ہمارے مُلک میں ایک خطرناک مرض نفوذ ہو کر وباء کی طرح پھیل چکا ہے ۔ مزید خطرناک یہ کہ جو لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں انہیں اس کا احساس نہیں اور وہ اسے مزید پھیلانے کا مُوجب بن رہے ہیں ۔ اَن پڑھ اور پڑھے لکھے ہونے کی تمیز کے بغیر یہ مرض سب کو اپنے قابو میں لے چکا ہے ۔ مرض ہے ۔ “کوئی کچھ نہیں کرتا” ۔ “یہاں کچھ نہیں ہو سکتا” ۔ “پاکستان ہے ہی ایسا”۔ کہنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ کہہ کر فرض پورا ہو گیا ۔ سوچنا یہ ہے کہ بہتری کیسے آئے گی ؟ ایسا کہنے والے لوگ خود تو تعمیرِ ملت کیلئے ایک تِنکا بھی نہیں توڑتے لیکن تقریروں اور تحریروں میں کسی سے پیچھے نہیں ۔ تھوڑا سا گھُوم پھر کر تحقیق کی جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ یہ استدلال حقیقی کم اور تخیّلاتی زیادہ ہے
میری عادت ہے کہ کوئی ميری کتنی ہی حوصلہ شکنی کرے میں اپنی کی سی کوشش ضرور کرتا ہوں اور اکثر اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ مجھے کامیاب کرتا ہے ۔ میں صرف پچھلے تین ماہ میں وقوع پذیر ہونے والی دو مثالیں بیان کروں گا
جولائی 2009ء میں ہم نے لاہور آ کر جس علاقے میں رہائش اختیار کی اُس کا پہلے کوئی عِلم نہ تھا نہ کوئی جاننے والا وہاں رہتا تھا ۔ اکتوبر کے مہینے میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی تھی کہ ہماری رہائشگاہ کی بجلی بار بار بند ہونے اور چلنے لگی ۔ محلے میں کسی سے پوچھا کہ واپڈا کا کمپلینٹ آفس کہاں ہے ؟ جواب ملا “ہم تو کبھی گئے ہی نہیں وہاں کوئی کام تو ہوتا نہیں”۔ میں نے گھر واپس آ کر بجلی کا بِل نکالا اور اُس پر پتہ ڈھونڈنے لگا کہ میری نظر پڑی لکھا تھا “بجلی کی شکائت کے سلسلہ میں اس نمبر پر اطلاع کریں”۔ میں نے ٹیلیفون کیا ۔ دو بار نمبر مصروف ملنے کے بعد مل گیا ۔ السلام علیکم کہنے کے بعد اپنا مسئلہ بتایا تو جواب ملا کہ ابھی آدمی دوسرے کمپلینٹ پر گیا ہوا ہے ایک ڈیڑھ گھنٹہ تک آپ کے پاس پہنچ جائے گا ۔ جب آدمی تین گھنٹے تک نہ آیا تو میں گاڑی لے کر نکلا ۔ قریب ہی ایک دفتر تھا وہاں جا کر پوچھا کہ واپڈا کا کمپلینٹ آفس کہاں ہے ؟ جواب پہلے والا ہی ملا ۔ اسرار کرنے پر کہا کہ ” اُدھر ڈیفنس میں کہیں ہو گا “۔ میں ڈیفنس کی طرف چل پڑا اور پوچھتے پوچھتے لیسکو [LESCO] کے دفتر پہنچ گیا ۔ وہاں کمرہ شکایات میں جا کر مدعا بیان کیا تو بتایا گیا کہ ” آدمی جا چکا ہے آپ کے گھر پہنچنے والا ہو گا” اور مجھے اُس کا موبائل فون نمبر لکھ کر دے دیا ۔ میں نے گھر پہنچ کر جب دیکھا کہ وہ نہیں پہنچا تو اُسے ٹیلیفون کیا ۔ اُس نے کہا “بس میں اِدھر سے فارغ ہو گیا ہوں اور اب آپ کے پاس ہی آ رہا ہوں”۔ پانچ منٹ میں وہ پہنچ گیا اور ہمارے گھر کی بجلی درست کر کے چلا گیا
