ہم دولت کی لوٹ مار اور احتساب [Corruption and Accountability] کے الفاظ روزانہ اخبارات میں پڑھتے اور ٹی وی سے سُنتے ہیں اور لوگوں کے منہ سے بھی یہ الفاظ عام طور پر سُنے جاتے ہیں ۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ لوٹ مار کے جو قصے ہم پڑھتے اور سُنتے ہیں یہ اصل کا عشرِ عشیر بھی نہیں ۔ لوٹ مار اور ہیرا پھیری تو ازل سے ہے لیکن چار دہائیاں قبل وطنِ عزیز میں اس میں اضافہ شروع ہوا جسے روکنے کی کوشش کرنا تو درکنار اُلٹا اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔ عام آدمی کے ذہن کو درہم برہم [confuse] کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر اُن لوگوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا جو اس جُرم میں ملوث نہ تھے
میرا یقین ہے کہ اگر آج بھی عوام میں سے 30 فیصد لوگ ہی دیانتدار اور معاشرے کو درست کرنے کی خواہاں ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ بڑے عہدیدار اور حکمران ہیرا پھیری کر سکیں ۔ ہماری قوم کا سانحہ [میں اسے سانحہ ہی کہتا ہوں] یہ ہے کہ عوام کی اکثریت بھی لوٹ مار میں ملوث ہے اور جو نہیں ہیں وہ اس سلسلہ میں کچھ کرنے کے روادار نہیں
رات میں ساڑھے دس بجے سونے کیلئے لیٹا ۔ میرا خیال ہے کہ گیارہ بجے تک میں سو گیا تھا ۔ آدھی رات پوَن بجے میری نیند کھُل گئی ۔ نمعلوم کیوں میرے ذہن میں کرپشن اور اکاؤنٹبِلیٹی آ گئی پھر میرے ذہن کے پردہ سیمیں پر ماضی کے نظارے گھومنے لگے ۔ سب نظارے گذرنے میں آدھا پونا گھنٹہ لگا ہو گا لیکن میرے ذہن کو اتنا مُنتشر کر گئے کہ میں پانچ بجے صبح تک جاگتا رہا اور نجانے کب نیند آئی کہ فجر کی نماز قضا ہو گئی ۔ سوچا ان میں سے چند واقعات لکھ دیئے جائیں ہو سکتا ہے اس سے کوئی نصیحت پکڑے ۔ نام سب فرضی لکھوں گا کیونکہ کسی کی تضحیک مقصود نہیں
میں نے یکم مئی 1963ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت شروع کی ۔ اوائل 1965ء میں جب میں اسسٹنٹ ورکس منیجر سمال آرمز تھا میرے سینئر “ق” صاحب تھے جو بڑے رکھ رکھاؤ والے آدمی تھے ۔ تمباکو کا پائپ پیتے تھے ۔ اُن کا تعلق ایک کھاتے پیتے اور پڑھے لکھے گھرانے سے تھا ۔ جرمنی سے مال آیا تو اُس میں سے ایک چھوٹا سا بنڈل ہاتھ میں پکڑے ایک فورمین جا رہے تھے ۔ میں نے پوچھا “یہ چھوٹا سا بنڈل کیا ہے ؟” مسکرا کر کہنے لگے “سر ۔ ان کا نام ریئر سائٹ کلینر [Rear Sight Cleaner] رکھا گیا ہے ۔ یہ جرمنی سے جی تھری کے نام پر درآمد کئے گئے ہیں مگر یہ ہیں پائپ کلینر جو میں “ق” صاحب کو دینے جا رہا ہوں”
