Yearly Archives: 2009

بھارت نیا مشروب پیش کرتا ہے ۔ گائے کا پیشاب

راشٹریہ سوامی سیوک سَنگھ خالص ہندو مشروب [گائے کا پیشاب] بھارت میں متعارف کرانے کی عملی طور پر تیاری کر رہی ہے ۔ اس مشروب کو پائدار بنانے کیلئے تجربات شروع ہو چکے ہیں جو اگلے دو تین ماہ تک جاری رہنے کی توقع ہے ۔

[سیوک سَنگھ۔ مہاسبھا اور اکالی دل وہ جماعتیں ہیں جن کے تربیت یافتہ جتھوں نے ہندو فوجیوں کی پُشت پناہی سے 1947ء میں جموں ۔ مشرقی پنجاب اور گرد و نواح میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا]

گائے کے پیشاب کو ہندو بہت متبرک جانتے ہیں اور ہندوؤں کے تہواروں پر اکثر ہندو اپنے پاپ [گناہ] جھاڑنے کیلئتے گائے کا پیشاب پیتے ہیں ۔ ہندوؤں کا دعوٰی ہے کہ گائے کے پیشاب میں 70 کے لگ بھگ بیماریوں کا علاج موجود ہے اور اس سے پوری دنیا کے لوگ استفادہ حاصل کر سکیں گے ۔ اسلئے یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ گائے کے پیشاب سے بھری بوتلوں کی ترسیل دنیا کے تمام ممالک کو کی جائے گی ۔

عام رواج ہے کہ بچہ پیدا ہونے پر گٹی یا گڑتی دی جاتی ہے یعنی بچے کے منہ میں پہلی کوئی چیز ڈالنا جو عام طور پر قدرتی شہد کا ایک قطرہ یا مصفّا پانی کی ایک چھوٹی چمچی ہوتا ہے اور کوئی نیک خاتون یا ماں کے علاوہ بچے سے بہت زیادہ نزدیک خاتون دیتی ہیں ۔

ہم نے بچپن میں سُنا تھا کہ جب کسی ہندو کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو اُسے گٹی یا گڑتی کے طور پر گائے کے پیشاب کی ایک چمچی پلائی جاتی ہے ۔ لیکن میرا چشم دید واقع یہ ہے کہ 1947ء کے شروع میں میں بازار میں جا رہا تھا کہ ایک گائے نے پیشاب کیا اور قریب سے گزرتے ہوئے ایک پینتیس چالیس سالہ ہندو کا آدھا پاجامہ گائے کے پیشاب سے بھیگ گیا ۔ میں نے ناک منہ چڑھایا لیکن ہندو شخص بخوشی ‘پاپ جھڑ گئے” کہتا ہوا چلا گیا ۔

حقائق جاں گُداز ہیں یا رب ۔ بڑھا دے حوصلہ میرا

کِسے روئیں اور کِسے دلاسا دیں
یا رب ۔ تیرے بندے کدھر جائیں

پہلے ایک خبر جس کی شاید کسی پاکستانی کو توقع نہ ہو ۔ پھر ایک انٹرویو

خبر
امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی چیئر پرسن اور کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی سینئر خاتون سینیٹر ڈیان فائن اسٹائن نے کہا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حملوں کیلئے امریکی ادارے سی آئی اے کے ڈرون [بغیر پائلٹ طیارے] پاکستان سے ہی اڑائے جاتے ہیں۔ کمیٹی کے اجلاس کے دوران چیئرپرسن ڈیان فائن اسٹائن نے قبائلی علاقوں میں امریکی حملوں پر پاکستان کے احتجاج پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ طیارے پاکستان ہی سے اڑائے جاتے ہیں۔ سی آئی اے نے ڈیان فائن اسٹائن کے بیان پر تبصرے سے انکار کردیا ہے تاہم سابق انٹیلی جنس افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کمیٹی چیئرپرسن کا موقف درست ہے۔ ادھر فائن اسٹائن کے ترجمان فلپ جے لا ویلے نے کہا ہے کہ کمیٹی چیئرپرسن کا بیان واشنگٹن پوسٹ میں شایع ہونیوالے بیانات پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خبر پہلے ہی اخبار میں شایع ہوچکی ہے کہ جاسوس طیارے اسلام آباد کے قریب ایک ائر بیس سے اڑائے جاتے ہیں۔

