Yearly Archives: 2009

نواز شریف اور شہباز شریف نااہل

آج سپریم کورٹ عمارت میں تین رکن بنچ نے جسٹس موسیٰ کے لغاری کی سربراہی میں شریف برادارن کی انتخابی اہلیت کے حوالے سے کیس کی سماعت کی جس میں اٹارنی جنرل آف پاکستان لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ

شریف برادران اہلیت کیس میں چیف سیکرٹری اور اسپیکر پنجاب متاثر ہ فریق نہیں ہیں ۔ اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ تمام ججز نے آئین کے تحت حلف اٹھا رکھا ہے ۔ عبوری آئین کا حلف غیر متعلقہ بات ہے ۔ نواز شریف کے تجویز و تائید کنندہ اس وقت فریق بن سکتے ہیں جب عدالت انہیں اجازت دے ۔ تجویز اور تائید کنندہ کا فریق ہونا ضروری نہیں ۔ عدالتی بینچ کی دست برداری کا فیصلہ جج کی صوابدید پر ہوتا ہے ۔ اسے کوئی دست بردار ہونے کی ہدایت نہیں دے سکتا

دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کچھ دیر کا وقفہ دیا اور بعد میں شریف برادارن اہلیت کیس نمٹاتے ہوئے تین رکنی بنچ نے نواز شریف اور شہباز شریف کونااہل قراردیا

اس فیصلے اور بالخصوص اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ کے بیان نے ثابت کر دیا ہے کہ آصف علی زرداری نہ صرف نواز شریف بلکہ پوری قوم کو دھوکہ دیتا رہا ہے اور سب کو لے کر چلنے کی بات جھوٹ پر مبنی تھی

پہاڑوں پر لگی آگ

پہاڑوں پر لگی آگ تو اچھی لگتی ہے
اپنے گھر کی لگی کچھ اور ہوتی ہے

کم عقلی یہ ہے کہ اکثر ہموطن اپنے مُلک کو اپنا گھر نہیں سمجھتے ۔ پچھلے ایک ہفتہ میں اخبارات اور رسائل میں چھپنے والے مضامین اور خطوط اور مختلف ٹی مذاکرات میں ناقدوں کے مندرجہ ذیل خدشات کا اظہار کیا

1 ۔ طالبان کی بات مان کر اُنہیں شہ دی گئی ہے اب جو کوئی [غُنڈہ] اُٹھے گا اسی طرح اپنی بات منوا لے گا
2 ۔ وہ [طالبان] پورے پاکستان میں اپنی حکومت بنانے کے خواب دیکھیں گے
3 ۔ پورے پاکستان میں لڑکیوں اور عورتوں کو گھروں میں بند کر دیا جائے گا یا غلام بنا لیا جائے گا
4 ۔ کونسی شریعت نافذ کریں گے ۔ ہر مسجد کی علیحدہ شریعت ہے
5 ۔ طالبان کا اسلام نافذ کیا جا رہا ہے
6 ۔ ریاست کے اندر ریاست بنائی جا رہی ہے ۔ حکومت کی عملداری کو للکارا جا رہا ہے

سوات کے موجودہ حالات کا پس منظر میں کل بیان کر جکا ہوں ۔ اخبارات اور رسائل میں چھپنے والے مضامین اور خطوط اور مختلف ٹی وی چینلز پر مذاکروں پر غور کرتے ہوئے مجھے دو پرانے واقعات یاد آ گئے

