محمد خُرم بشیر بھٹی صاحب نے امریکی شہر کے کسی ہوٹل میں چھوڑی چوڑیاں مل جانے کا لکھا تو مجھے کچھ گذرے واقعات یاد آئے جن میں سے دو
کسی زمانہ میں اسلام آباد میں اتوار بازار جی ۔ 8 اور جی ۔ 9 کے درمیان لگا کرتا تھا ۔ میں نے ایک خُشک میوہ کی دکان سے کافی خشک میوہ خریدا ۔ اس کو پیسے دے کر چلا آیا ۔ رات کو یاد آیا کہ میں نے تو خشک میوہ خریدا تھا ۔ اگلے اتوار کو میں اس دکان والے کے پاس گیا تو اس نے سب تھیلے ایک بڑے تھیلے میں ڈال کر رکھے ہوئے تھے مجھے دے دیئے
پرانی بات ہے ہمارے ہاں سیٹیلائیٹ ٹاؤن راولپنڈی میں ایک نوجوان مہمان آیا ۔ سلام دعاکے بعد گپ شپ کرتے اچانک اُسے یاد آیا کہ اپنا سامان تو اُس نے ٹیکسی ہی میں چھوڑ دیا ۔ ٹيکسی جا چکی تھی اور اسے نمبر بھی معلوم نہ تھا ۔ چند گھنٹے بعد میں کسی کام سے جا رہا تھا کہ میرے پاس ایک ٹیکسی آ کر رُکی ۔ درمیانی عمر کا ٹیکسی ڈرائیور پوچھنے لگا “میں ایک سواری دوپہر کو اس علاقے میں لایا تھا ۔ بعد میں ایک اور سواری کو بٹھایا تو معلوم ہوا کہ پہلی سواری اپنا سامان چھوڑ گئی ہے ۔ دوسری سواری کو اُتار کر میں واپس آيا اور ایک گھنٹہ سے ان سڑکوں پر چکر لگا رہا ہوں مگر سمجھ میں نہیں آ رہا کہ سواری کہاں اُتاری تھی”
میں اُسے اپنے گھر لے گیا تو اُس نے پہلے ہمارے گھر کو اور پھر مہمان کو پہچان کر سامان دے دیا”۔ ہم نے اُسے انعام دینا چاہا تو نہ لیا اورکہنے لگا “میں ایک گھنٹہ سے انعام کیلئے نہیں پھر رہا تھا”
سبحان اللہ۔ ایسا ہی ہوا کرتا تھا انکل۔ اب بھی شائد ہوتا ہو۔
اسلام علیکم
یاد نہیں کہ کس کتاب میں یہ واقعہ پڑھا تھا کہ ایک دفعہ لارڈ کرزن دہلی کی جامع مسجد کے دورے پر آیا تو اس کا پرس ہجوم میں دھکم پیل کی وجہ سے گر گیا ۔ لارڈ جب تھوڑا آگے گیا تو پیچھے سے آ کر ایک فقیر نے اسے اس کا گرا ہوا پرس دینا چاہا ۔ لارڈ نے تعجب سے پوچھا کہ تم اس پرس کو رکھ بھی سکتے تھے مگر واپس کیوں کیا ۔ فقیر نے مودبانہ کہا کہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہوں اور آپ حضرت عیسی علیہ سلام کے ۔ روز قیامت میں نہیں چاہتا کہ آپ کے نبی میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کےہمراہ میری شکایت کریں اور میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میری وجہ سے شرمندگی ہو ۔
محمد ریاض صاحب
اچھا واقعہ بتایا ہے آپ نے ۔ سُبحان اللہ
اس دنیا میں نیک لوگوں کی کمی نہیں۔