کچھ ماہ بعد مجھے کسی دوسری فیکٹری کے اسسٹنٹ ورکس منیجر نے کہا “سُنا ہے آپ کی فیکٹری میں جرمنی سے کوئی سامان آیا ہے اُس میں شراب کی بوتلیں نکلیں ہیں”۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں ۔ دوسرے دن میں نے اپنے ساتھی اسسٹنٹ ورکس منیجر سے ذکر کیا تو وہ کہنے لگے کہ بات درست ہے لیکن ہم چھوٹے لوگ ہیں بس خاموش رہیئے
کچھ سال بعد ایک سٹور ہولڈر میرے پاس گبھرائے ہوئے آئے ۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے “صاحب ۔ میرے ساتھ چلئے”۔ مجھے وہ اپنے سٹور میں لے گئے ۔ تالا کھولا اور میرے اندر داخل ہوتے ہی خود داخل ہو کر اندر سے کُنڈی لگا دی پھر ایک کریٹ [crate] کا اُوپر کا تختہ اُٹھایا ۔ اُس میں ایک ایلومینم کی فولڈنگ [folding] میز تھی ۔ سٹور ہولڈر نے بتایا کہ نیچے چار فولڈنگ کرسیاں بھی ہیں ۔ پھر بولا “صاحب ۔ میں غریب آدمی ہوں مُفت میں مارا جاؤں گا”۔ میں نے اُسے تسلی دی اور سیدھا جا کر اپنے سینیئر “ق” صاحب کو بتا دیا ۔ “ق” صاحب نے کہا “اچھا میں پتہ کرتا ہوں”۔ میری نظریں “ق” صاحب کے چہرے پر تھیں جس پر مکمل سکون رہا ۔ دو دن بعد میں کسی کام سے “ق” صاحب کے پاس گیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ بڑے صاحب کیلئے تھے
میں پروڈکشن منیجر تھا کہ 1969ء کے اواخر میں خبر نکلی کہ لکڑ خانے [Wood Working Factory] سے 2250 سی ایف ٹی [Cubic Foot] اول درجہ سیزنڈ [seasoned] دیودار کے سلِیپر کم ہو گئے ہیں اور انکوائری کا حکم دے دیا گیا ۔ بعد میں انکوائری کرنے والوں میں سے ایک نے مجھے بتایا کہ وہ لکڑی سالویج وُڈ [salvaged wood] کہہ کر سرکاری ٹرکوں پر راولپنڈی لیجائی گئی تھی جہاں ایک بڑے صاحب کا گھر بن رہا تھا ۔ میں نے کہا “پھر آپ نے کیا کیا ؟” جواب ملا بھائی غریب آدمی ہوں ۔ بچے ابھی چھوٹے ہیں ۔ اس عمر میں نکال دیا گیا تو کہیں اور نوکری بھی نہیں ملے گی”
میں مارچ 1983 سے ستمبر 1985 تک جنرل منیجر اور پرنسپل پی او ایف ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ تھا ۔ ہر سال 200 بوائے آرٹیزن بھرتی کر کے اُنہین 3 سال تربیت دی جاتی تھی ۔ پہلے 2 سال ہر ایک کو 12 کاپیاں 96 صفحے یعنی 48 ورق والی دی جاتی تھیں ۔ 800 درجن کاپیاں خریدنا تھی ۔ میں اپنی ذاتی گاڑی پر واہ سے راولپنڈی گیا اور سٹیشنری کی دکانیں ديکھیں ۔ اُن سے بحث وغیرہ کر کے کوٹیشنز لیں ۔ سب سے سستی 26 روپے درجن ملی ۔ جب کاپیاں پہنچیں تو سٹاف اسسٹنٹ حيران ہوا ۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگا “سر ۔ پچھلے سال 36 روپے درج خریدی تھیں”۔ میں نے متعلقہ سپلائر کو ٹیلیفون کر کے کہا کہ ریکارڈ چیک کر کے بتائے کہ پچھلے سال اُس نے کاپیاں کیا بھاؤ دی تھیں ۔ دوسرے دن اُس نے بتایا “28 روپے درجن”۔ گویا پچھلے سال خریدنے والے کی جیب میں 6400 روپے گئے تھے
