Yearly Archives: 2009

کیا حکومت امریکہ کی کٹھ پُتلی ہے ؟

کیا حد نگاہ تک پھیلی پیپلزپارٹی کے پاس کوئی ایسا شخص نہ تھا کہ قومی سلامتی جیسا حساس ترین شعبہ امریکی مفادات سے وابستہ کسی شخص کے سپرد کردیا جاتا؟ کیا یہ اور بعض دوسری تقرریاں این آر او [NRO] کا حصہ تھیں؟ کیا مشرف سے دست کش ہونے سے پہلے امریکہ نے پاکستانی بساط کے ہر خانے میں اپنے مُہرے بٹھانے کی شرط منوا لی تھی؟ اور سب سے بڑا سوال یہ کہ کیا ایک مہرہ پِٹ جانے کے بعد یہ باور کرلیا جائے کہ امریکہ کو شہ مات ہوگئی ہے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مشرف کو اپنی آمرانہ حکمرانی کے لئے امریکی آشیرباد کی ضرورت تھی ۔ اس کے ہر اقدام کی ناک میں امریکی مفادات کی نکیل پڑی تھی ۔ آٹھ برس کے دوران اس نے پاکستان کو بڑے پیٹ والے مویشیوں کی کھرلی بنادیا ۔ 18 فروری کو عوام ایک نئے عزم کے ساتھ نئے انداز سے اُٹھے اور جانا کہ مشرف کو حواریوں سمیت نابود کرکے وہ ایک آزاد و خودمختار ملک کی حیثیت سے پاکستان کا تشخص بحال کردیں گے لیکن ایسا نہ ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پارلیمینٹ کی بالادستی ایک بے ذوق نعرے تک محدود ہوکے رہ گئی ہے، کابینہ محض باراتیوں کا جتھہ ہے اور شدید بیرونی دباؤ کے ان دنوں میں امریکہ دندنا رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

امریکہ نے اپنے پاکستانی پٹھوؤں کے ذریعے چین کو روکا کہ وہ سلامتی کونسل کی قرارداد کو وِیٹو [Veto] نہ کرے۔ امریکہ نے ہی اپنے پٹھوؤں کے ذریعے اجمل قصاب کی پاکستانیت کا اقراری بیان جاری کرایا اور جان لیجئے کہ محمود علی درانی کے بعد بھی پاکستانی بساط پر جابجا امریکی مُہرے پوری تمکنت کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور پاکستانی مفادات کا سینہ چھلنی کرنے کے لئے ابھی ان کے ترکش میں بہت تیر باقی ہیں

یہ ہیں جھلکیاں عرفان صدیقی کے مضمون “پاکستانی بساط کے امریکی مُہرے” کی

اسرائیل ۔ حقائق کیا ہیں ؟

دورِ حاضر پروپیگنڈہ کا دور ہے اور صریح جھوٹ پر مبنی معاندانہ پروپیگنڈہ اس قدر اور اتنے شد و مد کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ حقائق ذہنوں سے محو ہو جاتے ہیں ۔ ایسے مسلمان اور پاکستانی بھی ہیں جو اسرائیل کی دہشتگردی کو اُس کے دفاع کی جنگ کہتے ہیں ۔ حُسنِ اتفاق کہ آدھی صدی سے زائد عرصہ سے ظُلم اور دہشتگردی کا شکار رہنے والی دونوں ریاستوں فلسطین اور جموں کشمیر سے میرے خاندان کا گہرا تعلق رہا ہے ۔ مختصر یہ کہ میں ۔ میری دو بہنیں دادا دادی اور پھوپھی جموں کشمیر سے نومبر دسمبر 1947ء میں نکالے جانے پر ہجرت کر کے پاکستان آئے اور میرے والدین مع میرے دو چھوٹے بھائیوں جن میں سے ایک 8 ماہ کا تھا نے مجبور ہو کر فلسطین سے ہجرت کی اور جنوری 1948ء میں پاکستان پہنچے ۔ چنانچہ ان دونوں علاقوں کی تاریخ کا مطالع اور ان میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھنا میرے لئے ایک فطری عمل تھا ۔ میں نے اس سلسلہ میں سالہا سال مطالعہ کیا ۔ جو حقائق سامنے آئے ان کو مختصر طور پر انشاء اللہ قسط وار قارئین کی نذر کرنے کا ارادہ ہے ۔ آجکل چونکہ فلسطین میں اسرائیلی حکومت کی بے مثال دہشتگردی جاری ہے اسلئے پہلی ترجیح فلسطین کو ۔ میری اس سلسلہ وار تحریر کا ماخذ موجود تاریخی و دیگر دستاویزات ۔ انٹرنیٹ پر موجود درجن سے زائد تاریخی دستاویزات اور آدھی صدی پر محیط عرصہ میں اکٹھی کی ہوئی میری ذاتی معلومات ہیں

اسرائیلی فوج کی دہشتگردی کی چند مثالیں
اسرائیل کا موقف ہے کہ حماس اسرائیل پر حملے کرتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے 10 سال میں غزہ یا اس کے ارد گرد صرف 20 اسرائیلی ہلاک ہوئے جبکہ اسرائیلی فوج نے جو بیہیمانہ قتلِ عام کیا ان میں سے چند مشہور واقعات یہ ہیں

پچھلے دو ہفتوں میں 800 سے زیادہ فلسطینی جن میں بھاری اکثریت بچوں اور عورتوں کی تھی ہلاک ہو چکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد 3250 سے تجاوز کر چکی ہے ۔ اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کے قائم کردہ سکول پر بمباری کی جس میں 40 مہاجرین ہلاک ہوئے ۔ اس کے بعد اسرائیلی بری فوج نے 100 فلسطینی ایک شیلٹر میں اکٹھے کئے اور پھر ان پر گولہ باری کر کے سب کو ہلاک کر دیا