جنوری 2010ء شروع ہوتے ہی بہت سردی شروع ہو گئی ۔ قدرتی گیس کا پریشر جو پہلے ہی زیادہ نہ تھا اتنا کم ہو گیا کہ روٹی پکنا مُشکل ہو گیا ۔ میں نے گیس کا بل نکالا اور وہاں لکھے نمبر پر ٹیلیفون کرنا شروع کیا ۔ چوتھی بار نمبر مل گیا اور کمپیوٹر کی ریکارڈڈ آواز ڈیڑھ منٹ تک سنتا رہا پھر ایک لڑکا بولا “سر”۔ میں نے السلام و علیکم کہہ کر اپنی ببتا بیان کی ۔ اُس نے کہا اپنا کنزیومر نمبر بتایئے”۔ میرے بتانے پر اُس نے کہا آدمی 24 سے 48 گھنٹے کے درمیان پہنچ جائے گا اور ساتھ مجھے میرا شکائت نمبر لکھوا دیا ۔ ہفتہ کا دن تھا صبح کے 9 بجے تھے میں نے سوچا اتوار کی چھُٹی ہے آدمی پیر کو ہی آئے گا مگر اتوار کو شام 5 بجے گھنٹی بجی میں باہر نکلا تو ایک آدمی کہنے لگا “آپ نے گیس کا کمپلینٹ کیا تھا ۔ چیک کریں پریشر ٹھیک ہو گیا ہے”۔ میں نے بھاگ کر کوکنگ رینج کے پانچوں چولہے جلا دیئے اوردرست پاکر اُس شخص کا شکریہ ادا کیا
ڈوبتے ہوے دلوں کے لیے ایک سہارا تحریر لکھی آپ نے، جہاں ہر کوئی حالات اور واقعات کو پاکستان کے لیے برا قرار دے رہا ہے، مایوسی کا دور دورا ہے، ہر طرف ناامیدی پھیلائی جا رہی ہے، آپ نے اس بات کا احساس دلایا کہ پاکستان میں بھی کچھ کرنے والے موجود ہیں ، پاکستانی مرمٹ جانے والی قوم نہیں۔۔۔
جس قوم میں ڈاکٹر عبدالقدیر جیسے چیتے موجود ہیں وہاں کیا کچھ نہیں ہو سکتا، بس ارادہ کرنے کی دیر ہے۔۔۔۔
پھر تو ايک ايک شکايت بجلی اور گيس کی لوڈ شيڈنگ کی بھی ہو جائے دوڑے دوڑے چلے آئيں گے دونوں محکمے شکايت دور کرنے
السلام علیکم۔
کبھی کبھار میں سوچتا ہوں کہ “عام لوگوں” کی اس سوچ کا فائدہ ہم جیسے لوگوں کو ہوتا ہے جو آرام سے نہیں بیٹھ سکتے۔ کیونکہ اگر لوگ اسی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کے بجائے فوری طور پر شکایت درج کرواتے ہوتے تو شاید آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ عملہ کی دستیابی زیادہ مشکل ہو جاتی۔
لوگ بلا وجہ نہیں کہتے یہ یہ تحریر ثبوت ہے
خیر اچھے لوگ بھی موجود ہیں اور قربانی دینے والے بھی
ہم نے دنیا گھومی اور کیسی کیسی قوموں کو دیکھا یقین جانیئے پاکستان نعمت لگا اور بہت سی قومی خوبیوں کا بھی پتا چلا
مگر برائیاں بھی کم نہیں جو لوگ اسکے زیادہ زمہ دار ہیں انکے بارے میں میرا پاکستان پر تحریر کیا ہے
یاسر عمران مرزا صاحب
ابھی آپ دیکھ لیجئے گا کہ کچھ مبصرین مجھے غلط ثابت کرنے کی کوشش کریں گے
اسماء صاحب
اگر صرف اپنے گھر میں بیٹھے اعتراض کرنے والوں کی بجائے عملی قدم اُٹھانے والے لوگ ہوتے تو آج نہ بجلی کی ہمارے ملک میں کمی ہوتی نہ گیس کی
اول ۔ جو لوگ بجلی چوری کر رہے ہیں وہ حکومت میں شامل ہیں یا اُن کے ووٹر ہیں ۔ اگر بجلی کی چوری بند کی جائے تو واپڈا کو کم از کم 35 فیصد مزید آمدن ہو گی جس سے وہ بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کو ادائیگی کر سکیں گے اور وہ زیادہ بجلی پیدا کریں گے ۔ یہ نجی کمپنیاں بھی بینظیر بھٹو کے دور میں مال بنانے کیلئے اچھے خاصے منافع بخش پاور سٹیشن کوڑیوں کے مول بیچ کر پیدا کی گئیں
دوم ۔ حکمرانوں نے اپنے ذاتی خزانے مزید بھرنے کیلئے مختلف طریقوں سے بجلی پیدا کرنے والی کو کم بجلی پیدا کرنے پر مجبور کر دیا تاکہ لوڈ شیڈنگ کا بہانہ بنا کر ریٹل پاور سٹیشںوں کے کنٹریکٹ کئے جائیں اور مال بنایا جائے ۔ ان طریقوں میں سے ایک بجلی کمپنیوں کی ادائیگی روکنا بھی ایک بڑی وجہ ہے
