گزشتہ سال مارچ کے مہینے سے لے کر اب تک 38 ہزار 800 افراد کو مہلک اور ممنوعہ ہتھیاروں کے لائسنس جاری کیے جا چکے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں کلاشنکوف، ایم پی فائیو، جی تھری، اوزی شامل ہیں۔ زیادہ تر لائسنس وزیراعظم اور وزیر مملکت برائے امور داخلہ کے براہِ راست احکامات پر جاری ہوئے ہیں۔ یہ لائسنس پولیس کے تصدیق نامے یا لائسنس حاصل کرنے والے افراد کے ماضی کے ریکارڈ کی پڑتال کے بغیر جاری کئے گئے۔ اس کے علاوہ غیر ممنوعہ ہتھیاروں کے بھی ایک لاکھ لائسنس جاری کئے گئے۔ ان ہتھیاروں میں ریوالور اور پستول شامل ہیں لیکن اسی 21 ماہ کے عرصے کے دوران ان لائسنسز کا اجراء بھی پولیس کے تصدیق نامے کے بغیر کیا گیا ہے۔
وزیراعظم گیلانی نے ہتھیاروں کے لائسنس کے حوالے سے گزشتہ سال ستمبر میں بے مثال کوٹہ سسٹم متعارف کرایا جس کے تحت قومی اسمبلی اور سینیٹ کا ہر رکن ممنوعہ ہتھیاروں کے سالانہ 25 اور غیر ممنوعہ ہتھیاروں کے ماہانہ 20 لائسنس جاری کرسکے گا۔ وزیراعظم نے اس سلسلے میں ارکان صوبائی اسمبلی کو نوازا اور انہیں سالانہ غیر ممنوعہ ہتھیاروں کے پانچ لائسنس جاری کرنے کی اجازت دی۔ مارچ 2008ء کے آخری ہفتے سے لے کر جون 2009ء تک وزیراعظم گیلانی نے ممنوعہ ہتھیاروں کے 22 ہزار 541 لائسنس جاری کرنے کا حکم دیا۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے سادہ کاغذ پر احکامات جاری کئے جن پر ارکان قومی اسمبلی یا سینیٹرز نام تحریر کردیتے تھے۔ اپریل 2009ء میں وزیر مملکت برائے امور داخلہ کا عہدہ سنبھالنے کے 2 ماہ کے اندر مسٹر تسنیم احمد قریشی نے ریکارڈ تعداد میں غیر ممنوعہ ہتھیاروں کے 5 ہزار 986 لائسنس جاری کئے۔ ان میں 100 لائسنس ایسے بھی ہیں جو امریکی سفارتخانے کی جانب سے کنٹریکٹ پر سیکورٹی کیلئے مقرر کی گئی انٹر رسک پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی کو جاری کئے گئے تھے۔
وزارت داخلہ کی تحقیقاتی دستاویز میں اسلحہ لائسنسوں کے اجراء میں سنگین بے قاعدگیوں کا انکشاف ہو اہے۔ رپورٹ کے مطابق ممنوعہ بور کے اسلحہ لائسنس 17اپریل سے 26جون2009تک جاری کئے گئے،15وفاقی وزراء نے بے نام درخواستوں اور قواعد کی خلاف ورزی کر کے لائنس حاصل کئے۔ ممنوعہ بور کے اسلحہ لائسنس لینے والوں میں سینیٹرز، ارکان قومی و صوبائی اسمبلی شامل ہیں،وزیر مملکت تسنیم قریشی نے 143لائسنس خود کو ہی جاری کر دیئے،خورشید شاہ، احمد مختار نے ممنوعہ بور کے لائسنس مقررہ حد سے زائد تعداد میں جاری کرائے۔لائسنس جاری کرانیوالوں میں خورشید شاہ ، قمر الزمان کائرہ، غلام بلور، نذر گوندل کے نام بھی شامل ہیں۔
بحوالہ ۔ روزنامہ جنگ
حقائق تو بہت خوفناک ہیںلیکن عنوان اچھا لگ رہا ہے۔
اسلحہ لائسنسوں کی دکان کھولی یے ان لوگوں نے
فرحان دانش صاحب
اور بھی بہت کچھ ہو رہا ۔ اللہ ہم رحم کرے
میں ذاتی طور پر اس بات کے حق میں ہوں کہ ہر شہری کو ذاتی اسلحہ رکھنے کا حق ہونا چاہئے۔ مکمل خودکار اسلحہ پر آپ پابندی لگا دیں چاہے لیکن اسلحہ رکھنا میرے تئیں تو سُنت نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہے اور بنیادی انسانی حق بھی۔ یہ پرمٹ وغیرہ لائسنس کا چکر تو اس لئے ہے کہ بھیڑئیے اسلحہ جمع کرتے رہیں اور بھیڑیں نہتی رہیں۔
خرم صاحب
بات درست ہے کہ سب کو اسلحہ رکھنے کی اجازت دے دی جائے
اسلحہ کے لائسنس رکھنے میںکیا خرابی ہے؟؟
میںتو خود اپلائی کرنے کا سوچ رہا ہوں۔
شعیب صفدر صاحب
میں نے کہا ہے کہ سب کو اجازت ہونا چاہیئے ۔ گو میری ساری ملازمت اسلحہ سے کھیلتے کذری مگر میں اپنے گھر میں اسلحہ رکھنے کے حق میں نہیں ۔