” سول سوسائٹی، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کو ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ کا ساتھ دینا ہے کیونکہ یہ ہم سب کا امتحان ہے ”
یہ نچوڑ ہے ایک مضمون کا ۔ اسے پڑھیئے پھر اپنی ذاتی ۔ شہری اور صوبائی خود غرضیاں چھوڑ کر صرف اس مُلک کا سوچیئے جو رہے گا تو سب رہیں گے ورنہ کچھ بھی نہ ہو گا
آدھی صدی سے زائد عرصہ میں پہلی بار عدلیہ آزاد ہوئی ہے اسے تحفظ انہوں نے ہی دینا ہے جنہوں نے اسے آزاد کرانے میں قربانیاں دی ہیں ۔ شب مل کر حُب الوطنی اور انصاف کے بول بالا کیلئے جد و جہد کریں تو سُرخرُو ہوں گے ورنہ تاریخ میں خود غرض یا غدارانِ وطن کہلائیں گے
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
کر ڈال جو دل میں ٹھانی ہے
پھر تجھے کیوں حیرانی ہے
عوام اب کیا کمر باندھے کمرتو مہنگائی نے توڑ دی ہے۔
فرحان دانش صاحب
اگر زندہ در گور نہیں ہونا تو کمر باندھنا ہی پڑے گی
اگر سپریم کورٹ اتنی ہی صاف اور دُھلی دُھلائی ہے تو پہلے ماتحت عدلیہ کو پاک کیوں نہیں کرتی بھلا؟ لیکن ایسا کرنے کو انہیں کوئی حامد میر نہیں کہے گا۔ پیسے اس بات کے ملتے ہیں کہ فوج اور عدلیہ کو آمنے سامنے لے آؤ، عوام کو سڑکوں پر لے آؤ اور سب بولو “ہے جمالو”۔ جسٹس جاوید اقبال وہی حضرت نہیں جو افتخار چوہدری کی پہلی معزولی کے بعد چیف جسٹس بنے تھے اور جن پر افتخار چوہدری نے عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا؟ لیکن کیا فائدہ۔ ہمیں تو ہیرو بنانے کا شوق ہے اور جب اصل دستیاب نہ ہوں تو کیری کیچر سے کام چلا لیتے ہیں۔