” میں ایوب خان کے دور میں تعلیم مکمل کر کے کالج سے نکلا تو دل میں ایک شدید آرزو تھی کہ اس نظام کو بدلا جائے، آمریت سے نجات حاصل کی جائے اور جمہوریت کے ذریعے ایسا نظام لایا جائے جو غریب عوام کے مسائل حل کرے، قومی دولت کو معاشرے کے تمام طبقوں میں منصفانہ انداز سے تقسیم کرے اور پسے ہوئے عوام میں زندگی کی لہر پیدا کرے۔ میں اور میرے دوست رات دن اسی موضوع پر بحث کرتے اور نئے راستے تلاش کرنے میں مصروف رہتے تھے۔ اچانک بھٹو نے ایوبی آمریت کو للکارا اور غریبوں کا مسیحا بن کر ملکی اُفق پر ابھرا۔ ہمیں بھٹو کی شخصیت میں اپنی امیدوں اور توقعات کا سورج طلوع ہوتا ہوا نظر آیا چنانچہ ہم من تن دھن کی بازی لگا کر دل و جان سے بھٹو صاحب کے ساتھ وابستہ ہو گئے اور ان کے کارکن بن گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے دن رات بھٹو صاحب کے لئے دیوانوں کی مانند کام کیا۔ بھٹو صاحب انتخابی میدان میں اترے تو پی پی پی نے الیکشن جیتا اور بھٹو صاحب کے ساتھ نظریاتی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد اسمبلیوں میں پہنچ گئی
ہمارے اس جذبے کو پہلی ٹھیس اس وقت لگی جب ہمارے مشوروں کے خلاف بھٹو صاحب نے 1977ء میں نظریاتی کارکنوں کو اِگنور کر کے وڈیروں، گدی نشینوں اور روایتی سیاستدانوں کو ٹکٹ دے دیئے۔ اس کے باوجود جب بھٹو صاحب جیل گئے تو ہم نے ضیاء آمریت کے خلاف مزاحمتی تحریک چلائی، پولیس کی لاٹھیاں کھائیں، جیلیں اور قلعے دیکھے اور کوڑے کھائے
پھر ہم نے نہایت خلوص اور لگن کے ساتھ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا ساتھ دیا اور پی پی پی کا چراغ روشن رکھا۔ ضیاء الحق کے انتقال کے بعد پی پی پی 1988ء کے انتخابات کے لئے میدان میں اتری تو ہمیں توقع تھی کہ بی بی پرانے نظریاتی کارکنوں کو ٹکٹ دیں گی لیکن ۔ ۔ ۔ بی بی نے نظریاتی کارکنوں پر دولت مندوں اور پارٹی کو اور پارٹی قیادت کو بڑی رقمیں دینے والوں کو ترجیح دی۔ نتیجے کے طور پر دولت کے ذریعے ٹکٹ خریدنے والے ابن الوقت پارٹی پر حاوی ہو گئے اور نظریاتی کارکن بددل ہو کر سیاسی منظر سے غائب ہو گئے
آج یہ عالم ہے کہ صدر صاحب سے لے کر ان کے وزراء اور حواریوں تک ہر کوئی کرپشن کے الزامات میں ڈوبا ہوا ہے اور ایسے نئے چہرے پارٹی پر قابض ہو گئے ہیں جن کا ہم نے کبھی نام سنا تھا نہ چہرہ دیکھا تھا۔ ۔ ۔ یہ جھوٹ اور دکانداری کی سیاست ہے۔ آپ نے وہ شعر تو یقینا سن رکھا ہو گا
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں”
پورا انٹرویو پڑھنے کیلئے یہاں کلِک کیجئے
بات تو سچ ہے مگر پھر بھی لوگ بھٹو سے وابستگی کی وجہ سے ان ڈرامہ بازوں کو ووٹ دیتے ہیں جن کا بھٹو سے تعلق صرف مفاد کا ہے۔
بھٹو نے جب آمریت کو للکارا تو اس میرا خاندان بھی بھٹو کے ساتھ تھا۔ مگر اب پی پی کی سیاست ہی پی پی کے لیڈورں کا کاروبارہے۔
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
“گھری ہوئی ہے رضیہ غنڈوں میں”