Monthly Archives: January 2010

غریبوں کو کیوں مروایا جا رہا ہے ؟

کراچی میں 36 گھنٹوں میں فائرنگ کے مختلف واقعات میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 12 ہوگئی جبکہ 15 افراد زخمی ہیں۔ اورنگی ٹاؤن اور قصبہ کالونی سے متصل علاقوں میں جمعہ کی رات سے شروع ہونے والا فائرنگ کا سلسلہ تاحال وقفے وقفے سے جاری ہے۔پولیس کے مطابق قصبہ کالونی میں جمعہ کی شب نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ایک سیاسی جماعت کے کارکن سمیت 2 افراد کو ہلاک کر دیا تھا ۔ جس کے بعد حالات کشیدہ ہوئے اور علاقے میں شدید فائرنگ کی گئی۔ جس کی زد میں آکر 8 افرادزخمی ہو گئے ۔ ہنگامہ آرائی کا سلسلہ ہفتے کو بھی جاری رہا ۔ جس میں اورنگی ٹاؤن ۔ سلطان آباد ۔ منگھو پیر ۔ پاپوش نگر اور نارتھ ناظم آباد میں ڈینٹل کالج کے قریب فائرنگ کے واقعات میں مزید 8 افراد ہلاک ہو گئے ۔ اس دوران نامعلوم افراد نے اورنگی ٹاؤن اور مومن آباد میں ایک بس سمیت دو گاڑیوں کو بھی نذر آتش کر دیا ۔ نارتھ ناظم آباد میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ایک شخص کو ہلاک کردیا جبکہ شریف آباد میں فائرنگ کے نتیجے میں ایک نوجوان جاں بحق ہوگیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ان واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس حکام سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ جبکہ آئی جی سندھ صلاح الدین بابر خٹک نے ان واقعات کو سیاسی جماعتوں میں تصادم قرار دیا

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ خطرناک مرض

ہمارے مُلک میں ایک خطرناک مرض نفوذ ہو کر وباء کی طرح پھیل چکا ہے ۔ مزید خطرناک یہ کہ جو لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں انہیں اس کا احساس نہیں اور وہ اسے مزید پھیلانے کا مُوجب بن رہے ہیں ۔ اَن پڑھ اور پڑھے لکھے ہونے کی تمیز کے بغیر یہ مرض سب کو اپنے قابو میں لے چکا ہے ۔ مرض ہے ۔ “کوئی کچھ نہیں کرتا” ۔ “یہاں کچھ نہیں ہو سکتا” ۔ “پاکستان ہے ہی ایسا”۔ کہنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ کہہ کر فرض پورا ہو گیا ۔ سوچنا یہ ہے کہ بہتری کیسے آئے گی ؟ ایسا کہنے والے لوگ خود تو تعمیرِ ملت کیلئے ایک تِنکا بھی نہیں توڑتے لیکن تقریروں اور تحریروں میں کسی سے پیچھے نہیں ۔ تھوڑا سا گھُوم پھر کر تحقیق کی جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ یہ استدلال حقیقی کم اور تخیّلاتی زیادہ ہے

میری عادت ہے کہ کوئی ميری کتنی ہی حوصلہ شکنی کرے میں اپنی کی سی کوشش ضرور کرتا ہوں اور اکثر اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ مجھے کامیاب کرتا ہے ۔ میں صرف پچھلے تین ماہ میں وقوع پذیر ہونے والی دو مثالیں بیان کروں گا

