میری کل کی تحریر میں الھدٰی انٹرنیشنل کا نام ایک تبصرہ کے اقتباس میں آیا تھا ۔ الھدٰی انٹرنیشنل ایک اسلامی تعلیمات کا ادارہ ہے جو اسلامی تعلیم کی خواہشمند لڑکیوں اور خواتین کیلئے 1994ء میں اپنی مدد آپ کے تحت اسلام آباد میں ایک مقامی ادارے کے طور پر قائم کیا گیا تھا اور اللہ کے فضل کرم سے نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی ادارہ بن چکا ہے ۔ پڑھانے والوں کی بھاری اکثریت ایسی خواتین ہیں جنہوں نے دنیاوی تعلیم میں کم از کم گریجوئیشن کرنے کے علاوہ اسلامی تعلیم میں بھی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے ۔ الھدٰی انٹرنیشنل میں کُل وقتی 12 ماہ کا کورس گریجوئیٹ لڑکیوں اور خواتین کیلئے ہے مگر انفرادی قابلیت کی بنیاد پر 12 جماعت پاس لڑکیوں کو بھی داخلہ دے دیا جاتا ہے ۔ کم مدت کے کورسز میں کم از کم دسویں پاس ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ ایک کورس سکول و کالج کی طالبات کیلئے گرمیوں کی چھٹیوں میں ہوتا ہے جس میں خواتین بھی شریک ہو سکتی ہیں ۔ ایک کورس شاید نئی روشنی کے نام سے ہے جس میں مڈل پاس لڑکیوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرایا جاتا ۔ البتہ رمضان المبارک میں دورہ قرآن ہوتا ہے جس کیلئے تعلیم کی کوئی حد نہیں رکھی گئی ۔ ہو سکتا ہے میری معلومات مکمل نہ ہوں ۔ تفصیلات الھدٰی انٹرنیشنل پر کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہیں
جی شکریہ مفید معلومات کے لیے
یاسر عمران مرزا صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ
موضوع سے زرا ہٹ کے
یہ پڑھیں کیا صاف آئینہ دکھا یا ہے مگر ایک سوال اگر دو فریقوں میں سے ایک بدتر القابات سے پکارا جاتا ہے تو دوسرا “محترمہ” کیسے کہلا سکتا ہے؟ دونوں چور!!
پتہ یہ چلا کہ دنیا کی شرافت میڈیا کے ہاتھ میں ہے جب تک اوپر سے فیصلہ نہ آجائے پھر سچا کھوٹا الگ الگ
اور وان صاحب کو دیکھ یہ بھی چلا مجرموں کو مظلوم بنانے
مجھے ذاتی طور پر جن لوگوں سے ملنے کا یا اُن کی باتیں سُننے کا اتفاق ہوا ہے اس ادارے سے متعلق ان سے ملنے کے بعد بہت شدید مایوسی اور پریشانی ہی حصے میں آئی۔ ان کی ایک الگ تفہیم ہے دین کی جس کی بنیاد قیاس و مبالغہ پر رکھی ہوئی لگتی ہے۔
خُرم صاحب
آپ کس سے ملے ہیں ؟ کیا ڈاکٹر فرحت ہاشمی سے ؟ جو کہ مشکل نظر آتا ہے ۔ ہمارا یا یوں کہیئے آدمی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو اپنے نظریہ یا اپنی سوچ کے مطابق سمجھنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ کسی چیز کا درُست تدارک کرنے کیلئے پہلے اپنے ذہن کو خالی کرنا ہوتا ہے ۔ میں نے الھدٰی انٹرنیشنل کی پڑھی کئی طالبات کے منہ سے ایسی باتیں سُنی ہیں جو کہ اُنہیں پڑھائی نہیں گئیں ۔ دین کی الگ تفہیم میری سمجھ میں نہیں آئی کیونکہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی جس تفہیم کو بنیاد بنا کر درس دیتی ہین وہ مودودی صاحب کی تفہیم القرآن اور سعودی عرب کی اسی طرح کی تفہیم ہے جن میں کوئی خاص فرق نہیں ۔ میرے پاس یہ دونوں عرصہ دراز سے ہیں ۔ آپ بجائے اس جگہ کے مجھے بذریعہ ای میل تفصیل سے لکھیئے کہ آپ نے کیا سمجھا اور کیا پایا۔ پھر میں کچھ کہنے کے قابل ہوں گا
احمد صاحب
پہلا حوالہ تاریخوں کے ساتھ ہے اور ان کا میں بھی گواہ ہوں کیونکہ جب 1958ء میں مارشل لاء لگا میں لگ بھگ بیس سال کا تھا
جناب یہ فرحت ہاشمی اہلسنت کے نزدیک ایک نا پسندیدہ شخصیت ہیں۔ اس کی چند وجوہات جو میرے علم میں ہیں:
1۔ تقلید کو اسلام میں ممنوع قرار دیتی ہیں
2۔ قضا نماز کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں
3۔ عورتیں مسجد جا سکتی ہیں نماز پڑھنے کیلیے
4۔ ایامِ ناپاکی میں عورت قرآن کو چھو اور اس کی تلاوت کر سکتی ہے وغیرہ وغیرہ
آپ سے گزارش ہے کہ پہلے تحقیق کریں پھر ان کی مشہوری کریں
اور اگر وقت ملے تو یہ بھی پڑھ لیں!