انٹرویو
اس نے کہا کہ آپ نے ایک عورت کی کہانی لکھی جو بیوہ تھی اور اپنے بچوں کو پالنے کے لئے نوکری کر رہی تھی لیکن ہم نے اس عورت کو قتل کر دیا ۔ اگر آپ کو جاننا ہے کہ اس بیوہ عورت کو کس نے قتل کیا تو آپ مینگورہ تشریف لائیے ہم آپ کو اس عورت کی بہن اور بہنوئی سے ملوا دیں گے اور وہ آپ کو بتا دیں گے کہ اسے ہم نے نہیں بلکہ اس کے ایک رشتہ دار نے قتل کیا ۔ میں نے فون کرنے والے سے کہا کہ ابھی چند دن قبل سوات سے ہو کر آیا ہوں بار بار اتنا لمبا سفر کرنے کی ہمت نہیں آپ مجھے مقتولہ کے بہنوئی کا فون نمبر دے دیں میں رابطہ کر لوں گا

فون کسی اور نے لے لیا اور پنجابی میں مجھے کہا گیا کہ جب آپ ہمیں دیکھیں گے تو پہچان لیں گے لہٰذا گھبرائیے نہیں ۔ مجھے یہ آواز جانی پہچانی لگی اور میں نے ہمت کر کے ملاقات کے لئے حامی بھر لی لیکن طے ہوا کہ ملاقات بٹ خیلہ میں نہیں بلکہ مردان میں ہوگی۔ اگلی دوپہر مردان اور تخت بھائی کے درمیان ایک چھوٹے سے ہوٹل میں ملاقات ہوئی تو میں نے عبداللہ کو فوراً پہچان لیا۔ یہ گورا چٹا باریش نوجوان مجھے اسلام آباد لال مسجد میں عبدالرشید غازی صاحب کے اردگرد نظر آیا کرتا تھا۔ عبداللہ کے ساتھ تین دیگر افراد بھی تھے جن میں دو کی جیکٹوں کے نیچے چھپا ہوا اسلحہ مجھے نظر آرہا تھا اور تیسرا شخص مقتولہ زینب کا بہنوئی تھا۔ یہ سہما ہوا شخص بالکل خاموش تھا۔ عبداللہ نے اس سہمے ہوئے شخص کو حکم دیا کہ میر صاحب کو بتاؤ کہ تمہاری بیوہ سالی کوطالبان نے نہیں بلکہ اس کے چچا نے قتل کیا۔ خوفزدہ شخص نے محض اثبات میں سر ہلا دیا۔ میں نے پوچھا کہ چچا نے کیوں قتل کیا؟ خوفزدہ شخص نے کہا کہ چچا کہتا تھا کہ ہمارے خاندان کی عورتیں نوکری نہیں کر سکتیں ۔ زینب نوکری سے باز نہ آئی تو چچا نے اسے قتل کر دیا۔

میں ہوٹل کی کھڑکی میں سے بار بار اپنے ڈرائیور اور محافظ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ عبداللہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ گھبرائیے نہیں، ہم آپ کو اغوا نہیں کریں گے ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سوات کے علاقے میں ہونے والے ہر جرم، قتل، ڈکیتی اور اغوا کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی۔ یہ سن کر میں کچھ بے چین ہو گیا اور میں نے کرسی پر پہلو بدل کر عبداللہ سے کہا کہ سوات میں 200 سے زائد گرلز اور بوائز اسکولوں کو تباہ کرنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ عبداللہ کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی اور اس نے کہا کہ جب ان اسکولوں کو فوج اپنے مورچے بنا لے تو پھر ان اسکولوں کو تباہ کرنا جائز ہے۔ آپ کو ہمارے تباہ کئے ہوئے اسکول تو نظر آتے ہیں لیکن جن اسکولوں میں فوج کے مورچے قائم ہیں آپ دنیا کو وہ کیوں نہیں دکھاتے؟

میں نے اعتراف کیا کہ میڈیا اتنا مضبوط نہیں جتنا اسے سمجھا جاتا ہے لیکن اسکولوں کو تباہ کرنا اور گداگر عورتوں کو قتل کرنا صرف میڈیا کے نزدیک نہیں بلکہ عام پاکستانیوں کے نزدیک بھی غیر اسلامی ہے۔ یہ سن کر عبداللہ نے سخت سرد موسم میں پانی کا گلاس غٹاغٹ پیا اور زہریلے لہجے میں بولا کہ یہ عام پاکستانی اس وقت کہاں تھے جب اسلام آباد کی لال مسجد پر بم برسائے گئے اور جب جامعہ حفصہ پر بلڈوزر چلائے گئے تو کیا وہ سب کچھ اسلامی تھا؟