جولائی 2009ء میں ہم نے لاہور آ کر جس علاقے میں رہائش اختیار کی اُس کا پہلے کوئی عِلم نہ تھا نہ کوئی جاننے والا وہاں رہتا تھا ۔ اکتوبر کے مہینے میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی تھی کہ ہماری رہائشگاہ کی بجلی بار بار بند ہونے اور چلنے لگی ۔ محلے میں کسی سے پوچھا کہ واپڈا کا کمپلینٹ آفس کہاں ہے ؟ جواب ملا “ہم تو کبھی گئے ہی نہیں وہاں کوئی کام تو ہوتا نہیں”۔ میں نے گھر واپس آ کر بجلی کا بِل نکالا اور اُس پر پتہ ڈھونڈنے لگا کہ میری نظر پڑی لکھا تھا “بجلی کی شکائت کے سلسلہ میں اس نمبر پر اطلاع کریں”۔ میں نے ٹیلیفون کیا ۔ دو بار نمبر مصروف ملنے کے بعد مل گیا ۔ السلام علیکم کہنے کے بعد اپنا مسئلہ بتایا تو جواب ملا کہ ابھی آدمی دوسرے کمپلینٹ پر گیا ہوا ہے ایک ڈیڑھ گھنٹہ تک آپ کے پاس پہنچ جائے گا ۔ جب آدمی تین گھنٹے تک نہ آیا تو میں گاڑی لے کر نکلا ۔ قریب ہی ایک دفتر تھا وہاں جا کر پوچھا کہ واپڈا کا کمپلینٹ آفس کہاں ہے ؟ جواب پہلے والا ہی ملا ۔ اسرار کرنے پر کہا کہ ” اُدھر ڈیفنس میں کہیں ہو گا “۔ میں ڈیفنس کی طرف چل پڑا اور پوچھتے پوچھتے لیسکو [LESCO] کے دفتر پہنچ گیا ۔ وہاں کمرہ شکایات میں جا کر مدعا بیان کیا تو بتایا گیا کہ ” آدمی جا چکا ہے آپ کے گھر پہنچنے والا ہو گا” اور مجھے اُس کا موبائل فون نمبر لکھ کر دے دیا ۔ میں نے گھر پہنچ کر جب دیکھا کہ وہ نہیں پہنچا تو اُسے ٹیلیفون کیا ۔ اُس نے کہا “بس میں اِدھر سے فارغ ہو گیا ہوں اور اب آپ کے پاس ہی آ رہا ہوں”۔ پانچ منٹ میں وہ پہنچ گیا اور ہمارے گھر کی بجلی درست کر کے چلا گیا

جنوری 2010ء شروع ہوتے ہی بہت سردی شروع ہو گئی ۔ قدرتی گیس کا پریشر جو پہلے ہی زیادہ نہ تھا اتنا کم ہو گیا کہ روٹی پکنا مُشکل ہو گیا ۔ میں نے گیس کا بل نکالا اور وہاں لکھے نمبر پر ٹیلیفون کرنا شروع کیا ۔ چوتھی بار نمبر مل گیا اور کمپیوٹر کی ریکارڈڈ آواز ڈیڑھ منٹ تک سنتا رہا پھر ایک لڑکا بولا “سر”۔ میں نے السلام و علیکم کہہ کر اپنی ببتا بیان کی ۔ اُس نے کہا اپنا کنزیومر نمبر بتایئے”۔ میرے بتانے پر اُس نے کہا آدمی 24 سے 48 گھنٹے کے درمیان پہنچ جائے گا اور ساتھ مجھے میرا شکائت نمبر لکھوا دیا ۔ ہفتہ کا دن تھا صبح کے 9 بجے تھے میں نے سوچا اتوار کی چھُٹی ہے آدمی پیر کو ہی آئے گا مگر اتوار کو شام 5 بجے گھنٹی بجی میں باہر نکلا تو ایک آدمی کہنے لگا “آپ نے گیس کا کمپلینٹ کیا تھا ۔ چیک کریں پریشر ٹھیک ہو گیا ہے”۔ میں نے بھاگ کر کوکنگ رینج کے پانچوں چولہے جلا دیئے اوردرست پاکر اُس شخص کا شکریہ ادا کیا

