جاوید گوندل صاحب سیر حاصل تبصرے کرنے والے کے طور جانے جاتے ہیں ۔ اُنہوں نے ایک بلاگ پر تبصرہ کیا تھا جسے میں اُن کی اجازت سے ایک عمومی مضمون کی صورت میں ڈھالنے کیلئے معمولی عبارتی ترامیم کے بعد نقل کر رہا ہوں ۔ مضمون کا مفہوم من و عن ویسا ہی ہے ۔ میں اسلام آباد چلا گيا تھا اسلئے لکھنے ميں دو ہفتے تاخير ہو گئی
نامعلوم کچھ لوگ کيوں جان بوجھ کر کسی بھی موضوع کو متنازع بنا دیتے ہیں تاکہ لوگ توجہ دیں اور وہ کامیاب مصنف بن جائیں یا نہائت سادگی اور انجانے میں اسلام بیزار طبقے کی نمائندگی میں بہہ جاتے ہیں ۔ موضوع کوئی بھی ہو کسی طرح گھسیٹ گھساٹ کر اُسے کچھ مشہور واقعات کو بیچ میں لاتے ہوئے پاکستان کے حوالہ سے اچانک جہاد اور دہشت گردی میں فرق بیان کئے بغیر ایسی تاویلات کو گھسیٹ لاتے ہیں جن کا کوئی سر پیر موضوع سے نہیں جڑتا اور پھر ایک ہی سانس میں ایک ہی پیرایہ میں حیات بعد از زندگی اور جہاد جیسی انتہائی حساس دینی اساس اور اسلام کے مطابق دنیا بھر کے مسلمانوں کے ایمان کے جزو لاینفک کو نشانہِ ستم بنایا جاتا ہے
حالانکہ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ حیات بعد از زندگی کے علاوہ جو کہ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے دنیا میں زندہ رہنے اور ایک باوقار زندگی گزارنے کے لئے مزید لوازمات کے ساتھ تعلیم اور اعلٰی فکر بھی ضروری ہے اور اسلام بھی اسی بات کی دعوت فکر دیتا ہے ۔ نیز پاکستان میں جاری ننگی دہشت گردی سراسرغیر اسلامی ہے ۔ اس کا اسلام کے اہم فریضے جہاد سے کوئی تعلق نہیں
مناسب نہیں کہ پاکستان کا ایک مخصوص طبقہ ہر وقت اسلام کے نام لیواؤں پہ تنقید کرتا رہے کہ انہوں نے تعلیم کے لئے یہ نہیں کیا یا انہیں تعلیم کے لئیے یوں کرنا چاہئیے تھا ۔ جبکہ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو طبقہ پاکستان کے وسائل پہ بلا شرکت غیرے تصرف اور دسترس رکھتا ہے ہر دم اسلام کا نام لینے والوں کے خلاف چوکس رہتا ہے ۔ پاکستان میں یہ طبقہ پاکستان کے دوسروں شعبوں کی طرح پاکستانی تعلیمی شعبے میں بھی پاکستانی قوم کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے بدلے گرانقدر مشاہرے اور مراعات پاتا ہے یعنی اپنی قیمت پوری وصول کرتا ہے جبکہ یہ طبقہ پاکستان کے لئے کسی قابلِ عمل سرکاری تعلیمی پالیسی کو باسٹھ سالوں سے وضح کرنے میں ناکام رہا ہے اور اسی نسبت سے جن پہ پاکستانی قوم کو تعلیم یافتہ کرنے کی پالسیز بنانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے خود انہوں نے پاکستان کی باسٹھ سالہ تاریخ میں کسی میدان میں کونسا کارنامہ انجام دیا ہے جسے بیان کیا جاسکےِ ؟
پاکستان میں عوام کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی ذمہ داری مدراس یا ان لوگوں پہ نہیں آتی جو ریاست سے ایک پائی لئے بغیر اپنی سی سعی کر رہے ہیں بلکہ یہ ذمہ داری کسی بھی عام سے ملک کی طرح حکومت پاکستان اور ریاستی اداروں پہ عائد ہوتی ہے ۔ وفاقی اور صوبائی وزارتیں محض نمود نمائش یا من پسند افراد کا روزگار لگانے کے سہل طریقوں کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے شہریوں کو تعلیم و شعور سے روشناس کرنے کے لئے قائم کی گئی ہیں اور پچھلے باسٹھ سالوں سے پاکستانی حکومتوں نے زندگی کے باقی شعبوں کی طرح حصول تعلیم میں جو غفلت پاکستانی عوام کے بارے میں برتی ہے وہ ناقابل معافی اور ناقابلِ بیان ہے