سن 2006ء میں اس بنیاد پر کہ میں حذب اللہ نے 2 دو اسرائیلی پکڑ لئے تھے اسرائیلی نے بمباری کر کے 1000 شہری ہلاک کر دیئے ۔ اسی سال میں اسرائیلی فوجیوں نے ایک گاؤں مرواہن کے رہنے والوں کو حُکم دیا کہ وہ گاؤں خالی کر دیں ۔ جب لوگ گھروں سے باہر نکل آئے تو اسرائیلی ہیلی کاپٹر نے قریب آ کر اُن کو براہِ راست نشانہ بنایا جس کے نتیجہ میں 1000 میں سوائے دو کے باقی سب ہلاک ہو گئے ۔ دو اس وجہ سے بچ گئے کہ وہ زمین پر گر کر مردہ بن گئے تھے

اسرائیل نے 1996ء میں اقوامِ متحدہ کی بیس [Base] قانا پر گولہ باری کی جس میں 106 مہاجرین ہلاک ہوئے

لبنان پر 1982ء میں حملہ کر کے 17500 فلسطینی مہاجرین ہلاک کیا جن میں زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی تھی
اسرائیلی فوج نے 1982ء میں فلسطینی مہاجرین کے دو کیمپوں صابرا اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر اپنے مسلحہ حواریوں فلینجسٹس کی مدد سے دو تین دنوں میں وہاں مقیم 4000 نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کروا دیا جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے شامل تھے ۔ یہ کاروائی ایرئل شیرون کے حُکم پر کی گئی تھی جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا

دہشتگرد کون ؟ ؟ ؟

آج کے دور میں ہر اُس مسلمان فرد اور مسلمان ملکوں کے باشندوں کو دہشتگرد قرار دیا جا رہا ہے جو امریکہ یا بھارت کی مداح سرائی نہ کرے یا اُن کے ظُلم کے خلاف آواز اُٹھائے ۔ اس پروپیگنڈہ کی کامیابی کا سبب ذرائع ابلاغ کا کنٹرول مسلمان دُشمن طاقتوں کے ہاتھ میں ہونا ہے ۔ اس پر طُرّہ یہ کہ مسلمان مُلکوں کے بھی کچھ ذرائع ابلاغ ان مسلم دُشمن طاقتوں کی مالی امداد وصول کر کے یا اُن کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اپنے ہموطنوں اور مسلم اُمہ کے ساتھ غداری کر رہے ہیں ۔

مُسلم دُشمن طاقتوں کا یہ کھیل تو ازل سے جاری ہے لیکن اس نے زور آج سے 20 سال پہلے پکڑا ۔ ابتداء فرد سے کی گئی ۔ پھر ایک قوم کو ملزم ٹھہرایا گیا اور پھر اس کا دائرہ ہر اُس ملک تک بڑھا دیا گیا جہاں کے عوام ان مُسلم دشمن طاقتوں کی بداعمالی کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں

امریکا کی اعانت سے اسرائیل کی فلسطین میں اور برطانیہ کی اعانت سے بھارت کی جموں کشمیر میں دہشتگردی تو 1947ء میں شروع ہو گئی تھی ۔ امریکہ جو ویت نام ۔ لاطینی امریکہ اور افریقہ میں دہشتگردی روا رکھ چکا تھا اُس نے 1991ء کے شروع میں عراق پر حملہ کر کے مشرقِ وسطہ میں اپنی دہشتگردی کا آغاز کیا جس کے بعد اقوامِ متحدہ میں اپنی عددی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے عراق کی 13 سال مکمل ناکہ بندی رکھی گئی اور جب محسوس کیا کہ اب عراق اپنے دفاع کے قابل نہیں رہا تو ڈبلیو ایم ڈی کا جھُوٹا بہانہ بنا کر مارچ 2003ء میں امریکہ نے برطانیہ کو ساتھ ملا کر مجبور عراق پر حملہ کر دیا ۔ ان دو طاقتوں کے بیہیمانہ ظُلم اور دہشتگردی کی بازگزشت اب بھی فضا میں گونجتی جے ۔ امریکی چیک پوسٹوں پر اور بڑے پیمانے پر قائم کردہ جیلوں بالخصوص ابوغرَیب جیل میں جو کچھ ہوا اسے کون نہیں جانتا ۔

اسی دوران امریکا اور اس کے ساتھیوں نے اکتوبر 2001ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کو بہانہ بنا کر افغانستان پر دھاوا بول دیا جبکہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ سے افغانستان کا دُور کا بھی کوئی تعلق نہ تھا ۔ گھر بیٹھے شہریوں اور شادی اور مرگ کی محفلوں پر سفّاکانہ بمباری کی گئی ۔ افغانستان میں لاکھ سے زیادہ بے قصور جوان بوڑھے عورتیں اور بچے اندھا دُھند بمباری سے ہلاک کئے جا چکے ہیں اور یہ دہشتگردی 7 سال سے جاری ہے

افغانستان میں مارداڑ شروع کرنے کے کچھ سال بعد حکومتِ پاکستان کی طرف سے جاری فوجی کاروائی کے باوجود پاکستان کے قبائلی علاقوں پر امریکی فوج نے حملے شروع کر دیئے جو جاری ہیں ۔ ان حملوں کا نشانہ بے قصور شہریوں کے گھر ۔ بچوں کی تعلیمی درسگاہیں اور مساجد ہوتی ہیں جس کے نتیجہ میں سینکڑوں بے قصور جوان بوڑھے عورتیں اور بچے ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ عمل اب تک جاری ہے ۔ اس صریح مُسلم کُش دہشتگری جسے مکاری سے دہشتگردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا ہے کے نتیجہ میں پاکستان کے قبائلی کے علاقوں کے لاکھوں پُرامن اور بے قصور لوگ بے گھر ہو چکے ہیں ۔

