قومی اسمبلی میں بڑا اچھا سوال اُٹھا گیا ہے کہ جس شخص کے پاس کسی غیر مُلک کی شہریت ہو اُسے کوئی اہم ملازمت نہ دی جائے اور نہ ہی کسی اسمبلی کا رُکن بنایا جائے اور جو اس وقت ہیں اُنہیں فارغ کر دیا جائے ۔ اللہ کرے یہ قانون بن جائے بلکہ اسے آئین کا حصہ بنا دیا جائے
لیکن ایک کمی رہ گئی ۔ اس میں یہ بھی شامل ہونا چاہیئے کہ جس کے پاس غیر مُلکی شہریت ہو وہ پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کا رہنما یا قائد نہیں بن سکتا
بجا ارشاد فرمایا آپ نے۔ اس طرح کم از کم یہ لوگ اتنا سوچیں گے کہ انہیںبھی یہیں رہنا ہے۔
سلام عرض ہے
آپ پر لگتا ہے افضل صاحب کا اثر ہوگیا ہے کیسی باتیں کرنے لگے ہیں وہ بھی الٹے سیدھے سوال پوچھتے رہتے ہیں اور اللہ کے دشمنوں سے انصاف اور ایمانداری کی توقع رکھتے ہیں
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
ایک تحریر نے آنکھیں نم کردیں آپ بھی پڑھیں
محمد احمد صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ
احمد صاحب
بولیں نہیں تو حق کا پتہ کیسے چلے گا ؟
ہم بھی آپ سے متفق ہیںبلکہ قانون میںیہ بھی شامل ہونا چاہیے کہ کوئی بھی سابق حکمران اپنی باقی ماندہ زندگی پاکستان میں گزارنے کا پبند ہو گا اور اگر وہ باہر جائے تو دوسرے ممالک اسے واپس بھیجنے کے پابند ہوں گے۔
انکل جی تجویز تو بالکل درست اور صائب ہے لیکن عمل اس پر ہونے کا نہیں۔
ااچھی تجویز ہے.
تجویز تو سو فیصد قابل تقلید ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی قانون بھی بننا چاہیے کہ تمام پاکستانی ایک مخصوص عرصہ (مثلاً پانچ یا دس سال) بعد ملک واپس آکر اپنی شہریت renewal کروائیں۔
اور يہ بھی کہ جس کی کرسی کا وقت ختم ہو وہ بھی عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد دس سال تک ضروری پاکستان ميں رہے يعنی بھاگنے نہ پائے ادھر سے کما کما کر لے جاتے ہيں باہر خرچ کر کے پھر سيزن لگانے آ جاتے ہيں
افضل ۔ خُرم ۔ فرحان دانش اور محمد اسد صاحبان و اسماء صاحبہ
ہاں ایسا ہی ہونا چاہیئے ۔ ذولفقار علی بھٹو کے بادشاہ بننے سے قبل یہ قانون تھا کہ غیر ملکی شہریت رکھنے والا یا جس کی بیوی غیرملکی ہو وہ رکن اسمبلی تو درکنار کسی بھی اہم عہدہ پر فائز نہیں ہو سکتا ۔ مزید یہ تھا کہ کوئی سرکاری ملازم یا نمائندہ عہدہ سے علیحدہ ہونے یا ریٹائر ہونے کے بعد پانچ سال تک بغیر حکومتِ وقت سے باقاعدہ تحریری اجازت کے ملک سے باہر نہیں جا سکتا حتٰی کہ حج پر بھی نہیں ۔
یہ قوانين ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ختم کئے گئے