http://www.scribd.com/doc/19865013/Al-Huda-International-Kia-Hay
آپ کے سوالات کے جوابات دینے سے پہلے میں واضح کر دوں کہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی مالکی فقہ اپنائے ہوئے ہیں جبکہ میں حنفی ہوں
1 ۔ تقلید سے کیا مُراد ہے واضح کیجئے
2 ۔ یہ استدلال غلط ہے نماز قضا ہو جائے تو پڑھنا لازم ہے لیکن اُس کی وہ حیثیت نہیں جو بروقت نماز کی ہے
3 ۔ عورتیں مسجد نماز پڑھنے جا سکتی ہیں اور پاکستان میں ساٹھ سال سے میں عورتوں کو بہت سی مساجد میں نماز پڑھتے دیکھ رہا ہوں ۔ 1950ء کی دہائی میں میں راولپنڈی کی جامع مسجد میں نماز پڑھا کرتا تھا ۔ اُن دنوں عارف اللہ شاہ قادری امام مسجد تھے جو کٹڑ بریلوی تھے ۔ وہاں عورتیں نماز پڑھتی تھیں ۔ ماضی قریب میں اسلام آباد ایف 8 میں ہمارے گھر کے قریب اللہ والی مارکیٹ اور پارک روڈ والی مساجد قریب تھیں ۔ یہ دونوں مساجد احناف کی ہیں مگر بریلوی نہیں ہیں ۔ ان میں بھی عورتیں نماز پڑتی ہیں
4 ۔ ایامِ ناپاکی میں عورتیں صرف قرآن شریف کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے صاف دستانے پہن کر یا صاف کپڑا ہاتھ میں رکھ کر ورق اُلٹاسکتی لیکن لکھائی کو نہیں چھُو سکتیں
سعد صاحب
یہ کتاب پڑھنے کا ابھی میرے پاس وقت نہیں ہے ۔ فرصت ملنے پر پڑھوں گا تو کچھ کہنے کے قابل ہوں گا
عورت اور مرد دونوں صرف جنابت کی حالت مین قرآن کو ہاتھ نہ لگائیں اور اس کی تلاوت نہ کریں کیونکہ ان کی یہ حالت اختیاری ہے باقی حیض یا نفاس میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے ہیں !
عبداللہ صاحب
جنابت کی حالت مین تو قرآن شریف کو ہاتھ لگانے کی بالکل اجازت نہیں ہے لیکن حیض کی حالت میں عورت کو پاک دستانے پہن کر یا پاک کپڑے کے ساتھ پکڑنے کی اجازت ہے ورنہ نہیں ۔ بات ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ کی تعلیم کی ہو رہی ہے جس میں ابھی تک مجھے کوئی غلط بات نظر نہیں آئی
انکل حالت حیض والی بات اٹک جاتی ہے۔ اسکی وضاحت اگر ناگوار نہ ہو تو کسی حوالے سے فرما دیں۔
خرم صاحب
میں نے انٹرنیٹ پر بہت تلاش کیا ۔ سب جگہ یہی لکھا ہے کہ حیض کے دوران عورت قرآن شریف کو ہاتھ لگا سکتی ہے ۔ مندرجہ ذیل ربط پر چاروں فُقہاء کا مسلک لکھ ہے
http://www.muslimaccess.com/articles/Women/women_touching_quran.asp