ہمارا قومی المیہ اور اُس کا حل

قدیم زمانہ کی ایک کہانی ہے کہ ایک مصوّر نے اپنی بنائی ہوئی بہترین تصوریر چوراہے پر یہ لکھ کر رکھ دی کہ اس میں غلطی بتائیں ۔ چند دن بعداُسے دیکھ کر جھٹکا لگا کہ تصوریر بے شمار لکیروں میں گم ہو گئی ہے ۔ پھر اُس نے ایک عام سی تصویر بنا کر ان الفاظ کے ساتھ رکھ دی کہ اگر اس میں کوئی غلطی ہو تو اسے درُست کر دیں ۔ ایک ہفتہ بعد مصوّر آیا تو تصویر پر ایک نشان بھی نہ لگایا گیا تھا

یہ کہانی ہماری قوم پر صادق آتی ہے ۔ جسے دیکھو وہ دوسرے کی غلطیاں گِن رہا ہے مگر اپنی غلطی کی درُستگی کرنا نہیں چاہتا ۔ ہمارے ذرائع ابلاغ بھی ہر اُس آدمی یا جماعت یا گروہ کی کردہ اور ناکردہ غلطیاں گِنتے رہتے ہیں جن سے اُن کو ذاتی فائدہ نہ پہنچا ہو یا اُن کے غلط یا درست رویّے سے ان کو نقصان کا خدشہ ہو ۔ ایک عمل جو ہمارے ذرائع ابلاغ کو ہر وقت اور ہر دور میں خطرے کی جھنڈی لہراتا نظر آتا ہے وہ ہے دین اسلام اور اس پر عمل کی کوشش ۔ اخباروں میں ایسے اداریئے کئی بار شائع ہو چکے ہیں ۔ ہمارے اخبارات میں دین سے بیزار لوگوں کے مقالے اور دیگر مُخرب الاخلاق مضامین اور اشتہارات بڑے کرّوفر کے ساتھ چھاپے جاتے ہیں اور وقفے وقفے کے ساتھ بحث چھیڑ دی جاتی ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنا بلکہ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اسے لادین ریاست بنایا تھا ۔ گویا یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ قائد اعظم خدانخواستہ قوم کو دھوکہ دیتے رہے ۔

دسمبر 2008ء میں ایک سب سے زیادہ اشاعت کے دعویدار اخبار میں اداریہ شائع ہوا کہ جماعت الدعوہ نادار لوگوں کی فلاح و بہبود کر رہی تھی اور اس پر پابندی سے بہت سے سکول اور مُفت علاج کے مراکز بند ہو جائیں گے ۔ سب حقائق لکھنے کے بعد آخر میں ایک فقرہ چُست کر دیا کہ یہ سب ٹھیک ہے لیکن جماعت الدعوہ مستفید ہونے والوں کو اپنا ہم خیال بنا لے گی اور انتہاء پسندی کو فروغ حاصل ہو گا ۔ کوئی اس اخبار کے مالکوں اور مدیروں سے پوچھے کہ تم لوگ جو کروڑوں روپیہ بااثر اور مالدار لوگوں کی چاپلوسیاں کر کے اور فُحش اشتہارات چھاپ کر کما رہے ہو اس کا کچھ حصہ فلاحی کاموں پر لگا کر کیوں عوام کو اپنا ہم خیال نہیں بناتے ؟

تحریک پاکستان کی کامیابی کا سبب صرف مُخلص اور محنتی رہنما ہی نہیں تھے ۔ ان کے ساتھ مُخلص اور محنتی کارکُن اور چھوٹے چھوٹے دو تین اخبار تھے جو منافع کمانے کی بجائے اپنی محنت سے اخبار میں مسلم لیگ کی کارکردگی لکھ کر مسلمانانِ ہند تک پہنچاتے تھے ۔ پاکستان بننے کے چند سال بعد سے ہمارے ذرائع ابلاغ نے جتنا ہمارے معاشرے کو تباہ کرنے میں کردارادا کیا ہے اتنا کسی حکمران حتٰی کہ ڈِکٹیٹر نے بھی نہیں کیا ہو گا

جب پاکستان میں پہلی بار 1964ء میں لاہور میں ٹی وی کا اجراء ہوا تو لاہور کے ایک مشہور امام مسجد نے کہا تھا “شیطانی چرخہ آ گیا ۔ اُس کی عقل پر قہقہے لگائے گئے اور اُسے لعن طعن کیا گیا ۔ مجھے بھی یہ استدلال عجیب سا لگا تھا لیکن 44 سال بعد آج اگر ٹی وی کے اثرات پر نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ شخص دانا اور دُور اندیش تھا ۔ آجکل ٹی پر ایسے ایسے لچر قسم کے اشتہارات دِکھائے جا رہے ہیں کہ اپنے آپ کو ماڈرن کہنے والے بھی تلملا اُٹھے ہیں ۔

ہماری قوم میں تین بڑی عِلتیں ہیں ۔ خودغرضی ۔ اپنی اصلاح کی بجائے دوسروں پر تنقید اور بے راہروی جو اخبارات ۔ ٹی وی چینلز ۔ موبائل فون اور سرکاری سرپرستی میں پرورش پا رہی ہیں اور قوم کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ۔ حل صرف درست تعلیم و تربیت میں مُضمِر ہے لیکن شومئی قسمت کہ تربیتی نظام ہمارے ملک میں مفقود ہے ۔ رہی تعلیم تو اس سے حکمرانوں نے شاید قطع تعلق کیا ہوا ہے ۔ 35 سالوں سے تعلیم اُن لوگوں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے جنہوں نے عُمدہ تعلیم کے نام پر مہنگے تعلیمی ادارے کھول کر اس مُلک کی دینی اور سماجی اقدار کو برسرِ عام پامال کرنا اپنا شیوا بنا رکھا ہے

تربیت کا گہوارہ ماں کی گود ہوتی ہے اس کے بعد گھر کا ماحول اگر ایک ماں آزادی اور فلاح کے نام پر مجالس میں تو حاضری دے اور تقریریں کرے مگر گھر میں اپنے ملازمین کے ساتھ ظُلم کرے ۔ لوگوں کو نصائع کرتی پھرے اور اپنے بچے کی مناسب تربیت کیلئے وقت نہ نکالے تو بچے کا بگڑنا ایک عام سی بات ہے ۔