میرا جواب یہ تھا کہ عام پاکستانی اس وقت بھی بے اختیار تھے اور آج بھی بے اختیار ہیں، عام پاکستانیوں کی بڑی اکثریت نے جامعہ حفصہ کے خلاف آپریشن کو غلط سمجھا اور اس آپریشن کی ذمہ دار حکومت کے خلاف 18 فروری کے انتخابات میں ووٹ کا ہتھیار استعمال کیا لہٰذا لال مسجد اور جامہ حفصہ کے خلاف آپریشن کی سزا عام پاکستانیوں اور ان کی بچیوں کو دینا بالکل ناجائز ہے۔

عبداللہ میری کسی دلیل کو تسلیم کرنے پر راضی نظر نہ آتا تھا۔ اس نے کہا کہ ایک بیوہ عورت کے قتل پر آپ نے پورا کالم لکھ دیا، پاکستان کی این جی اوز مینگورہ کی ایک ڈانسر شبانہ کے قتل پر لانگ مارچ کے اعلانات کر رہی ہیں لیکن جب جامعہ حفصہ کی سینکڑوں بچیوں کو فاسفورس بموں سے جلا کر راکھ کیا گیا اس وقت یہ این جی اوز کہاں تھیں؟ 18 فروری سے پہلے مشرف کی مخالف سیاسی جماعتیں کہتی تھیں کہ وہ اقتدار میں آکر مشرف کا محاسبہ کریں گے اور جامعہ حفصہ کو دوبارہ تعمیر کریں گی لیکن مشرف تو آزادانہ پوری دنیا میں گھوم رہا ہے اور اس کی پالیسی بھی جاری ہے، امریکی جاسوس طیاروں کے حملے بھی جاری ہیں کچھ بھی نہیں بدلا۔ آپ کی نام نہاد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قرارداد منظور کی گئی کہ قبائلی علاقوں اور سوات سے فوج واپس بلائی جائے گی اور معاملات ڈائیلاگ سے حل کئے جائیں گے لیکن فوج واپس نہیں بلائی گئی بلکہ ہم پر فضائی بمباری ہوگئی لہٰذا ہم بھی وہی کریں گے جو ہمارے ساتھ کیا جا رہا ہے اور یاد رکھیئے کہ ہم اسلام آباد سے زیادہ دور نہیں ہیں۔

میں نے عبداللہ سے کہا کہ تم گوجرانوالہ کے رہنے والے ہو تمہارا خاندان وہاں محفوظ ہے لیکن تم سوات والوں کو غیر محفوظ بنا رہے ہو۔ عبداللہ تنک کر بولا کہ میں لال مسجد کے قتل عام کا انتقام لے رہا ہوں، میرے ساتھ باجوڑ کے وہ نوجوان شامل ہیں جن کے گھر فوجی آپریشن میں تباہ ہوئے اور جب تک انتقام مکمل نہیں ہوتا وہ چین سے نہیں بیٹھے گا۔

میں نے اپنا لہجہ تبدیل کیا اور منت کرتے ہوئے کہا کہ تم اپنے انتقام سے اسلام کو بدنام کر رہے ہواللہ کے واسطے ڈائیلاگ کی طرف آؤ۔ میری بات سن کر وہ ہنسنے لگا اور مجھے یاد دلاتے ہوئے کہنے لگا کہ میر صاحب آپ نے عبدالرشید غازی کو بھی ڈائیلاگ کا مشورہ دیا تھا، انہوں نے ڈائیلاگ شروع کر دیا، بہت کچھ مان بھی گئے لیکن مشرف نے انہیں شہید کروا دیا، مشرف ابھی تک زندہ ہے، ہمیں انصاف نہیں ملا لہٰذا ڈائیلاگ کی بات نہ کرو ہمیں کسی پر اعتبار نہیں رہا۔

