سیاستدان عجیب چیز ہوتے ہیں مگر ہمارے مُلک کے سیاستدانوں کا تو جواب ہی نہیں اور اُن سے بڑھ کر اُن کے پیروکار لاجواب ہیں ۔ ہمارے مُلک کا سب سے بڑا سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کو کہا جاتا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے ایک جلسہ عام سے خطاب کیا ۔ اپنے فنِ تقریر کو بروئے کار لاتے ہوئے حاضرینِ جلسہ کے جذبات کو خُوب اُبھارا ۔ آخر میں تقریر اس مکالمہ پر ختم ہوئی
بھٹو صاحب ۔ “لڑو گے ؟”
حاضرین پورے جوش کے ساتھ ۔ “ہاں”
بھٹو صاحب ۔ “مرو گے ؟”
حاضرین پورے جوش کے ساتھ ۔ “ہاں”
بھٹو صاحب “جاؤ مرو ” کہتے ہوئے چلے گئے اور حاضرین جئے بھٹو کے نعرے لگانے لگے
پر اس لاجواب سیاست کے علاوہ کوئی اور حل بھی تو نہیں ۔۔ ابھی بھی آپ کسی پی پی کے جیالے کو پکڑ لو تو وہ اپنی حکومت کی کارکردگی پر شرمندہ ہونے کے بجائے فخر کرے گا ۔
اب اس عجب فخر کی کیا وجوہات ہونگی ؟ ۔۔ کوئی بتلائے
“لڑو گے ؟” “ہاں” مگر پاکستان کیلئے
“مرو گے ؟” ۔ “ہاں”مگر پاکستان کیلئے
ہمارے ہاںہر سیاسی جماعت سے وابستہ، بلکہ کئی نیوٹرل لوگ بھی اکثر میںنے دیکھا ہے کہ بس انتہائی جانبداری کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ہماری ایک پروگرام منیجر ہے، اس کے سامنے اگر کوئی پیپلز پارٹی بارے تنقید بھی کرے تو وہ کاٹ پھینکنے کو دوڑتی ہے۔ اور اسی طرحہمارے ایک عزیز ہیں، ان کے سامنے اگر نواز شریف پر تنقید کر دیںتو بس سمجھ جائیںآپ کی خیر نہیں۔ نا جانے ہم اتنے جذباتی کیوںہوتے ہیں، میںتو سمجھتا ہوںکہ ان تمام شعبدہ بازوںبارے بات کرنا بھی اپنا وقت اور خون جلانے جیسا ہی ہے۔
واہ واہ کیا کمال ہے ، پی پی اور ایم کیو ایم میں صرف یہ فرق ہے کہ پی پی نیشنل لیول پر حکومت کرتی ہے
فرحان دانش صاحب
درست کہا آپ نے
عمر احمد بنگش صاحب
درست کہا آپ نے
عمر کی بات سے اتفاق ہے۔
یہ حال صرف بھٹو صاحب کا ہی نہیں بلکہ مجھے تو ایسا لگتا ہے ہمارے سارے سیاست دان پردے پیچھے یہی کہتے ہیں۔