کمی رہ گئی

قومی اسمبلی میں بڑا اچھا سوال اُٹھا گیا ہے کہ جس شخص کے پاس کسی غیر مُلک کی شہریت ہو اُسے کوئی اہم ملازمت نہ دی جائے اور نہ ہی کسی اسمبلی کا رُکن بنایا جائے اور جو اس وقت ہیں اُنہیں فارغ کر دیا جائے ۔ اللہ کرے یہ قانون بن جائے بلکہ اسے آئین کا حصہ بنا دیا جائے

لیکن ایک کمی رہ گئی ۔ اس میں یہ بھی شامل ہونا چاہیئے کہ جس کے پاس غیر مُلکی شہریت ہو وہ پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کا رہنما یا قائد نہیں بن سکتا

حال ۔ ماضی کے آئینے میں

حال

صدرآصف زرداری نے چکوال میں اپنی تیسری تقریر میں کھُل کر اس “سازش” کی نشاندہی کی جس کے بارے میں وہ نوڈیرو اور فیصل آباد کی تقریروں میں بات کررہے تھے ۔
انہوں نے کہا کہ “ہمیں قلم اورسنگینوں سے نہیں ماراجاسکتا ”
اور واضح کیا کہ” ذوالفقار علی بھٹو کو قلم کے ذریعے لکھے جانے والے عدالتی فیصلے کے ساتھ قتل کیا گیا تھا ۔ اب ایسا نہیں ہوگا”
مزید آصف زرداری نے اپنی تقاریر میں کہا کہ وہ اپنے خُسر اور پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے مِشن کو آگے بڑھانے کی خاطر جان بھی دینے کو تیار ہیں
صدر آصف زرداری ہر تقریر میں کہتے ہیں کہ جمہوریت کی علمبرداری اور اس کی حفاظت کو زندگی کا مشن بنالیا ہے اور اس مشن کے ساتھ ذوالفقارعلی بھٹو کے مشن کا حوالہ بھی دیتے ہیں

ماضی

بینظیر بھٹو نوازشریف کے ساتھ میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرچکی تھیں جس کے 36 نکات کا خلاصہ جمہوریت اور ملک میں دیانت دار اور صالح حکمرانی کو فروغ دینا تھا ۔ اس کے بعد سابق صدر جنرل پرویزمشرف اور بینظیربھٹو کے درمیان معاہدہ طے پایا ۔ اس معاہدے کا صرف یہ مقصد تھا کہ جنرل مشرف کو بدستور صدر برقرار رکھاجائے بینظیربھٹو وزیراعظم بن جائیں اور اُن کے شوہر آصف زرداری کے خلاف تمام مقدمات ختم کردیئے جائیں مگر ان کے راستے میں آئین کی دفعات 63,62 حائل تھیں جن کے تحت کوئی بددیانت اور غیر صالح کردار والا شخص نہ اسمبلی میں جاسکتا ہے نہ ہی وزیر ، وزیراعظم یا صدر بن سکتاہے ۔ اس رکاوٹ کو دُورکرنے کے لئے معاہدہ این آراو کی شکل میں سامنے آیا

بینظیر بھٹو نے اپنے وقت کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ اس کے نظام حکومت میں شریک کار ہونے کے لئے جو این آر او معاہدہ کیا اس نے میاں نوازشریف کے ساتھ کئے جانے والے میثاق جمہوریت کو اندھیروں میں دھکیل دیا

آصف زرداری کے والد حاکم علی زرداری صاحب نیشنل عوامی پارٹی [اب اے این پی] کے نائب صدر تھے ۔ نیشنل عوامی پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو ایک دوسرے کے سخت دشمن تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس نیشنل عوامی پارٹی اوراس کے عہدیداروں کو غداری کا مرتکب قراردے کر اے این پی پر پابندی لگادی تھی اور ولی خان سمیت اس پارٹی کے عہدیداروں پر سندھ کے شہر حیدرآباد میں غداری کا مقدمہ چلایا گیا تھا ۔ غداری کے اس جُرم میں ان لوگوں کو موت کی سزادی جا سکتی تھی ۔ یہ مقدمہ 5 جولائی 1977ء کو ابھی زیر سماعت تھا کہ جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا ور حیدرآباد کیس ختم کرکے ولی خان اور دوسرے عہدیداروں کو رہا کردیا