خلاء میں ٹریفک کا حادثہ

خلاء میں امریکی اور روسی سیٹیلائٹ ٹکراکر تباہ ہوگئے ۔ ناسا حکام کے مطابق دونوں سٹیلائٹس میں تصادم کا واقعہ سربیا سے500 میل خلاء میں پیش آیا ہے ۔ تصادم کے نتیجے میں دونوں سیٹیلائٹس کے ٹکڑوں سے گہرے سیاہ بادل پیدا ہوگئے ۔ حکام کے مطابق1997ء میں خلاء میں بھیجے جانے والے نجی امریکی کمرشل سیٹیلائٹ اور روسی سیٹیلائٹ کے درمیان تصادم ہوا ہے ۔ حکام کے مطابق ایک سیٹیلائٹ کی وزن 1000 پونڈ سے زیادہ تھا [جنگ]

بلاشُبہ انسان نے بہت ترقی کر لی ہے اور مزید ترقی کر کے کمال کے قریب سے کریب تر ہو سکتا ہے لیکن کامل نہیں ہو سکتا ۔ کامل اوربے عیب صرف اللہ کی ذات ہے

نقصان سے بچیئے اور دوسروں کو بھی بچایئے

ہم نے کئی بار اپنا ۔ اپنے بچوں کا یا رشتہ داروں کا سامان مُلک کے اندر ایک شہر سے دوسرے شہر ۔ پاکستان سے دوسرے مُلک کو یا دوسرے مُلک سے پاکستان بھجوایا مگر جو دھوکہ ٹرانسپَیک [Transpack] نے حال ہی میں میرے بیٹے زکریا کا سامان اسلام آباد سے اٹلانٹا [امریکا]بھجواتے ہوئے کیا یہ کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔ یہ ٹرانسپَیک سے ہمارا پہلا واسطہ [dealing] تھا ۔ اسلئے لکھ رہا ہوں کہ ہمارے ساتھ جو دھوکہ ہوا اس سے دوسرے ہموطن بچ سکیں ۔

جب بھی سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجا جائے تو تمام اخراجات اور معاملات تفصیل کے ساتھ کمپنی سے لکھوا کر کمپنی کے مجاز افسر کے دستخط کروا کر اس پر کمپنی کی مہر بھی لگوا لینا بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ ٹرانسپَیک والے نہ صرف اپنی زبان سے پھر گئے بلکہ اپنی ای میلز میں لکھے ہوئے سے بھی پھر گئے ۔
اوّل ۔ ٹرانسپَیک نے وعدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سامان ایک ماہ تاخیر سے روانہ کیا ۔
دوم ۔ ہم نے ٹرانسپَیک کو 136687 روپے ادا کئے تھے جن میں ٹرانسپَیک کے مطابق سامان کی پیَکنگ [packing] اور اسلام آباد میں ہمارے گھر سے اٹلانٹا تک پہنچانے کے تمام اخراجات شامل تھے لیکن ٹرانسپَیک نے شِپر [shipper] کو صرف اسلام آباد سے کراچی تک ٹرک ۔ کراچی سے نیو یارک تک بحری جہاز اور نیو یارک سے اٹلانٹا تک ٹرک کا کرایہ ادا کیا جس کے نتیجہ میں نیو یارک میں شِپر کو 318 امریکی ڈالر اور اٹلانٹا میں مزید 251 امریکی ڈالر یعنی کُل 569 امریکی ڈالر زکریا نے فالتو دیئے جو وعدہ کے مطابق ٹرانسپَیک کو دینا چاہیئے تھے ۔

مختصر واقعہ یوں ہے کہ زکریا کا کچھ سامان اٹلانٹا بھیجنے کیلئے میں نے ٹرانسپَیک سے رابطہ کیا ۔ ٹرانسپَیک کے چارجز باقی تمام کمپنیوں کی نسبت زیادہ تھے ۔ یہ سوچ کر کہ پرانی اور بڑی کمپنی ہے ہم نے ان پر بھروسہ کیا ۔ اُن کے نمائندے نے اگست 2008ء میں ہمارے گھر آ کر سارے سامان کی پیمائش کر کے بتایا کہ اس کا حجم 5 سے 6 کیوبک میٹر ہو گا اور پَیکنگ اور اسلام آباد ہمارے گھر سے اٹلانٹا جارجیا امریکہ پہنچانے کے کل اخراجات 225 امریکی ڈالر فی کیوبک میٹر ہوں گے ۔ سامان چونکہ بطور ساتھ لیجانے والا سامان [accompanied baggage] بھیجنا تھا چنانچہ 5 اکتوبر 2008ء کو زکریا کے اسلام آباد آنے پر میں نے ٹرانسپَیک کو کہا کہ سامان بھیجنے کا بندوبست کریں ۔