سوا 43 سال قبل جب بین الاقوامی پروازیں صرف کراچی آتی جاتی تھیں جرمنی جا تے ہوئے میں دو دن پی ای سی ایچ ایس کراچی میں اپنے ماموں کے ہاں ٹھہرا ۔ شام کو ماموں کچھ بڑے کاروباری لوگوں سے ملنے جا رہے تھے مجھے بھی ساتھ لے گئے ۔ وہاں تین چار بزرگان تھے جو خاصے پڑھے لکھے لگتے تھے ۔ ماموں نے میرا تعارف کرایا تو اُن میں سے ایک بولے “اچھا اُس فیکٹری میں کام کرتے ہو جہاں لِپ سٹِک [Lip stick] بنتی ہے”۔ اور پھر مُسکرا کر جُملہ کسا “اور کچھ تو بنا نہیں سکے”۔ اُس وقت صرف اُس فیکٹری میں جس میں میں اسسٹنٹ ورکس منیجر تھا میں اور میرے ساتھی اللہ کے فضل سے رائفل جی تھری ڈویلوپ [develop] کر کے اُس کی ماس [mass] پروڈکشن شروع کروا چکے تھے اور مجھے کارکردگی کی بناء پر جرمن مشین گن کی پلاننگ اور ڈویلوپمنٹ کیلئے چُنا گیا تھا اور میں اسی سلسلہ میں جرمنی جا رہا تھا ۔ چنانچہ سمجھتے ہوئے کہ موصوف پاکستان آرڈننس فیکٹری کی الف بے بھی نہیں جانتے اور ایسے ہی یاوا گوئی کر رہے ہیں میں خاموش رہا کیونکہ وہ بزرگ تھے اور ماموں کے جاننے والے تھے اور میں نوجوان ۔ دوسرے اُن دنوں میرا اپنی حیثیت اور کام بیان کرنا قرینِ محب الوطنی نہ تھا

دوسرا واقعہ ۔ پینتیس چھتیس سال پیچھے کا ہے جب میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز کی پانچ بڑی فیکٹریوں میں سے ایک ویپنز فیکٹری میں دس گیارہ سال نہ صرف گذار چکا تھا بلکہ اللہ کے فضل سے اُسے سمال آرمز گروپ سے ویپنز فیکٹری بنانے میں میرا بہت بڑا حصہ تھا اور اُن دنوں ویپنز فیکٹری کا قائم مقام سربراہ [Acting General Manager] تھا ۔ ایک دن میں ایک عوامی جگہ [public place] پر بیٹھا تھا ۔ میرے قریب ایک شخص بڑی سنجیدگی سے ویپنز فیکٹری کے متعلق اپنی معلومات کے خزانے اپنے دو ساتھیوں پر لُٹا رہا تھا اور وہ بڑے انہماک کے ساتھ سُن رہے تھے ۔ اُس شخص کی یاوہ گوئی جب ناممکنات کی حد پار کر گئی تو مجھ سے نہ رہا گیا ۔ میں نے معذرت طلب کرتے ہوئے مداخلت کی اور کہا “بھائی صاحب ۔ ایسا ممکن نہیں ہے”۔ وہ شخص بڑے وثوق سے بولا “جناب ۔ آپ کو نہیں معلوم میں سب جانتا ہوں ۔ بالکل ایسا ہی ہے”۔ میں نے اُسے پوچھا “آپ فیکٹری میں ملازم ہیں ؟” جواب ملا “نہیں”۔ میں نے پوچھا “آپ کا کوئی قریبی عزیز فیکٹری میں ملازم ہے ؟” جواب ملا “نہیں”۔

ہمارے اکثر ہموطنوں کا خاصہ ہے کہ جو کچھ اُنہوں نے دیکھا ہو اُس کے متعلق وہ کچھ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں لیکن جو اُنہوں نے نہیں دیکھا اُس کے متعلق وہ سب کچھ جانتے ہیں ۔ بقول شخصے بند لفافے کے اندر پڑے خط کا مضمون پڑھ لیتے ہیں ۔ سوات کے معاملہ میں بھی بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے ۔ جو لوگ سوات میں رہتے ہیں اور وہاں کے حالات سے واقف ہیں اُن بیچاروں کی آواز بے بنیاد غُوغا میں گُم ہو کر رہ گئی ہے