اسی طرح جس بچے کا باپ دیر سے گھر لوٹے ۔ شراب یا سگریٹ پیئے اور اپنے بچے کو کہے کہ بیٹا سکول سے سیدھا گھر آ جانا سگریٹ پینا بُری بات ہے ۔ کیا اُس بچے سے باپ کی بات کو اہمیت دینے کی توقع کی جا سکتی ہے ؟ بچہ کتنا ہی اکھڑ مزاج کیوں نہ ہو اگر اُسے مناسب ماحول دیا جائے اُس کی طرف خلوصِ نیت سے توجہ دی جائے تو وہ درُست سمت میں چل سکتا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ والدین کا غلط رویّہ ہی ان کے بچے کو اکھڑ بناتا ہے ۔ کوئی بچہ پیدائشی اکھڑ نہیں ہوتا

تربیت کا دوسرا اہم مرکز تعلیمی ادارے ہوتے ہیں ۔ تعلیمی اداروں کا ہمارے مُلک میں جو حال ہے کسی سے پنہاں نہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ تعلیمی اداروں اور اساتذہ کی زبوں حالی ہے ۔ بجٹ کا سب سے کم حصہ تعلیمی اداروں کو دیا جاتا ہے ۔ کسی سکول کالج یا یونیورسٹی میں ضرورت کے مطابق لائبریری نہیں ۔ اساتذہ کی تنخواہیں اتنی کم ہیں اور اس پر طُرّہ یہ کہ اُن کی عزت محفوظ نہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ جسے کوئی بہتر ملازمت نہیں ملتی وہ تعلیم اداروں کا رُخ کرتا ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اساتذہ کی عزت اور احترام طُلباء و طالبات اور بالخصوص اُن کے والدین کے دِل سے محو ہو چکا ہے ۔

تربیت کا تیسرا ادارہ عزیز و اقارب اور دوستوں کا ماحول ہوتا ہے ۔ بچہ خواہ کتنے ہی محتاط اور اچھی تربیت والے گھرانے کا ہو جب وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو اپنے سے بہتر پہنتے بہتر کھاتے اور بغیر محنت کے کامیاب ہوتے دیکھتا ہے تو اُس کے دل میں بھی اُن سا ہو جانے کی تمنائیں اُبھرتی ہیں جو موقع ملنے پر اُسے اُسی لاقانونیت کی دنیا میں لیجاتی ہیں جہاں وہ لوگ ہوتے ہیں

اگر ہمیں اپنی زندگی پیاری ہے اور اپنی حمیت کی قدر ہے تو ہمیں من حیث القوم وقتی مفاد سے نکل کر اپنی پوری زندگی کیلئے سوچنا ہو گا ۔ ہمارے آج نے تو جو بننا تھا بن چکا اسے تو تبدیل کرنا ناممکن ہے ۔ اگر آج کے وقتی مفاد کو بھُول کر دوسروں پر تنقید کی بجائے اپنی اصلاح کی کوشش کریں تو ہمارا مستقبل درست ہو سکتا ہے

ایک اور سدِ راہ ہے کہ بہت سے ہموطن اس سوچ میں مُبتلا نظر آتے ہیں “میں اکیلا کیا کروں ؟ سارا معاشرہ ہی خراب ہے”۔ جب تک ہر فرد اپنی سوچ کو بدل کر یہ ارادہ نہیں کرے گا کہ “یہ میرا کام ہے اور مجھے ہی کرنا ہے ۔ کوئی اور نہیں کرتا تو میری بلا سے مجھے اپنا فرض پورا کرنا ہے”۔ معاشرہ میں بہتری کی کوئی صورت نہیں بن سکتی ۔ اللہ بھی اُن کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں ۔
سورت ۔ 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39 ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی
اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

ہم لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ۔ مسلمان تو وہ ہوتا ہے جس کے متعلق اللہ سُبحانُہُ نے فرمایا ہے

سُورت ۔ 3 ۔ آل عِمْرَان ۔ آیات 109 تا 111
اور اللہ ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور سب کام اللہ ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے
تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں [کی رہنمائی] کیلئے ظاہر کی گئی ہے ۔ تم بھلائی کا حُکم دیتے ہو اور بُرائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔ اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقیناً اُن کے لئے بہتر ہوتا ۔ اُن میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور اُن میں سے اکثر نافرمان ہیں
یہ لوگ ستانے کے سوا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے ۔ اور اگر یہ تم سے جنگ کریں تو تمہارے سامنے پیٹھ پھیر جائیں گے ۔ پھر ان کی مدد نہیں کی جائے گے

سُورت ۔ 3 ۔ الْمَآئِدَہ ۔ آیت 2 کا آخری حصہ
اور نیکی اور پرہیزگاری [کے کاموں] پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم [کے کاموں] پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ [نافرمانی کرنے والوں کو] سخت سزا دینے والا ہے

سورت ۔ 2 ۔بقرہ ۔ آیت ۔ 177
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور [اﷲ کی] کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں [اپنا] مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور [غلاموں کی] گردنوں [کو آزاد کرانے] میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی میں اور مصیبت میں اور جنگ کی شدّت [جہاد] کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں

سورت ۔ 2 ۔بقرہ ۔ آیت ۔44
کیا تم دوسرے لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم [اللہ کی] کتاب [بھی] پڑھتے ہو، تو کیا تم نہیں سوچتے؟
سورت ۔ 4 ۔ النسآ ۔ آیت ۔ 58
بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے

سورت ۔ 4 ۔ النسآ ۔ آیت ۔ 135
اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ [گواہی] خود تمہارے اپنے یا والدین یا رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ [جس کے خلاف گواہی ہو] مال دار ہے یا محتاج ۔ اللہ ان دونوں کا زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ اور اگر تم پیچ دار بات کرو گے یا پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے

اظہرالحق صاحب کے سوال کا جواب

اظہرالحق صاحب نے میری تحریر “غزہ میں بہتا خون کیا کہتا ہے” پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا

میری نظر میں سب سے پہلے فلسطینی ہی غلط ہیں‌، انکل آپ بھی فلسطینیوں کے ساتھ رہے ہو ، آپ تو انہیں بہت اچھی طرح جانتے ہو ۔ ۔ ۔ وہ لوگ آج بھی عرب قومیت کی بات کرتے ہیں‌، فتح اور حماس کی تفریق کسی سے چھپی نہیں‌ہے ، صابرہ اور شتیلا کی تباہی سے لیکر دوسری انتفادہ تک ۔ ۔ ۔ اسرائیل ہمیشہ ہی فلسطینیوں میں تفریق رکھنے میں‌ کامیاب رہا ہے ، کبھی سیکیورٹی پاس ایشو کر کے کبھی دوائیوں کے ٹرک روانہ کر کے اور کبھی چند ڈالروں کے عیوض ۔ ۔ ۔ فلسطینی مسلمان بہت ارزاں بکتا ہے انکل جی بہت ہی ارزاں ۔ ۔ ۔
دبئی میں‌فلسطینیوں کی بہت مانگ اور وہ یہ مانگیں پوری کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ آج کل یہاں کے بازاروں میں غزہ کی تصویریں لگا کر انکے لئے سامان اکھٹا کر رہے ہیں‌، انکے ویزوں کی فیسیں معاف کی جا رہی ہیں ۔ ۔ ۔ مگر سب کچھ ہے ۔ ۔ ۔ کیا یہ فلسطینی اپنے ہی فلسطینیوں کا خیال کررہے ہیں‌ ۔ ۔ ۔ جی نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ ۔ ۔ افسوس ہم تصویر کا ایک ہی رُخ دیکھ رہے ہیں‌دوسرا رُخ بھی بہت بھیانک ہے ۔۔ ۔
حماس ایک ایسی تنظیم ہے جسنے فلسطینیوں کے دل میں‌ گھر کر رکھا ہے اسے ایران کی حمایت بھی حاصل ہے ۔ ۔ ۔ مگر خالد مشعال سے لیکر لیلٰی الداؤدی تک سب کے سب عربوں کی بات کرتے ہیں ۔ ۔ کاش یہ مسلمانوں کی بات کرتے کاش ۔ ۔ اے کاش ۔۔ ۔ ایسا ہوتا تو شاید یہ اتنا ظلم بھی نہ سہتے ۔ ۔ ۔
———————
ایک بات ، موضوع سے ذرا ہٹ کہ ۔ یہودیوں کی تین ہزار سالہ تاریخ (یعنی فرعون کے زمانے سے لیکر اب تک ) یہ بتاتی ہے کہ یہ قوم کسی بھی جگہ چالیس سال سے زیادہ نہیں ٹِک سکی ۔ ۔ ۔ اور 2008 میں یہ چالیس سال پورے ہو گئے ہیں ۔ ۔ ۔ ہیکل سلیمانی بھی نہیں‌بن سکا اور ساری دنیا میں صہیونی بے نقاب ہوتے جا رہے ہیں‌ ۔ ۔ شاید اب یہ کسی اور خطے کی تلاش میں ہیں‌ ۔ ۔ ۔ ۔ وللہ عالم بالصواب

چونکہ اس تبصرہ کا تعلق تاریخ سے ہے اور زمانے کے رواج کے مطابق عام طور پر نوشتہ تاریخ وہ ہوتی ہے جسے با اثر یا طاقتور لکھواتا ہے میں نے مناسب سمجھا کہ اپنا نظریہ سرِ ورق پر پیش کروں ۔

حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے اور اس تلخی کو برداشت کرنا ہی انسانیت کی کُنجی ہے ۔ فلسطینی اور پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت خود غرض اور کوتاہ اندیش ہے ۔ دنیا کی صرف یہ دو قومیتیں ایسی ہیں جن کی اکثریت اپنے ہی ہموطنوں کو بُرا کہتی ہے ۔ ان خوائص کی وجہ سے ان میں بِکنے والے بھی باقی قوموں سے زیادہ ہیں ۔ فلسطین کی اصل خیر خواہ جماعت حماس ہی ہے جو پہلے صرف دین کی تبلیغ و اشاعت کرتی تھی پھر اپنوں کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے مسلحہ جد و جہد آزادی میں شامل ہو گئی ۔ جن لوگوں نے فلسطین کی آزادی کی جد و جہد شروع کی تھی ان میں عیسائی بھی شامل تھے ۔ پھر یاسر عرفات کہیں سے نمودار ہوا اور امریکہ کے خلاف بولنے کی وجہ سے چھا گیا ۔ اُس نے فلسطین کی جد و جہد آزادی کو بہت نقصان پہنچایا ۔ یاسر عرفات کے نائب جو جنگِ آزادی کے اصل کمانڈر ہوتے تھے یکے بعد دیگرے مرتے رہے مگر یاسر عرافات کو کسی نے مارنے کی کوشش نہ کی ۔ آخرِ عمر میں اُسے اپنی قوم کا کچھ خیال آیا تو اسرائیلی فوج کے ایک انتہاء پسند گروہ نے اسے مارنے کا منصوبہ بنایا ۔ ان دنوں یاسر عرفات شام میں تھا ۔ امریکی سی آئی اے نے حملہ سے قبل یاسر عرفات کو مع اسکے معتمد ساتھیوں کے اپنے ہیلی کاپٹر میں اُٹھایا اور پھر لبنان سے ہوائی جہاز کے ذریعہ الجزائر پہنچا دیا ۔ دراصل یاسر عرفات امریکہ کا ایجنٹ تھا ۔ یاسر عرفات جب تک طاقت میں رہا فلسطینی جد و جہد آزادی کے رہنما یکے بعد دیگرے مرتے رہے ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ الفتح اور حماس کی آپس میں جنگ شروع ہو گئی ۔

