میرے ہموطنوں میں اکثر کی یہ عادت ہے کہ جو لوگ اُن کے ہم خیال نہ ہوں اُنہیں جاہل سمجھتے ہیں ، مختلف گھٹیا القابات سے نوازتے ہیں اور بعض اوقات اُن کا تمسخر بھی اُڑاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو میرا مشورہ ہے کہ دوسرے کی بات کو رَد کرنے اور القابات سے نوازنے سے قبل کم از کم کہی گئی بات کا جواز معلوم کر لیا کریں تاکہ اُن غلطیوں [بعض اوقات گناہوں] سے بچ سکیں جو کم عِلمی کی وجہ سے اُن کا روزانہ کا معمول بن جاتے ہیں ۔ اس تحریر کی ضرورت اسلئے محسوس ہوئی کہ ایک بلاگ پر بہت پڑھے لکھے مبصر نے مندرجہ ذیل تبصرہ لکھا تھا
اس جگہ پہ ایک پی ایچ ڈی خاتون بھی تھی۔ جو اس اصرار میں ان حضرت کے ساتھ شامل تھیں کہ بچے کی ولدیت میں اسکے اصل باپ کا ہی نام ہونا چاہئیے۔ وہ الھدی ادارے سے کوئی دو سالہ کورس کر چکی تھیں مگر ان صاحب کی طرح انسانی رو ح سے ناواقف تھی
اَن پڑھ آدمی ایسی بات کرے تو درگذر کیا جا سکتا ہے لیکن کہنے والا اچھا خاصہ پڑھا لکھا ہو تو اُس میں اور اَن پڑھ میں کیا فرق رہ جائے گا
سورت ۔ 33 ۔ الاحزاب ۔ آیت 5 ۔
ادْعُوھُمْ لِآبَائِھِمْ ھُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّہِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءھُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِہِ وَلَكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّہُ غَفُورًا رَّحِيمًا
ترجمہ ۔ مومنو! لےپالکوں کو اُن کے (اصلی) باپوں کے نام سے پکارا کرو۔ کہ اللہ کے نزدیک یہی بات درست ہے۔ اگر تم کو اُن کے باپوں کے نام معلوم نہ ہوں تو دین میں وہ تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور جو بات تم سے غلطی سے ہوگئی ہو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں۔ لیکن جو قصد دلی سے کرو (اس پر مواخذہ ہے) اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے
لے پالک کا مسئلہ کچھ پیچیدہ ہے ۔ بچہ گود لینے والی عورت اور اس کی بیٹیوں کیلئے بچہ نامحرم ہی رہے گا ۔ اگر بچی گود لی تو اُس بچی کیلئے گھر کے تمام لڑکے یا مرد نامحرم ہی رہیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان عام طور پر بچی گود لیتے ہیں تاکہ کہ کم از کم گود لینے والی ماں کیلئے کوئی مسئلہ نہ بنے ۔ اسی لئے کچھ عورتیں اپنے یا اپنے خاوند کے سگے بہن یا بھائی کا بچہ یا بچی گود لیتے ہیں کہ وہ گود لینے والی اور اُس کے خاوند کیلئے محرم ہوتا یا ہوتی ہے
سورت ۔ 49 ۔ الحجرات ۔ آیات 11 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ آپس میں ایک دوسرے پہ طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو ۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے ۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں
سورت ۔ 49 ۔ الحجرات ۔ آیت 12 ۔ اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں
سورت ۔ 33 ۔ الاحزاب ۔ آیت 58 ۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت سے) جو انہوں نے نہ کیا ہو ایذا دیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا
سورت ۔ 31 ۔ لقمان ۔ آیات 18 ، 19 ۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر۔ نہ زمین میں اکڑ کر چل ۔ اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا ۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ ۔ سب آوازوں سے زیادہ بُری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے
آپ نے قرآنِ کریم کی جن آیاتِ مبارکہ کا حوالہ دیا اور دیگر آیات جو احکاماتِ الہٰی سے متعلقہ ہیں۔ انکے بارے پاکستانی معاشرے میں لوگ عام طور پہ اس وقت غوروفکر کرتے ہیں جب انکی اپنی ذات پہ بن آتی ہے یا کسی وجہ سے انکا حسب نسب ، احساسِ تفاخر، پُرتعیش زندگی۔ یا کسی عزیز ، اولاد یا پیاری ہستی کی بیماری یا مرنے کی وجہ سے دنیا کی بے ثباتی کا احساس ہوتا ہے۔ دنیا میں کم عقل ترین وہ ہے جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ خسارے کا سودا کر رہا ہے مگر محض اپنی ذاتی سوجھ بوجھ کو اہم سمجھتے ہوئے یا پھر یہ کہہ کر کہ جب وقت آیا تو دیکھ لیں گے۔یہ سوچ کر مسلسل خسارے میں رہے۔ حالانکہ جو ذی روح اس دنیا میں آتا ہے اسے ایک دن واپس جانا ہے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے آج تک کسی کو مفر نہیں ہوا۔ لیکن اس کے باوجود انسان مسلسل انکھیں بند کر کے ان راستوں پہ چلتا رہتا ہے کہ ابھی وقت ہے حتٰی کہ وہ وقت آن پہنچتا ہے اور وہ پشیماں ملتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے پاکستان کی ایک سیاسی اور علمی شخصیت سے ایک اؤلمپیک اسٹدیم کے پاس کھڑے اؤلمپک مقابلوں کی تیاری اور اؤلمپک مقابلوں کے آغاز کے جشن کی تفضیلات کی جزئیات کافی دیر تک سننے کے بعد وہ صاحب واپس پلٹے اور اتنی لمبی چوڑی تفضیلات پہ انہوں نے صرف دو لفظی تبصرہ عنائیت کیا ۔مجھے مخاطب کر کے فرمانے لگے “جاوید صاحب یہ نئے مذاھب تشکیل ہورہے ہیں” یعنی انکے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ زندگی کی ایک عام سی روز مرہ کے معمول “کھیل کود” کو اس طرح ستائش، تقدس، اسرار، تعیش اور رسوم میں بدل دیا ہے کہ اسکے ارد گرد اربوں کھربوں کی تجارت اور عیار تاجروں کی صبحیں اور شامیں گھوتی ہیں۔ جب کہ حقیقت میں وہ وہی عام سے کھیل ہیں جو صبح شام دنیا بھر میں پاکستان کی طرح گلی محلوں اور میدانوں میں سبھی کسی نہ کسی صورت کھیلتے ہیں اور ابتدائے آفرینش سے کھیلتے آئے ہیں۔
پاکستان میں موجودہ طرزِ سیاست جس میں کچھ لوگ ملک و قوم، نظریات ، اعلٰی آدرشوں کی تجارت صبح شام کرتے اربوں کی وارداتیں ڈال رہے ہیں۔ اور اقتدار کے مزے لوٹنے والے فوجی ڈکٹیٹروں سے لیکر سیاسی مداریوں تک نے عوام کو کرپشن ۔ گھٹیا اخلاقی اقدار ۔ جاہل ۔ لاعلم۔ غریب۔ مفلس اور تقسیم کر کے اپنے الؤ سیدھے کیے ہیں۔ اور عام آدمی فکر معاش میں ہر قسم کی دیانتداری و اخلاق کو خیر آباد کہہ چکا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورا معاشرہ شیطان کی انگلی تھامے رواں دواں ہے۔ جسطرح ہم خدا کو بھول کر شیطانی عادات و اخلاق کو اپنا رہے ہیں۔ جس طرح کی ہماری سیاسی پارٹیاں اور ہماری عوام کاایسی گھٹیا سیاست پہ باہم دست و گریباں ہونا، خود نماز نہیں پڑھنی خدا کے احکامت کی تعمیل نہیں کرنی اور قدم قدم پہ دوسروں کو کافر قرار دیناحتٰی کہ اسلام میں سب سے بڑے جرم قتک تک سے دریغ نہ کرنا، ہیرا پھیری، قدم قدم پہ بد دیانتی،رشوت، عدم برداشت۔ عدم تحمل۔ جعلی تفاخر، جھوٹ، دھوکہ، الغرض ہر وہ شیطانی عمل جس سے اللہ سبحان و تعالٰی اور اسلام نے منع فرمایا ہے۔ جو کسی بھی مہزب معاشرے میں روا نہیں۔ اور یہ سب ہر آنے والے دن زروشور سے بڑھ رہا ہے ۔ اسمیں جاہل اور اہل علم سبھی شامل ہیں۔ اور اصل حقیقت کہ ہم مسلمان ہیں اور اگر ہم اس پہ بہ حیثیت مسلمان ایمان رکھتے ہیں تو ہمارے ایمان اور اخلاق اسقدر اعلٰی ہونے چاہئیں کہ غیر مسلم بھی ہماری تقلید کریں ۔ یہ روزمرہ کا قومی اخلاقی بگاڑ جسے ہم مذھبی فریضے کی طرح اپناتے چلےجا رہے ہیں۔کیا یہ بھی نیا مذھب نہیں۔؟
کیا ہم خدا کو بھول کر شیطانی ٹولے میں شامل ہونے جارہے ہیں۔؟
نوٹ۔: مندرجہ بالا تبصرے میں اکثریت اور عمومی حالات پہ بات کی گئی ہے۔ اس تبصرے سے کسی کی دل آزاری مقصود نہیں بلکہ محض اپنے گریبان میں جھانکنے کی ایک ادنٰی سی کوشش ہے۔ اگر ہم خود اپنا محاسبہ کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو پھر ہمیں دنیا کی کوئی طاقت تباہ ہونے سے نہیں بچا سکتی۔ اور محاسبے کے لئیے پہلی شرط اپنا تنقیدی جائزہ ہوتا ہے۔
بہر کیف اگر کسی کی دل آزاری ہو تو اس دل آزاری پہ بیشگی افسوس قبول کیا جائے۔
جاوید گوندل صاحب
يہی طور تو پریشان کُن ہے
ajmal uncle phir is hal bhi batayen. kis mehram na mehram ki waja se koi bhi un bachon ko adopt nah karay to un bicharon ka kia hoga?? islam itna tang nazar nahi koi to rasta hoga na, plz is ka hal bhi bata dain.
زائرہ صاحبہ
میں نے یہ تو نہیں لکھا کہ کوئی بچہ گود نہ لیا جائے ۔ نادار یا بے سہارا بچہ پالنا بہت ثواب کا کام ہے ۔ لیکن اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا حُکم اپنی جگہ ہے کہ بچے کو اس کے اصلی باپ کے نام سے پکارا جائے ۔ اگر کسی وجہ سے بچے کے باپ کا نام نہ معلوم ہو تو جس عورت نے گود لیا ہے اُس کے خاوند کے نام کی بجائے کوئی اور نام رکھا جائے
دوسری بات جو میں نے لکھی وہ لوگوں کا رویّہ ہے ۔ یہ لازم عمل نہیں ۔ محرم نامحرم ہونا ایک الگ چیز ہے ۔ اور ہم عام زندگی میں جو طریقہ نامحرم کیلئے رکھتے ہیں وہ اس کیلئے رکھنے میں کوئی دُشواری نہیں ہونا چاہیئے
عورت کیلئے خاوند کے بھائی اور مرد کیلئے بیوی کی بہنیں بھی نامحرم ہوتے ہیں ۔ لیکن اُنہیں ہم گھر میں رکھتے ہیں ۔ گھریلو ملازم یا ملازمہ بھی نامحرم ہوتے ہیں اور گھر کے اندر ہی رہتے ہیں ۔ صرف وہ احتیاط کرنا ہوتی ہے جو نامحرم کیلئے ضروری ہے