یہاں یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ لندن میں دہشت گردی کے سانحے میں ملوث افراد کا پاکستانی مدرسوں سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ حال میں پاکستان کے شہر سرگودھا سے جو پانچ امریکی گرفتار ہوئے وہ امریکن تھے اور امریکی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔ القاعدہ نامی دہشت گرد تنظیم سے وابستہ سرکردہ افراد کی ایک بڑی اکثریت مغربی یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہے ۔ تو کیا ایسے افراد کو دہشت گردی پہ مائل کرنے میں مغربی یونیورسٹیز کو قصوروار گردانا جائے ؟ حکومت پاکستان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والے امریکی اداروں کو بھی اس بات کا علم ہے کہ پاکستانی مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم نہیں دی جاتی جبکہ پاکستان میں دہشت گردی کے لئے خام مال بکثرت ملنے کے اسباب میں ایک بڑا سبب غریبی ۔ مفلوک الحالی اور معاشرے میں پائی جانے والی شدید فرسٹریشن ہے ۔ اسکے باوجود تنظیم المدارس اور دوسری تنظیموں کا مؤقف یہ ہے اگر کسی ادارے کے کچھ افراد کا دہشت گردی میں ملوث ہونے کا شُبہ ہو تو ان کے خلاف ضرور کاروائی کی جائے مگر اسکا قصور پاکستان کے سب مدارس پہ مت ڈالا جائے
ان مدرسوں یا ان جیسے اداروں نے پاکستان کی غریب آبادی کی خاصی تعداد کو مفت رہائش اور مفت کھانے کے ساتھ تعلیم سے آراستہ کیا ہے جو کہ کُل خواندہ آبادی کا 35 فیصد بنتا ہے اور جو ریاست پاکستان کی ذمہ داری تھی ۔ کسی بھی معاشرے میں اگر ریاست کے اندر ریاست قائم ہوتی ہے یا لوگ قانون و عدلیہ پہ اعتماد کرنے کی بجائے اپنے فیصلے خود کرنے لگتے ہیں تو اس کا سبب ریاستی اداروں کی بدنظمی ، غفلت ، بد دیانتی اور نااہلی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں ریاست مطلوبہ فرائض پورے کرنے میں ناکام رہتی ہے اور پاکستان میں باسٹھ سالوں سے ریاستی اداروں اور انکے وسائل پہ قابض لوگ کون ہیں اس بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ کوئی بھی ہوں مگر پاکستان کی مسلمان اکثریت کی نمائیندگی نہیں کرتے مگر پاکستان کی اکثریت کے وسائل پہ بے جا تصرف رکھتے ہیں ۔ ہاں مدرسوں میں حصول تعلیم کے طریقہ کار پہ بحث کی جاسکتی ہے مگر مدرسوں کے منتظمیں کے خلوص نیت پہ شک نہیں کیا جاسکتا
پاکستان میں غرباء کی مدد کرنے والے بجائے خود غریب مگر مسلمان لوگوں کے خلاف اگر کسی کے کوئی ذاتی یا خاص مقاصد نہیں تو ایسے میں پاکستان میں مفت تعلیمی ادارے چلانے والوں کو الزام دینے کی بجائے ایسے فلاحی اداروں کی ستائش کرنی چاہئیے جو حکومتی اداروں کی نااہلی کی وجہ سے حکومت کے فرائض پورے کرنے میں ریاست کا ہاتھ بٹاتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے اداروں کی حکومت مناسب رہنمائی اور مدد کرے تاکہ یہ ادارے اور مدرسے پاکستان کی قومی اور تعلیم کی جدید اسپرٹ میں شامل ہو سکیں
میں جاوید گوندل صاحب سے متفق ہوں۔
جاوید صاحب کا نقطئہ نظر بڑا متوازی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تبصرہ اپنے موضوع کوچونکہ محیط ہے اس لئے کہنے کو کچھ نہیں چھوڑتا
اللہم بارک فی علمک وسنک و مالک
بہت اچھا تبصرہ کیا تھا جاوید گوندل صاحب نے میں بھی متفق ہوں ان سے