ولی خان اور آصف زرداری کے والد حاکم علی زرداری صاحب سمیت دوسرے ساتھیوں نے ضیاء الحق کے متذکرہ بالا اقدام کی بھرپور حمائت کی اورپھر مارشل لاء کا مکمل ساتھ بھی دیا

اکتوبر 1958ء میں جب جنرل ایوب خان نے منتخب وزیراعظم فیروز خان نون کی حکومت برطرف کرکے آئین منسوخ کردیا اور تمام اسمبلیاں توڑ کر مارشل لاء نافذ کردیا تو ایک اپنی منشا کی کابینہ بنائی جس کے وزراء میں فوجی جرنیلوں کے بعد سب سے نمایاں نام ذوالفقار علی بھٹو کا تھا جو پہلے مرکزی وزیر برائے قدرتی وسائل بنے پھر وزیر خارجہ اور ایوب خان کی سرکاری کنونشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے

ایوب خان کی حکومت کا تختہ جنرل یحییٰ خان نے اُلٹا اور ایوب خان کا آئین اور اسمبلیاں ختم کرکے نیا مارشل لاء نافذ کردیا اورخودچیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گیا تو ذوالفقار علی بھٹو اس کی کابینہ میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ بنے رہے

جب یحیٰ خان کی حکومت ختم ہوئی تو ذوالفقارعلی بھٹو خود چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے اور مارشل لاء کے تحت ایک پی سی او بھی نافذ کیا اوراس کے ذریعے ڈیڑھ برس تک اپنے مارشل لاء کا قانون چلایا

بعد میں 1973ء کا آئین نافذ کیا مگر 1971ء سے 5 جولائی1977ء کو اُن کی حکومت ختم ہونے تک 6 سالوں میں پورے ملک میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے دیئے جو کسی بھی جمہوری معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں

بشکریہ ۔ روزنامہ اوصاف

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پانچ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

اللہ بچائے

موبائل فون پر گردش میں ایک پیغام

اللہ بچائے
پُرانے ٹی وی سے اور پاگل بیوی سے
نئی کی شیو سے اور دبئی کے شیخ سے
پُرانی مٹھائی سے اور عورت کی بے وفائی سے
حرام کی کمائی سے اور بھٹو کے جوائی سے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ ایک خاموش پیغام

ایک دن ایک عالِم بازار میں بیٹھا ہوا تھا ۔کہ ایک بادشاہ کا گزر ہوا
بادشاہ نے عالِم سے پوچھا “حضرت کیا کر رہے ہیں؟”
عالِم نے کہا “بندوں کی اللہ سے صلح کروا رہا ہوں ۔ اللہ تو مان رہا ہے پر بندے نہیں مانتے”

کچھ دنوں بعد بادشاہ کا گزر قبرستان کے پاس سے ہوا تو دیکھا کہ وہی عالِم قبرستان میں بیٹھا ہے
بادشاہ نے عالِم سے پوچھا “حضرت کیا کر رہے ہیں؟”
عالم نے کہا “بندوں کی اللہ سے صلح کروا رہا ہوں ۔ بندے تو مان رہے ہیں پر اللہ نہیں مان رہا “

مرزا فرقان احمد اور مماثل بلاگرز

مرزا فرقان احمد صاحب اور کچھ دوسرے بلاگرز جن کے بلاگ بلاگسپاٹ یا ورڈ پریس پر ہیں وہ اپنے بلاگ پر تبصرہ کرنے کی مندرجہ ذیل سہولت مہیاء کرنا بھول گئے ہیں
URL/Name
ایسے سب بلاگرز اگر چاہتے ہیں کہ وہ قارئین بھی ان کے بلاگ کو پڑھیں جن کے بلاگ بلاگسپاٹ یا ورڈ پریس پر نہیں ہیں تو وہ یہ سہولت مہیاء کریں