خاص قسم کی خراد مشینوں کیلئے آفرز مانگیں ۔ ان میں ایک میں لکھا تھا کہ “ایک سال قبل اُنہوں نے 10 مشینیں فلاں فیکٹری کو 12 لاکھ روپے فی مشین کے حساب سے سپلائی کی تھیں ۔ اب گو قیمتیں 10 فیصد بڑھ چکی ہیں مگر پرانی قیمت پر ہی سپلائی کریں گے” ۔ میں نے آئی ہوئی 6 آفرز کا پہلے فنی موازنہ اور پھر مالی موازنہ [Technical and Financial comparison] تیار کیا ۔ ان کی مشین سب سے اچھی تھی مگر قیمت صرف ایک ادنٰی مشین سے تھوڑی سی زیادہ تھی ۔ میں نے ان کے مندوب کو بلایا اور کہا “چائے کے وقت آپ آئیں گے تو میں چائے پلاؤں گا کھانے کے وقت آئیں گے تو کھانا کھلاؤں گا لیکن آپ سے میں پانی بھی نہیں پیئوں گا ۔ دیگر آپ کے بِل جمع کرانے کے 5 ہفتے کے اندر آپ کا چیک جاری ہو جائے گا ۔ آپ قیمت 30 فیصد کم کریں”۔ مندوب اپنی کرسی میں اُچھل گیا ۔ میں نے اُسے کہا کہ “یہ آپ کے بس کی بات نہیں ہے ۔ کراچی میں ہیڈ آفس والوں سے کہیئے کہ آپ کے پرنسیپلز کو لکھیں”۔ دوہفتے بعد وہ نئی کوٹیشن لے کر آیا فی مشین ساڑھے 9 لاکھ اور لمبی چوڑی کہانی سنائی ۔ ایک سال قبل جو 10 مشینیں آرڈر ہوئی تھیں اُس سودے میں 25 لاکھ روپیہ کس کس کی جیب میں گیا ؟
اسی دوران کی بات ہے کہ سی این سی مشینز [Computerised Numerical Control Machines] ٹریننگ سینٹر کیلئے آفرز منگوائی گئیں ۔ میں موازنہ تیار کر چکا تھا کہ بڑے باس کی طرف سے تجویز آ گئی کہ اس کمپنی کو آرڈر دوں ۔ میں نے آفر کا معائنہ کیا تو دُگنی قیمت ہونے کے علاوہ وہ آفر ہماری ضروریات پر پوری نہ اُترتی تھی اور مکمل بھی نہ تھی ۔ مین نے لکھ بھیجا ۔ پھر مشورہ آیا کہ اسے ہی آرڈر کروں ۔ میں نے خامیوں کی تفصیل کے ساتھ یہ بھی لکھ بھیجا کہ قیمت بہت زیادہ ہے اور ساتھ موزوں ترین آفر بھی لگا کر بھیج دی ۔ کچھ دن بعد میرا تبادلہ ہو گیا اور میری سالانہ رپورٹس اوسط ہونا شروع ہو گئیں جس کے باعث میری ترقی رُک گئی ۔ میرے بعد میں آنے والے صاحب نے اُس آفر کی سفارشات بنا کر بھیج دیں ۔ باس خوش ہو گئے اور اگلے سال اُن صاحب کی ترقی ہو گئی
ہم نے اقبال کا کہا مانا اور ہر سیڑھی سے پھسلتے رہے
جھکنے والوں نے رفعتیں پا لیں ہم خودی کو بلند کرتے رہے
دل کی آزادی شہنشاہی‘ شکم سامان موت
فیصلہ ترا ترے ہاتھوں میں ہے‘ دل یا شکم؟
جدھر رخ کریں حرام کھانے والے کھڑے ہیں!
نہ جانے رزقِ حلال سے کب آشنا ہوں گے یہ لوگ۔
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔ خوشی ہوئی کہ آپ کے خیال میں پاکستان میں ایماندار 30 فیصد ہیں۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کم ہی سہی اگر ہوتو آگے بڑھنے کا حوصلہ و راستہ ملتا رہتا ہے۔
Pingback: میری کہانی 4 ۔ باس | میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ What Am I