اب آتے ہیں گیس کی طرف ۔ بینظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں اپنے بندوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے سی این جی گاڑیوں اور سی این جی پمپوں کا میلہ لگایا گیا ۔ جب یہ منصوبہ بنایا گیا تو اُس وقت کے چیئرمین اوگرا ڈاکٹر گلفراز احمد نے اس کی سخت مخالفت کی ۔ خیال رہے ڈاکٹر گلفراز فوج میں کرنل تھا ۔ ضیاء الحق سے بھٹو کے حق میں سوالات کرنے پر فوج سے ریٹائر کر دیا گیا تھا ۔ مزید میرے سمیت کئی انجنیئرز نے اخبارات میں مضامین چھپوائے کہ ملک کی 70 فیصد آبادی کا چولہا گیس سے جلتا ہے اور اُن کے پاس کوئی متبادل ایندھن نہیں ۔ گیس کی مقدار صرف 15 سال کیلئے کافی بتائی جا رہی ہے اسلئے گاڑیاں کو گیس پر نہ ڈالا جائے کیونکہ وہ پٹرول یا ڈیزل پر چل سکتی ہیں بلکہ مستقبل میں عوام کو مزید گیس مہیاء کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے تاکہ چولہے جلتے رہیں ۔ حکمرانوں نے اپنی جیبیں بھرنا تھیں سو بھر لیں اور ایکشن صرف یہ لیا گیا کہ ڈاکٹڑ گلفراز کو اوگرا سے ہٹا دیا جس پر اس نے استعفٰے دے دیا اور اپنے گھر بلوچستان جا بیٹھا ۔ میں تو 1992ء میں یعنی وقت سے 8 سال قبل ہی ریٹائرمنٹ لے کر گھر بیٹھا ہوا تھا اسلئے میرا کچھ بگاڑا نہ جا سکتا تھا ۔ اوگرا کے جن دو بڑے سینیئر انجیئرز نے اخبار میں مضامین دیئے تھے اُنہیں ریٹائر کر دیا گیا
محمد سعد صاحب
اگر سب لوگ ہمت کیا کرتے تو بجلی اور گیس کیا کسی چیز کی بھی کمی نہ ہوتی اور اتنی مہنگائی بھی نہ ہوتی
احمد صاحب
جو ربط آپ نے دیا ہے وہاں صرف ایکسپرس لکھا نظر آیا اور کچھ نہیں ۔ ویسے ہماری قوم کو برباد کرنے میں ان اخبارات کا بھی بڑا حصہ ہے جو خبریں اور مضامین زیادہ تر اپنی جیبیں بھرنے کیلئے لکھتے ہیں عوام کی بہتری کیلئے نہیں
نا معلوم کیوں کبھی لنک نہیں کھلتا
خیر ایکسپرس پر کبھی کبھی اوریا مقبول جان صاحب کا کالم آتا ہے کیا خوب لکھتے ہیں
ضرور پڑھا کریں ۔ اس میں ایک بہت اہم بات کی طرف نشاندہی کی تھی اور آپ بھی اسی طرف لکھتے رہتے ہیں ہو سکے تو پڑھ لیں
جی جنگ کی مثال لے لیں لٹے پٹے آئے تھے آج سب سے بڑا کاروباری گروپ ہے
ایسی ترقی ہم نے کبھی نہیں دیکھی آپ تو جانتے ہوں گے کیسے ضیاء دور میں مال بنایا
ایم کیو ایم کی آبیاری بھی اسی نے کی
ملک میں بے حیائی ، شیعت اور قادیانیت کے سب سے بڑے سپورٹر ہیں۔ ہم نے مغرب میں یہود اصل اخباروں کو بلکل اسی طرز پر کام کرتے دیکھا ہے۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو آپ کو ای میل میں انکے کام کرنے کا طریقہ بتاتے ہیں آپ اس پر کالم لکھیں، ان کی واردات کا بے نقاب ہونا کسی نا کسی کو بھلا تو دیگا
حکومت کے اشتہارات ہم نے باہر کہیں نہیں دیکھے یہ چکر بھی اپنے ہاں چلتا ہے
ماشاء اللہ۔ بہت اچھا کرتے ہیںآپ۔ لوگوں کی تو عادت ہے حوصلہ شکنی کی۔ اور جو دو واقعات آپ نےبیان فرمائے وہ بھی امید بندھانے والے ہیں۔
بہت خوب بڑی زبردست تحریر ہے۔ یہ مایوسی ہمارا بہت بڑا المیہ بن چکا ہے اور جب اس بارے میں کسی سے بات کی جائے تو لوگ آگے سے کہتے ہیں کچھ نہیں بن سکتا اس ملک کا۔ جبکہ یہاں نہ تو کوئی اپنے حق کے لئے آواز بلند کرتا ہے اور نہ ہی کسی اور طریقہ سے اس ملک کو ٹھیک کرنے کے لئے کوشش کرتا ہے بلکہ مسائل کا قانونی حل کرنے کی بجائے سیدھا سیدھا رشوت دے کر کام کرواتے ہیں اور پھر الزام اس ملک کو کہ یہ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔
ایم بلال صاحب
اسی لئے میں اسے قومی سانحہ کہتا ہوں