ٹرانسپَیک کے آدمی 13 اکتوبر کو آئے اور سامان لے گئے ۔ اُس وقت اُن کے متعلقہ افسر جس نے اگست میں سامان دیکھ کر کہا تھا کہ 5 اور 6 کیوبک میٹر کے درمیان ہے مجھے بتایا کہ سامان 7.2 کیوبک میٹر ہے یعنی ٹرانسپَیک کے ماہر اور تجربہ کار افسر کا اندازہ اتنا زیادہ غلط نکلا ۔ اگلے روز میں ٹرانسپَیک کے دفتر اُن کے ایگزیکٹِو ڈائریکٹر توصیف علوی صاحب کے پاس رقم کی ادائیگی کیلئے گیا ۔ ایک تو اُنہوں نے کہا کہ 7.2 مکمل ہندسہ [whole number] نہیں اسلئے 7.5 کیوبک میٹر کی بنیاد پر پیسے لئے جائیں گے ۔ بات غیر معقول تھی لیکن میں خاموش رہا ۔ جب بل [bill] بنایا تو 230 امریکی ڈالر فی کیوبک میٹر کے حساب سے تھا ۔ میں نے اُنہیں کہا کہ آپ کے نمائندہ نے مجھے 225 ڈالر بتایا پھر دو دن قبل آپ نے بھی 225 ڈالر ہی بتایا اور اب بل 230 ڈالر کے حساب سے بنا دیا ہے ۔ بہت لیت و لعل کے بعد 225 ڈالر پر واپس آئے ۔ پھر 80 روپیہ فی ڈالر لگایا جب کہ بازار میں ڈالر 79 روپے کا مل رہا تھا ۔ 80 روپے فی ڈالر اور 225 ڈالر کے حساب سے 7.5 کیوبک میٹر کے 135000 روپے بنتے تھے لیکن بل 136687 روپے تھا ۔ پوچھنے پر توصیف صاحب نے بتایا کہ یہ متعلقہ اخراجات [allied charges] ہیں ۔ میں صرف ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا

متذکرہ بالا منظر سے گذرنے کے بعد میں نے توصیف صاحب سے پوچھا کہ امریکہ پہنچنے پر ہمیں مزید کوئی اخراجات تو نہیں دینا پڑیں گے ؟ اس پر توصیف صاحب نے مجھے بتایا کہ کسٹم کلیئرنس سے متعلق معمولی اخراجات ہوں گے اور کچھ دینا نہیں پڑے گا ۔ مزید میرے پوچھنے پر توصیف صاحب نے بتایا کہ سامان دو ہفتے کے اندر کراچی سے بحری جہاز پر روانہ ہو جائے گا اور مزید دو تین ہفتوں میں اٹلانٹا پہنچ جائے گا ۔ دو ہفتے بعد ٹیلیفون کیا تو معلوم ہوا کہ سامان کراچی کی طرف جا رہا ہے ۔ کافی شور شرابا کرتے رہنے کے بعد سامان 22 نومبر 2008ء کو کراچی میں بحری جہاز پر چڑھایا گیا یعنی 2 ہفتے کے اندر کی بجائے 6 ہفتے بعد

جہاز کے نیو یارک پہنچنے سے پہلے ہی زکریا کو مندرجہ ذیل بل وصول ہوا کہ یہ اخراجات ادا نہیں کئے گئے اسلئے ادا کئے جائیں ۔ ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں سامان بندرگاہ سے وصول نہیں کیا جائے گا اور سامان کا مالک ہرجانہ [demurrage] کا ذمہ دار ہو گا

DESCRIPTION – – – – – – – – – – PRE-PAID – – COLLECT
I. T. CHARGES – – – – – – – – – – – – 0.00 – – – – – – 30.00
HANDLING CHARGE – – – – – – – – – 0.00 – – – – – – 75.00
AMS CHGS – – – – – – – – – – – – – – — 0.00 – – – – – – 25.00
CDF CHGS – – – – – – – – – – – – – – – 0.00 – – – – – – 30.00
PORT SECURITY CHARGES – – — 0.00 – – – – – – 25.00
STRIPPING CHGS – – – – – – – – – – 0.00 – – – – – – 81.00
EXAM FEE – – – – – – – – – – – – – – — 0.00 – – – – – – 52.00
TOTAL – – – – – – – – – – – – – – — 0.00 – – – – – 318.00

