی عطا فرمائے۔۔۔ آمین
کبھی کبھی سب هوتے هوئے بھی بندھ اکیلا سا رھ جاتا ہے . جب پاکستان ميں سارے اس کوشش میں هوں که اگر باہر والا واپس آگیا توگلچھڑے ختم هو جائیں گے
میں تو کبھی کبھوی سوچتا هوں که اگر باهر کے سارے ممالک هم لوگوں کے ویزے ختم کرکے سارے پاکستایوں کو واپس بھیج دیں تو پاکستان کے حالات بھی بدل جائیں گے
که اتنے سارے لوگ جو احساس ذمه داری رکھتے هیں پاکستان جا کر کچھ ناں کچھ تو کریں گے هی ناں جی
خاور صاحب
آپ نے بات سولہ آنے کھری کہی ہے ۔ نواز شریف نے اس پالیسی پر کام شروع کیا تھا ۔ پہلے مرحلہ میں اعلٰی تعلیم یافتہ پاکستانی کو ملک میں آنے کی ترغیب دی تھی کئی آئے بھي ۔ پہلے تو سیکریٹیریئٹ کے بابوؤں نے چکر ڈالے رکھا پھر نواز شریف کی حکومت ہی لپیٹ دی گئی اور جو آئے تھے خوار ہو کر واپس چلے گئے
پردیس میںتو انسان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ اپنے ملک کی ایک ایک چیز یاد آتی ہے۔ جب پاکستان میں گندم کی کٹائی کے دن تھے تو ہم پاکستان کی طرف منہ کر کے لمبی لمبی سانس لیتے تھے اور گندم کی کٹائی کی اس خاص خوشبو کو محسوس کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اچھا ہی ہوا واپس اپنوں کے پاس آ گئے نہیںتو شاید۔۔۔
آپ کی تحرير پڑھ کر ُ اکھاں چھم چھم وسياں` ، خاور چچا والی بات ميں ہی اصل بات ہے
ایم بلال صاحب
میرے بزرگوں میں سے کچھ ایسے تھے چو بچے تھے اور افریقہ چلے گئے اُس زمانہ میں سب سے زیادہ خوشحال علاقہ وہی تھا ۔ اُن کی واپسی کی کوئی اُمید نہ تھی مگر وہ پاکستان آئے اور آکر اپنے گھر بنائے اور اللہ کو پیارے ہوئے
اسماء صاحبہ
کہتے ہیں جسے آدمی کہیں بھی چلا جائے اُسے اپنی جائے پیدائش نہیں بھولتی ۔ آپ تو اپنی جائے پیدائش جب چاہیں آ کر دیکھ سکتی ہیں ۔ ایک میں ہوں کہ اپنی جائے پیدائش دیکھنے کی مجھے اجازت ہی نہیں اور پھر کہتے ہیں کہ انڈیا بڑا سیکولر ملک ہے
ادھر جانے کا خيال ہی دل ميں نہ لائيں چاہے اجازت مل بھی جائے الٹے سيدھے جھوٹے مقدمات بنا کر ہر کسی کو اندر کر ديتے ہيں انڈيا والے
نا چھیڑیں جی ہمیں
بندہ دفتر میں بیٹھا روتا اچھا نئی لگتا