حماس کو اس وقت صرف ایران ہی نہیں شام کی بھی حمائت حاصل ہے جبکہ الفتح کو مصر اور دوسرے امریکہ کے غلام مسلمان ملکوں کی حمائت حاصل ہے ۔ آپ ذرا اپنے ملک پر غور کیجئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو جسے سامراج بالخصوص امریکہ کا دشمن سمجھا جاتا تھا اس نے امریکہ کی خواہش پوری کرتے ہوئے پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ کا کافی حصہ ضائع کر دیا اور باقی ماندہ کو بھی قوم کے سامنے نہ آنے دیا ۔ موجودہ صدر آصف زرداری کو ہی دیکھ لیں ۔ امریکہ کی فرماں برداری میں ڈالر حاصل کرنے کیلئے قوم و ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ۔ اپنی من مانی کرنے کیلئے اُس نے بھٹو خاندان کو تقریباً ختم کر دیا ہے ۔

رہی بات اسرائیل کے چالیس سالوں والی تو یہ چالیس سال حکومت کرنا نہیں تھا بلکہ چالیس سال در بدر پھرنا تھا ۔ فلسطین کو صیہونیوں [یہودیوں کی نہیں] اماجگاہ امریکہ کی ایماء پر برطانیہ نے بنایا اور امریکہ صیہونیوں کو پال پوس رہا ہے اور ان کی حفاظت بھی کر رہا ہے ۔ یہودیوں کی نہیں میں نے اسلئے لکھا ہے کہ اسرائیل کے حکمران فلسطین کے رہنے والے نہیں تھے ۔ انہیں روس اور یورپ سے لا کر یہاں بسایا گیا تھا ۔ یہ عمل 1905ء میں شروع ہوا ۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اللہ کی مخلوق پر ظُلم و استبداد کے نتیجہ میں قانونِ قدرت ضرور حرکت میں آئے گا لیکن ساتھ شرط یہ بھی ہے کہ جن پر ظُلم کیا جارہا ہے وہ خالقِ حقیقی کی طرف رجوع کریں

غزہ میں بہتا خون کیا کہتا ہے

اتنا تو ارزاں نہ تھا مسلماں کا لہو
آج جو ہر طرف وحشیانہ طریقہ سے مسلمانوں کے لہو سے خوفناک ہولی کھیلی جا رہی ہے اور بلاتمیز مرد یا عورت ۔ جوان یا بوڑھے یا بچے مسلمانوں کے جسموں کے چیتھڑے اُڑائے جا رہے ہیں اس کا بنیادی سبب تو ازل سے طاغوتی طاقتوں کا  اللہ  کے نام لیواؤں سے عناد ہے لیکن ان اللہ کے دشمنوں کے حوصلے بلند ہونے کی وجہ آج کے دور کے مسلمانوں کی اپنے دین سے دُوری ہے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے اللہ سے ڈرنے اور اللہ ہی سے مدد مانگنے کی بجائے طاغوتی طاقتوں سے ڈرنا اور مدد مانگنا شروع کر دیا ہے [نیچے غزہ میں اسرائیلی دہشتگری کی جھلکیاں]

خود کو انسانیت کا پرستار اور مسلمانوں کو دہشتگرد کہنے والا امریکہ فلسطین میں اسرائیل کے روا رکھے ہوئے قتلِ عام کے متعلق کیا کہتا ہے ۔ نیچے پڑھیئے ۔ اگر اب بھی مسلمانوں خصوصاً حکمرانوں کو ہوش نہ آیا تو پھر مسلمانوں کو اپنی تباہی کیلئے تیار ہو جانا چاہیئے

امریکی صدر جارج بش نے کہا ہے  کہ تمام فریقین حماس پر زور دیں کہ وہ اسرائیل پر حملے روک دے۔ غزہ کی صورتحال پر پہلے بیان میں صدر بش کا کہنا تھا کہ غزہ میں اسمگل کئے گئے ہتھیاروں کی مانیٹرنگ تک جنگ بندی کا معاہدہ قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی جنگ بندی قبول نہیں جس میں اسرائیل پر راکٹ حملے جاری رہیں۔ صدر بش کا کہنا تھا کہ حماس کے حملے دہشتگردی ہیں۔ صدر بش نے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ اسرائیل پر حملے روکنے کیلئے دباؤ ڈالیں

وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی پریس سیکرٹری گورڈن جونڈرو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکا نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ چاہے فضائی حملہ کرے یا زمینی لیکن اس دوران عام شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنے کی کوشش کرے۔ اسرائیل نے غزہ پر زمینی حملے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں فوجی جمع کرلئے ہیں۔ ادھر امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزا رائس نے کہا ہے کہ امریکا غزہ میں ایک ایسے سیزفائر کی کوشش کر رہا ہے جس کے بعد حماس غزہ سے باہر راکٹ حملے کرنے کے قابل نہ رہے۔

اگر پاکستانی مسلمانوں کا بھی حال ایسا ہی رہا جیسا ہے تو جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہی یا اُس سے بھی بھیانک حال پاکستان کا ہو سکتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ اس کی منصوبہ بندی کے بعد اس پر عمل شروع ہو چکا ہے ۔ اِبتداء امریکہ کے حُکم پر لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر فوجی کاروائی کر کے 1000 کے قریب بیگناہ انسانوں جن میں 600 سے زائد کم سٍن یتیم اور لاوارث بچیاں شامل تھیں کی ہلاکت سے ہوئی ۔ اسکے بعد امریکہ کے پاکستان کو کمزور کرنے کے منصوبہ کے تحت پاکستانی حکومت نے قبائلی علاقہ میں اپنی فوج کو اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کرنے پر لگا رکھا ہے ۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان کی معیشت انتہائی کمزور ہو چکی ہے ۔ پھر بھی امریکہ کی طرف سے “ڈُو مَور” کا وِرد ہو رہا ہے ۔ اور اب امریکہ کی شہہ پر بھارت بھی اس راگ میں شامل ہو گیا ہے

