پاکستان کے وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے آج بدھ شام پونے سات بجے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ ایک طویل ملاقات کے بعد چیف جسٹس کی سفارشات کو منظور کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس ثاقب نثار کے علاوہ جسٹس آصف کھوسہ کو بھی سپریم کورٹ میں جج مقرر کیا جا رہا ہے ۔ اس کے علاہ جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے کو جو حال ہی میں سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے ہیں ایک سال کے لیے سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج مقرر کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کی تقرری کا وہ نوٹیفیکیشن جو پہلے جاری کیا گیا تھا اس کی جگہ ایک نیا نوٹیفیکیشن لے گا جو آج رات جاری ہو جائے گا ۔ وزیرِ اعظم نے یہ بھی کہا کہ ججوں کی خالی آسامیاں کو فوراً پر کیا جا رہا ہے
خدا کا شکر ہے کہ عدلیہ کی بالادستی کو مان لیا گیا ہے ۔ معاشرے قانون کی بالادستی سے فروغ پاتے ہیں
عدلیہ کی بالادستی یا عدلیہ کی غنڈہ گردی؟ 58 میں بھی لوگوں نے ایسے ہی خوشیاںمنائی تھیں، 77 میں بھی اور 99 میں بھی۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ جج پاکستان کا ملازم ہوتا ہے کہ چیف جسٹس کا؟ یہ ایک اور “پاور ہاؤس” بنانے کا عمل ہمیں کہاںلے جائے گا؟ اس سے پہلے کہ مجھ ناچیز پر کرم فرمائی شروع ہو میرا صرف ایک سوال ہے۔ “کیا جج افتخار نے ماتحت عدالتوں میں ہونے والی اندھا دھند کرپشن کو ختم کردیا ہے؟” اگر نہیں تو پھر یقین رکھئے کہ عوامی حمایت سے ایک اور “کرپٹ” مافیا طاقت پکڑ رہا ہے۔ عوامی حکومت کے اختیار کو چیلنج کرنے والی طاقت صرف عوام کی ہونا چاہئے۔ کوئی بھی اور روش آمریت اور بربادی کی طرف جاتی ہے لیکن تاریخ کا یہ بھی سبق ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ انصاف کی سربلندی ہی وہ واحد راستہ ہے جو عام انسان کو کسی مراعات یافتہ شخص کے برابر لا کھڑا کرتا ہے ۔ میرے بہنوئی ایک جج ہیں اور ان کے بیان کے مطابق چودھری صاحب کا ٹارگٹ سرد خانے میں پڑے ہوئے مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے کا ہے اور تمام ججوں کو اپنی کارکردگی کی رپورٹ ماہانہ بنیادوں پر بجھوانا پڑتی ہے اور اسی سے کارکردگی کا تعین ہوتا ہے ۔
کم از کم جج اگر پاور ہاوس بن بھی گئے تو ان کے گریبان پر ہاتھ ڈالنا آسان تو ہے ۔ کرپشن جیسے ناسور معاشرتی برائیاں ہوتین ہیں اور ان کو ختم ہوتے ہوتے عرصہ لگتا ہے ۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہمارا اس معاملے میں کتنا حصہ ہے ۔
قوم کو خوشیاں مناے دیں ویسے بھی اور خوشیاں مناے کے مواقع کتنے کم ہیں
یہ ٹوپی ڈرامہ تھا۔
میںخرم بھیا کی تائید کرتا ہوں۔
سب سے طاقتور معاشرے میں انصاف ہوتا ہے اور سب سے طاقتور اور اہم جج کا عہدہ ہوتا ہے
جو لوگ ملک میں رہ کر انصاف سے ڈرتے ہیں ان کے ڈر کا سبب تو معلوم ہے مگر پتا نہیں باہر کا کھانے والوں کو انصاف سے کیسا ڈر ہے؟
پاکستان جیسی اجزاء ترکیب جس ملک کی بھی ہے وہاں مسلمانوں کا حال یہی ہے۔ اور پاکستان میں بہتری کی امید رکھنا کام خیالی ہے “وہ” لوگ اتنے عرصے کی اپنی محنت ضائع نہیں ہونے دیں گے
گند اتنا بڑھ گیا ہے کہ کئی جو اپنے آپ کو عالم بھی کہلاتے ہیں ، 5 وقت کی نماز بھی پڑھتے ، سب سے بڑے کرپٹ اور ایجنٹ سے دوستی پر فخر کرتے ہیں جیسے کل سفاک مشرف پر کرتے تھے
لیکن ایک بات اب یہ کہ عدالت اب حکومت کو ڈھیل دے گی اور جو ہو رہا تھا ہوتا رہے گا۔ عدالت سے باہر جو ڈیل ہوئی ہے یہ آ گے چل کر اپنا اثر دکھائے گی
صاف سی بات ہے یا تو مسلمان نیا پاکستان بنائیں یا اپنی اصلاح کریں کہ اللہ ان کو منافقین سے نجات دے
اس سارے معاملے سے ایک بات سمجھ آتی ہے کہ کیوں ایسے لوگ شریعت سے ڈرتے ہیں اور اسکے بارے میں اول فول بکتے ہیں ۔
کہ بے شک عدل کا کوڑا بڑا سخت ہوتا ہے
خرم ۔ فرحان دانش اور عمر احمد بنگش صاحبان
نہ يہ ٹوپی ڈرامہ ہے اور نہ عدليہ کو ناجائز طاقت فراہم کی جا رہی ہے ۔ صدر زرداری اور ان کے حواری اُلٹے سیدھے داؤ چلتے ہیں جو عوامی طاقت کے سامنے دم توڑ ديتے ہيں ۔ وکلاء نے اس ملک ميں پہلی بار تحریک چلائی جس میں بہت قربانياں ديں اور اللہ نے اُنہيں 15 مارچ 2009ء کو کاميابی دی ۔ اب وہی منظر پھر سامنے تھا ۔
ايک بات کبھی نہیں بھولنا چايئے کہ اچھا معاشرہ انصاف سے قائم ہوتا ہے ۔ اسلامی معاشرے کی بنياد بھی بے لاگ انصاف ہی ہے ۔ اسلئے منصف اگر انصاف کرے تو اس مین اتنی طاقت ہونا ضروری ہے کہ فيصلہ پر عمل ہو سکے ۔ اس کے بغير ايک اچھا معاشرہ قائم ہی نہیں ہو سکتا ۔ اور ہاں منصف کو يہ طاقت ملک کے آئين نے مہياء کی ہے جو پارليمنٹ نے خود بنايا تھا
کسی بھی بہانے کسی کے بھی ذریعے اللہ کرے کہ پاکستان انصاف کی راہ پر گامزن ہو،آمین
وہ کیا کہتے ہیں شک میں پڑی قوم، بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈسی قوم بس یہی کہتی ہے لگتا تو نہیں لیکن شائد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