میں نے توصیف صاحب سے یہ بل ادا کرنے کا کہا تو وہ آئیں وائیں شائیں کرتے رہے ۔ مجبورا ہو کر زکریا نے 318 ڈالر ادا کر دیئے کیونکہ ہرجانہ پڑنے کی صورت میں اسے کہیں زیادہ دینا پڑتے ورنہ سامان ہی ضبط ہو جاتا ۔ اس کے بعد میں نے توصیف صاحب سے بات کی تو اُنہوں نے بڑے وثوق کے ساتھ مجھے یقین دلایا کہ اس کے بعد ہمیں کوئی اور اخراجات نہیں دینا ہوں گے

جب سامان اٹلانٹا پہنچا تو 250.80 ڈالر کا بل زکریا کو ملا اور ساتھ وہی شرط کہ نہ دیئے تو ہرجانہ بھی دینا پڑے گا ۔ میں توصیف صاحب کے پاس گیا اور ان کی پھر وہی منطق تھی کہ یہ مقامی بل ہے اور اُن کی ذمہ داری نہیں حالانکہ ہم نے ٹرانسپَیک کو اسلام آباد سے اٹلانٹا تک کے تمام اخراجات ادا کئے ہوئے تھے ۔

اس سے قبل کے کئی ذاتی تجربات میں سے ایک حالیہ واقع جو ٹرانسپیک کے ساتھ ہونے والے تجربہ کا اُلٹ ہے

میں نے فروری 2008ء میں اپنے چھوٹے بیٹے کا سامان دبئی بھجوایا ۔ اس کیلئے میں نے پاکستان بیگیج کارپوریشن سے رابطہ کیا ۔ وہ پیکنگ نہیں کرتے اور نہ گھر سے سامان اُٹھاتے ہیں ۔ میں نے ان سے کہا کہ پیکنگ میں کروا لوں گا آپ گھر سے اُٹھانے اور کسٹم وغیرہ کا بندوبست کروا دیں ۔ وہ مان گئے اور کہا کہ گھر سے اُٹھانے اور کسٹم کلیئرنس سے جو اصل اخراجات ہوں گے وہ دینا ہوں گے ۔ پاکستان بیگیج کارپوریشن کے نمائندے نے سامان ہمارے گھر سے اُٹھا کر اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچایا ۔ اُس کی کسٹم کلیئرنس کروائی جس کیلئے اُنہیں چھ کے چھ ڈبے کھول کر دوبارہ پیک [repack
] کرنا پڑے اور کسٹم والوں کی ہدائت پر اُن کے اُوپر پلاسٹک بھی بازار سے لا کر چڑھانا پڑا ۔ ٹرک والے کو 500 روپے میں نے دیئے ۔ پاکستان بیگیج کارپوریشن والوں نے پلاسٹک کے تھیلوں کی قیمت اور باقی ساری کاروائی کے مجھ سے 750 روپے لئے

سامان جس کا وزن 200 کلو گرام تھا اس کا کُل خرچہ 12300 روپے ہم سے لیا کیونکہ ایک بہت قریبی دوست کی سفارش پر شِپر [shipper] نے کافی رعائت کر دی تھی ۔ سامان اسلام آباد سے بذریعہ ہوائی جہاز ابو ظہبی بھیجا گیا ۔ ابو ظہبی سامان پاکستان بیگیج کارپوریشن کے مقرر کردہ شِپر [shipper] نے اُتروایا اور کسٹم کلیئرنس کروائی ۔ پھر وہاں سے دوسرے دن ٹرک پر دبئی بھجوایا اور وہاں اُتروا کر میرے بیٹے کے حوالے کیا ۔ ابوظہبی میں کرائی گئی کسٹم کلیئرنس کے 28 درہم میرے بیٹے سے لئے

خُدا را آنکھیں کھولو

ایک گروپ کے اصرار پر میں نے لیکچر دینے کی حامی بھر لی۔ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ہال میں تقریباً 125 پڑھے لکھے حضرات ملک بھر سے موجود ہیں۔ کوئی پچاس منٹ کی گفتگو اور اتنے ہی وقت پر محیط سوال و جواب کے سیشن کے بعد باہر نکلا تو ایک گورے چٹے رنگ والا خوبرو نوجوان عقیدت مندی کے انداز میں میرے ساتھ چلنے لگا۔ اس نے نہایت مہذب الفاظ میں اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ

“میرا تعلق وزیرستان سے ہے ۔ میں آپ کو واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ میرے علاقے وزیرستان میں ہر شخص ایک انجانی موت کے خوف تلے زندگی گزار رہا ہے کیونکہ وہ محسوس کرتا ہے کہ کسی لمحے بھی امریکی ڈرون کے میزائل یا طالبان یا دہشت گردوں یا پاکستانی فوج کی گولی اس کی زندگی کا چراغ بجھا دے گی۔ ہمارے ایک سروے کے مطابق وزیرستان کے 90 فیصد لوگ ذہنی مریض بن چکے ہیں، بے چارگی اور بے بسی نے ان سے زندہ رہنے کا احساس چھین لیا ہے، لوگ حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کیلئے رکا، اس نے نگاہیں جھکا لیں اور خوفزدگی کے عالم میں کہا سر! ہمارے لوگ اب پاکستان سے علیحدگی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو ملک اور اس کی حکومت ہمیں احساس تحفظ نہیں دے سکتی اس ملک کے ساتھ رہنے کا کیا فائدہ؟”

اس کا یہ فقرہ سن کر مجھے ایک جھٹکا سا لگا بلکہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں امریکی ڈرون کے میزائل کا نشانہ بن گیا ہوں۔ میں چلتے چلتے رک گیا۔

ڈاکٹر صفدر محمود کی تحریر سے اقتباس ۔ بشکریہ جنگ

دہشتگرد حکمران

چیف آف سٹاف اسرائیل آرمڈ فورسز تو 1953ء میں ہی ایک بدنام زمانہ دہشت گرد موشے دیان بن گیا تھا مگر صیہونی دہشت گرد تنظیمیں [ارگون ۔ لیہی ۔ ہیروت ۔ لیکوڈ وغیرہ] اسرائیل میں 1977ء تک حکومت میں نہ آسکیں اس کے باوجود فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و تشدّد ہوتا رہا ۔ 1977ء میں ارگون کے لیڈر مناخم بیگن نے وزیراعظم بنتے ہی غزہ اور باقی علاقے میں جن پر 1967ء میں قبضہ کیا گیا تھا زمینی حقائق کو بدلنے کے لئے تیزی سے یہودی بستیاں بسانی شروع کر دیں تا کہ کوئی ان سے علاقہ خالی نہ کرا سکے ۔ ان صیہونی تنظیموں کا پروگرام ایک بہت بڑی صیہونی ریاست بنانے کا ہے جس کا ذکر میں اس سے قبل کر چکا ہوں ۔ یہ نقشہ تھیوڈور ہرستل جس نے صیہونی ریاست کی تجویز 1896ء میں پیش کی تھی نے ہی تجویز کیا تھا اور یہی نقشہ 1947ء میں دوبارہ ربی فشمّن نے پیش کیا تھا ۔

اسرائیل نے 1982ء میں لبنان پر بہت بڑا حملہ کر کے اس کے بہت سے علاقہ پر قبضہ کر لیا ۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینی مہاجرین کے دو کیمپوں صابرا اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر اپنے مسلحہ حواریوں فلینجسٹس کی مدد سے وہاں مقیم 4000 نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کروا دیا جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے شامل تھے ۔ یہ کاروائی ایرئل شیرون کے حُکم پر کی گئی تھی جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا ۔ ان حقائق سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون دہشت گرد ہے ۔ فلسطینی مسلمان یا اسرائیلی صیہونی ؟

چند مشہور دہشت گرد لیڈروں کے نام یہ ہیں ۔
موشے دیان جو 1953ء سے 1957ء عیسوی تک اسرائیل کی مسلح افواج کا چیف آف سٹاف رہا ۔
مناخم بیگن جو 1977ء سے 1983ء تک اسرائیل کا وزیراعظم رہا ۔
یتزہاک شمیر جو 1983ء سے 1984ء تک اور پھر 1986ء سے 1992ء تک وزیراعظم رہا ۔
ایرئل شیرون جو 2001ء سے 2006ء تک وزیراعظم رہا ۔ دہشتگردی پر اُس کی مذمت کرنے کی بجائے اُسے نوبل امن انعام دیا گیا ۔