مکمل تباہی سے بچنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ خودغرضیوں کو چھوڑ کر قومی بہتری کیلئے جد و جہد کی جائے ۔پاکستانی مسلمان اپنی بقاء اور اپنے اور اپنی آنے والی نسل کیلئے باعزت زندگی کی خواہش رکھتے ہیں تو ابھی بھی وقت ہے کہ اپنی غلطیوں پر پشیمان ہو کر اپنے پیدا کرنے والے جو اس کائنات کا خالق و مالک ہے اور اس کے نظام کو چلا رہا ہے سے اپنی ماضی کی غلطیوں کی معافی مانگیں اور آئیندہ اللہ کی ہدائت کے مطابق چلنے کی سچے دل سے بھرپور کوشش کریں ۔ انسانوں سے جو کہ ہمیشہ رہنے والے نہیں ہیں ڈرنے کی بجائے اللہ سے ڈریں

مت بھولیں کہ اللہ نے ہمیں بھیجی گئی کتاب میں ہر چیز واضح طور پر بیان کر دی ہوئی ہے اور ہم اس سے استفادہ نہیں کرتے ۔ خُدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی ۔ نہ ہو جس کو خیال خُود اپنی حالت بدلنے کا ۔ علامہ اقبال نے اس شعر میں اس آیت کا مدعا پیش کیا ہے ۔
سورت 53 ۔ النّجم ۔ آیت 39 ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔ ترجمہ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

اللہ ہمیں اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرنے اور سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

امریکہ ٹوٹنے کی طرف گامزن

دنیا میں بڑی بڑی سلطنتیں بنیں ۔ جن میں عاد و ثمود ۔ کسرٰی ۔ نمرود اور فرعون مشہور ہیں ۔ ان کے دور کے متعلق جو معلومات ہمیں ملتی ہیں یہی ہیں کہ ان لوگوں نے بہت ترقی کی اور آرام و آسائش کے بہت سے وسائل حاصل کئے ۔ یہ حُکمران اتنے طاقتور ہو گئے کہ اپنے آپ کو نعوذ باللہ من ذالک خدا سمجھ بیٹھے ۔ جو اُن کا باجگذار نہ بنتا اُس پر ظُلم کرتے ۔ وہ مِٹ گئے اور اُن کی سلطنتیں جن پر اُنہیں گھُمنڈ تھا اُن کا بھی نام و نشان مٹ گیا سوائے فرعون کے جس کے متعلق مالک و خالقِ کائنات کا فیصلہ تھا کہ رہتی دنیا تک اُسے عبرت کا نشان بنایا جائے گا ۔ سو فرعون کی حنوط شُدہ نعش ۔ ابوالہول کا مجسمہ اور احرامِ مصر آج بھی موجود ہیں ۔

ایک صدی قبل تک مسلمانوں کی سلطنت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تھی مگر اللہ کے احکامات کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے 1915ء میں بکھر گئی ۔ مسلمانوں کی سلطنت بکھرنے کے بعد روسی اشتراکی جمہوریتوں کا اتحاد اور ریاستہائے متحدہ امریکہ طاقت پذیر ہوئے اور اپنے آپ کو سُپر پاور کا خطاب دے دیا ۔

بہت دُور کی بات نہیں کہ ان میں سے ایک سُپر پاور روس نے طاقت کے بل بوتے قریبی ریاستوں پر قبضہ کرنا شروع کیا اور پولینڈ ۔ بیلارس ۔ لتھوانیا ۔ ایسٹونیا ۔ لیٹویا ۔ سلوواکیا ۔ چیک ۔ کروشیا ۔ سربیا ۔ رومانیہ ۔ بوسنیا ۔ ہرزیگووینا ۔ بلغاریہ اور مالدووا پر قبضہ کر کے مسلمانوں اور مذہبی عیسائیوں کو اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا اور جس نے ایسا نہ کیا اسے جان سے مار ڈالا یا کال کوٹھڑی میں ڈال دیا اور اس طرح روسی اشتراکی جمہوریتوں کا اتحاد قائم کیا ۔ یہیں بس نہ کیا بلکہ یورپ سے باہر بھی اپنا عمل دخل بڑھانا شروع کر دیا اور اسی عمل میں افغانستان پر قبضہ اس سُپر پاور کے ٹوٹنے کا بہانہ بنا ۔

روسی اشتراکی جمہوریتوں کا اتحاد ٹوٹنے کے بعد ریاستہائے متحدہ امریکہ کے حُکمران جو پہلے ہی کئی ممالک پر قبضہ کر چکے تھے مزید خُودسَر ہو گئے اور مسلمانوں کو تیزی سے ختم کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے تاکہ ان کے مقابل کوئی کھڑا نہ ہو سکے ۔ اس پر عمل درآمد کیلئے پہلے ڈبلیو ایم ڈی کا بہانہ گھڑ کر عراق پر حملہ کیا پھر افغانستان پر حملہ آور ہوا ۔ افغانستان پر حملہ سے پہلے خود ہی ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو اسلئے گرا دیا کہ دنیا کی ناجائز حمائت حاصل کی جائے ۔

امریکی حکمرانوں کی ہوّس اور بے حِسی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ اپنی خواہش کی تکمیل کیلئے لاکھوں بے کس لوگوں کو بے گھر کرنے اور اں کے ہاتھ سے رزق چھننے اور ہزاروں لوگوں کے جسموں کے چیتھڑے اُڑانے میں بھی دریغ نہیں کرتے ۔ اب اُن کی آنکھیں واحد مسلم ایٹمی طاقت پر گڑی ہیں ۔ اُن کا مقصد دنیا میں غیر مسلموں کے مکمل غلبے کے سوا کچھ نہیں