میں سرکاری کام سے ملک سے باہر جا رہا تھا میرے پاس حکومت کا خریدا ہوا ٹکٹ تھا جسے دیکھتے ہی واضح ہو جاتا تھا کہ مجھے حکومت بھیج رہی ہے مگر مجھے کراچی ایئر پورٹ پر روک لیا گیا ۔ میرے پاس فرسٹ کالس کا ٹکٹ تھا ۔ غلطی یہ ہوئی کہ خط میرے بریف کیس میں تھا ۔ میرے سوٹ کیس میں کافی جگہ خالی تھی پی آئی اے کے اسٹیشن منیجر نے پوچھا ” اس بریف کیس کی آپ کو فلائیٹ میں ضرورت پڑے گی؟” میرے نہیں کہنے پر اُس نے میری ہمدردی میں کہ وزن نہ اُٹھانا پڑے بریف کیس سوٹ کیس کے اندر رکھ دیا اور سوٹ کیس اندر چلا گیا ۔ میری خلاصی اس طرح ہوئی کہ پی آئی اے کے اسٹیشن منیجر نے ایف آئی اے کے افسر کو جو ایک آرمی میجر تھا کہا “ہمیں اس افسر کو جہاز پر چڑھانے کا حکم ہے اگر یہ نہیں گئے تو جہاز کی روانگی میں تاخیر ہو گی ۔ میں ڈسپیچ آپ کے خلاف بھیج رہا ہوں”
جناب افتخار اجمل صاحب آپ کونسا خط لے کر جا رہے تھے واضع کر ديں کہيں ڈاکٹر قدير کے ساتھی ہونے کے شبہہ ميں پھڑ نہ ليے جائيں
اسماء صاحبہ
کوئی خطرناک خط نہیں تھا ۔ اُس خط کا ذکر کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ مجھے حکومت نے مُلک سے باہر بھیجا ہے اور پوچھنے پر مجھے ایئرپورٹ پر دکھانا تھا
میری آپ سے اور باقی قارئین سے درخواست ہے کہ تبصرہ کرنے سے قبل متعلقہ عبارت کو دھیان سے پڑھ لیا کریں ۔ استثناء صرف عبداللہ صاحب اور عنیقہ ناز صاحب کو حاصل ہے کیوں کہ اُن کو سمجھانے والی اُردو مجھے نہیں آتی
اسکو انکل جی خط نہيں کہتے اين او سی کہتے ہيں خط سے مجھے لگا کوئی راز و نياز والی تحرير تھی جو آپ ليکر جا رہے تھے
اسماء صاحبہ
میرے علم میں اضافے کا شکریہ ۔ میرا خیال تھا کہ این او سی جسے کہتے ہیں وہ پورا لفظ نو اوبجیکشن سرٹیفیکیٹ ہے ۔ میرے پاس جو خط تھا اس میں کہیں بھی این او سی یا نو اوبجیکشن سرٹیفیکیٹ کا لفظ نہیں تھا ۔ یہ ایک گورنمنٹ لیٹر تھا جس میں لکھا تھا کہ افتخار اجمل بھوپال کو حکومت پاکستان نے فلاں ملک میں ایڈوائزر مقرر کیا ہے اور وہ فلاں تاریخ کو چلاں فلائٹ نمبر کے ذریعہ فلاں جگہ جا رہا ہے ۔ اُسے ہر قسم کی سہولت بہم پہنچائی جائے ۔ کیا اسے این او سی کہا جائے گا ۔ میں جب 1985ء میں حج کرنے گیا تھا اُس وقت بھی مجھے این او سی نہیں دیا گیا تھا بلکہ ایک حط دیا گیا تھا جس میں لکھا تھا کہ میں حکومتِ پاکستان کی اجازت سے فلاں تاریخ کو فلاں فلائٹ پر حج کرنے جا رہا ہوں
بھولے بزرگو یہی تو این او سی ہوا بچاری اسماء بھی کہتی ہوگی ہمارے بڑے کتنے سادہ تھے
اجمل بھای کا خط واقعی این او سی تھا
گو اس میں یہ نہیں لکھا گیا تھا۔ گورنمنٹ کی طرف سے “باھر” جانے کا تھا۔ میں 1961 میں نکلا تھا مگر پراءیویٹ -تو میرا این او سی دوسری طرح لکھا گیا تھا اور مجھے ھیلتھ ڈپارٹمنٹ سے وہ نو ابجیکشن سرٹیفکیٹ بنوانے مین بڑے پاپڑ بیلنے پڑے تھے
حالنکہ میں پوسٹ گریجوایٹ ڈگری میں داخلہ لیکر نکلا تھا – اس وقت قانون پر آجکل کی نسبت زیادہ عمل درامد ہوتا تھا
بھائی وہاج احمد صاحب
آپ نے درست کہا ۔ 1971ء تک لوگ عام طور پر قانون کا احترام کرتے تھے سرکاری ملاز اس کے نفاذ کی پوری کوشش کرتے تھے