مسلمان تو ایک طرف عرب عیسائیوں اور عرب یہودییوں کو جو کہ فلسطین کے باشندے ہیں ان کو اسرائیل میں وہ مقام حاصل نہیں ہےجو باہر سے آئے ہوئے صیہونی یہودیوں کو حاصل ہے ۔ اس کا ایک ثبوت یہودی صحافی شمیر ہے جو اسرائیل ہی میں رہتا ہے ۔ دیگر جس لڑکی لیلی خالد نے فلسطین کی آزادی کی تحریک کو اُجاگر کرنے کے لئے دنیا میں سب سے پہلا ہوائی جہاز ہائی جیک کیا تھا وہ عیسائی تھی ۔ فلسطین کو یہودیوں سے آزاد کرانے کے لئے لڑنے والے گوریلوں کے تین لیڈر جارج حبش ۔ وادی حدّاد اور جارج حواتمے عیسائی تھے ۔ اتفاق دیکھئے کہ حنّان اشراوی ۔ حنّا سینی اور عفیف صفیہ جنہوں نے اوسلو معاہدہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا وہ بھی عیسائی ہی ہیں ۔ موجودہ صورت حال نقشہ ۔ 6 میں دکھائی گئی ہے ۔

Map # 6. “Israeli constructed roads” should be read as “Roads under control of Israel”.

داڑھی میں اسلام ہے یا اسلام میں داڑھی ؟

دورِ حاضر میں مسلمانوں کی نسبت زیادہ غیر مسلموں نے سمجھ لیا ہے کہ داڑھی والا مسلمان ہوتا ہے بلکہ کٹر مسلمان ۔ اول ۔ یہودی پیشوا جسے ربی [Rabby] کہتے ہیں پوری بڑی داڑھی رکھتے ہیں جیسے کہ افغانستان کے طالبان رکھتے ہیں لیکن داڑھی والے یہودی کو کوئی انتہاء پسند نہیں کہتا جبکہ مسلمان اُسی طرح کی داڑھی رکھے تو اُسے انتہاء پسند اور دہشتگرد تک کہا جاتا ہے ۔ داڑھی سکھ بھی رکھتے ہیں لیکن اُن کی داڑھی باقی لوگوں سے ذرا مختلف ہوتی ہے ۔ عیسائی ۔ ہندو اور دہریئے بھی داڑھی رکھتے ہیں مگر اُنہیں کوئی تِرچھی نظر سے نہیں دیکھتا ۔ بہرحال آمدن بمطلب

نہ تو اسلامی شریعت میں زبردستی داڑھی رکھوانے کا حُکم ہے اور داڑھی منڈوانے کا ۔ شریعت کے مطابق مسلمان اس لئے داڑھی رکھتا ہے کہ جس رسول سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شریعت کا وہ پیروکار ہے اُن کی سنّت ہے لیکن صرف داڑھی رکھنا ہی سنّت نہیں بلکہ اور بھی بہت سی سنتیں ہیں ۔ اگر داڑھی تو سنّت سمجھ کر رکھ لی جائے اور فرائض پر توجہ نہ دی جائے تو کیا درست ہو گا ؟

شریعت لوگوں کی جان و مال اور آبرو کے تحفظ کا نام ہے ۔ جو کچھ کسی نے کرنا ہے وہ خود کرنا ہے اور اپنی بہتری کیلئے کرنا ہے ۔ اتنا ضرور ہے کہ اس کے عمل سے کسی پر ناگوار اثر نہ پرے ۔ بلاشُبہ اسلام سے محبت کرنے والے ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں داڑھیوں میں اپنے صالح آباؤ واجداد کی شکلیں نظر آتی ہیں اور جو حتی المقدور شعائر اسلامی کی پاسداری بھی کرتے ہیں ۔

ہر معاشرے میں نیک اور گناہگار موجود ہوتے ہیں ۔ مسلم معاشرہ میں بھی یہ دونوں طبقات موجود ہیں ۔ گناہ گاروں میں داڑھی والے بھی ہیں اور بغیر داڑھی والے بھی ۔ یہی صورتحال نیک اعمال کے حامل افراد کی بھی ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے کہ سب انسان برابر ہیں سوائے اس کے کہ کوئی تقوٰی میں بہتر ہو ۔ چنانچہ کسی کو داڑھی کے ہونے یا نہ ہونے سے نیکی یا برائی کی سند نہیں دی جا سکتی