اس خود غرضی کی جنگ میں امریکی عوام بُری طرح سے جکڑے جا چکے ہیں ۔ امریکی عوام کو شاید اب تک سمجھ نہیں آئی کہ اُن کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔ اُن کے حکمرانوں کی بنائی ہوئی نام نہاد “دہشتگردی کے خلاف جنگ” نے جو تحفے امریکی عوام کو دیئے ہیں وہ ہیں ۔ عراق میں 5000 کے قریب امریکی فوجی ہلاک ۔ ڈیڑھ لاکھ کے قریب فوجی زخمی اور 167 امریکی فوجی خود کشی کر کے ہلاک ۔ امریکی عوام میں بے چینی کو بڑھنے سے روکنے کیلئے امریکی حکمرانوں نے افغانستان میں ہونے والے نقصانات کو ظاہر نہیں ہونے دیا لیکن وہاں بھی عراق سے کم نقصان نہیں ہوا ۔ معاشی لحاظ سے اس خودغرضی کی جنگ نے ریاستہائے متحدہ امریکہ کو کھوکھلا کر دیا ہے ۔ اب تک اس جنگ میں 10 کھرب یعنی ایک ٹریلین ڈالر جھونکا جا چکا ہے ۔ اور امریکیوں کو بونس کے طور پر دنیا کے لوگوں کی اکثریت کی نفرت ملی ہے ۔ اس سب نقصان کے بعد صورتِ حال یہ ہے کہ بظاہر پورے عراق پر امریکہ کی حکمرانی ہے مگر افغانستان میں کابل سے باہر مُلا عمر کا سکہ چلتا ہے ۔

ایک حقیقت جو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے حکمرانوں نے پیشِ نظر نہیں رکھی وہ قانونِ قدرت ہے جس پر عمل ہوتا آیا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے خلقِ خدا کو ناحق قتل کیا یا برباد کیا وہ خود بھی برباد ہوا اور اُس کا نام و نشان مٹ گیا

دنیاوی طور پر دیکھا جائے تو کوئی شخص پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کے بعد وہا ں زیادہ وقت قیام نہیں کر پاتا اور اُسے نیچے اُترنا پڑتا ہے خواہ وہ جہاں سے اُوپر گیا تھا اُسی طرف اُترے یا پہاڑ کے دوسری طرف ۔ انسان کو ہی دیکھ لیں پہلے بچہ ہوتا ہے پھر جوان اور پھر بوڑھا یعنی کمزور سے طاقتور بننے کے بعد کچھ عرصہ طاقتور رہتا ہے اور پھر کمزور ہو جاتا ہے ۔ فارسی کا ایک قدیم مقولہ ہے “ہر کمالے را زوالے”۔ یعنی کمال حاصل کرنے کے بعد زوال لازم ہے ۔

ایک تعلیم یافتہ شخص جس کا تعلق جموں کشمیر کے اُس علاقہ سے تھا جس پر 1947ء سے بھارت کا غاصبانہ استبدادی قبضہ ہے اور جس نے افغانستان پر سوویٹ یونین کے قبضہ کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا کو اُس کے علم اور تجربہ کی بنیاد پر گیارہ سال قبل ایک مجلس میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کیلئے مدعو کیا گیا ۔ اُس نے افغانستان میں جنگِ آزادی کے متعلق اپنے تجربات اور مشاہدات کا ذکر کرنے کے بعد کہا “آپ نے دیکھا کہ سوویٹ یونین جیسی سُپر پاور ٹوٹ گئی ۔ ایسا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔ اب سوویٹ یونین کا کام بھی امریکہ نے سنھال لیا ہے ۔ آپ نوٹ کر لیجئے کہ آج سے 14 سال کے اندر امریکی ایمپائر ٹوٹ جائے گی”۔

روسی پروفیسر اِیگور پانارِن [Igor Panarin] نے کئی سال قبل پیشگوئی کی تھی کہ 2010ء میں امریکہ میں خانہ جنگی کے بعد موجودہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی سلطنت ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گی ۔

آج ریاستہائے متحدہ امریکہ کے حکمران اس ترجیح پر عمل پیرا ہیں کہ “ہم ایک ایمپائر ہیں ۔ جب ہم قدم اُٹھاتے ہیں تو اپنی پسند کی حقیقت کو جنم دیتے ہیں ۔ لوگ ابھی اس حقیقت کے مطالعہ میں لگے ہوتے ہیں کہ ہم قدم بڑھا کر نئے حقائق پیدا کر دیتے ہیں ۔ بیشک لوگ اُن کا بھی مطالعہ کریں ۔ ہم تاریخ ساز ہیں اور باقی سب لوگ صرف ہماری بنائی ہوئی تاریخ کو پڑھنے کیلئے ہیں”

لیکن آنے والے کل کی کسی کو کیا خبر ۔ البتہ دیکھنے والی آنکھیں دیکھ رہی ہیں اور سوچنے والے دماغ سمجھ چکے ہیں کہ مستقبل قریب میں کیا ہونے والا ہے ۔

پچھلے نو سال کی اس مہم جوئی کے نتیجہ میں امریکی معیشت خطرناک حد غوطہ لگا کر کساد بازاری کا شکار ہے اور مزید اخراجات کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ ساتھ ہی بے روزگاری نئی بلندیوں کو چھُو رہی ہے ۔ اگر امریکی حکمرانوں کے یہی طور رہے تو وہ وقت دُور نہیں جب امریکی عوام احتجاج پر مجبور ہو جائیں گے اور مر جاؤ یا مار دو کے ارادوں سے سڑکوں پر نکل آئیں گے ۔ عوامی حقوق کی یہ جد و جہد خانہ جنگی کی صورت اختیار کر کے واحد سُپر پاور کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر سکتی ہے ۔ لگتا ہے کہ حکمران اس صورتِ حال کی توقع رکھتے ہیں اسی لئے 2008ء کے اواخر میں 20000 فوجیوں کا چناؤ کیا جا چکا ہے جنہیں اگلے تین سال میں شہریوں کے بلووں سے نپٹنے کی تربیت دی جائے گی