متذکرہ بالا خدشات کی عمومی وضاحت یہ ہے

1 ۔ طالبان کی بات کسی نے نہیں مانی اور نہ شہ دی ہے جو کام سالوں پہلے ہو جانا چاہیئے تھا وہ ہونے کی اُمید ہے ۔ اللہ کرے کہ ایسا ہو جائے اور ہمارا ملک خانہ جنگی سے بچ جائے ۔ مذاکرات تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد کے ساتھ امن اور سوات میں اسلامی نظامِ عدل کے نفاذ کے متعلق ہوئے ہیں ۔ صوفی محمد کو یہ کام سونپا گیا ہے کہ پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کر کے اُنہیں امن قائم کرنے پر آمادہ کریں ۔ اس کے عِوض سوات میں اسلامی نظامِ عدل کا نفاذ کر دیا جائے گا ۔ کام بہت دشوار ہے ۔ اللہ بہتری فرمائے ۔ “جو کوئی اُٹھے گا بات منوالے گا” کا جہاں تک تعلق ہے اُس کی اس سلسلہ میں تو کم اُمید ہے البتہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کراچی ہو یا لاہور کوئٹہ ہو یا اسلام آباد بات اُسی کی مانی جا رہی ہے جو طاقتور ہے اور عوام پِس رہے ہیں ۔ پھر ایسا سوال صرف قبائلی علاقہ کیلئے کیوں اُٹھایا جاتا ہے ؟

2 ۔ قبائلی علاقہ سے باہر آنے کی طالبان کو ضرورت نہیں ۔ یہاں اُن جیسے لاکھوں کو چکر دینے والا ایک سے ایک بڑھ کر ہزاروں موجود ہیں

3 ۔ غُصہ اور ردِعمل یا انتقام میں کئے گئے فیصلے درست نہیں ہوتے ۔ سکولوں کو تباہ کرنا غلط عمل ہے اس کی حمائت کوئی نہیں کرے گا ۔ اگر طالبان کا منصوبہ سکولوں کو تباہ کرنا ہوتا تو ایسا کیوں ہوا کہ ایک سال قبل تک مرکزی حکومت کے زیرِانتظام قبائلی علاقہ میں ایک بھی سکول تباہ نہیں ہوا تھا جبکہ وہ علاقہ پاکستانی طالبان کا منبع ہے اور طالبان کی تعداد بھی وہاں بہت زیادہ ہے اور وہاں طالبان کے خلاف فوجی کاروائی 2004ء سے جاری ہے ۔ پچھلے ایک سال میں باجوڑ میں 34 اور مالا کنڈ میں 200 کے قریب لڑکوں اور لڑکیوں کے سکول تباہ ہوئے ہیں ۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان جو طالبان کا گڑھ ہیں میں کوئی سکول تباہ نہیں ہوا ۔ طالبان کا دعوٰی ہے کہ وہ سکول تباہ کیا جاتا ہے جہاں سیکیورٹی فورسز اپنا مورچہ بناتی ہیں ۔ جہاں تک عورتوں کو بند کرنے کا تعلق ہے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جنوبی پنجاب اور اس سے بڑھ کر سندھ میں کیا ہو رہا ہے ۔ لڑکیوں کی نعوذ باللہ قرآن سے شادی ۔ لڑکیوں کی مرضی کے خلاف شادی ۔ لڑکیوں کو سکول نہ بھیجنا یا پرائمری سے زیادہ پڑھنے نہ دینا ۔ کیا یہ سب کچھ یہاں نہیں ہو رہا ؟ کیا اس کی وجہ اسلامی شریعت ہے ؟

4 ۔ اوّل تو اسلامی شریعت نافذ کرنے کی فریقین میں بات ہی نہیں ہوئی ۔ اسلامی نظامِ عدل مکمل اسلامی شریعت نہیں ہے گو کہ یہ اسلامی شریعت کے بنیادی خوائص میں سے ہے ۔ دیگر مجوزہ نظامِ عدل ریگولیشن مکمل اسلامی نہیں ہے ۔ بہت افسوس ہوتا ہے ایسے مفکّروں پر جنہوں نے شاید قرآن شریف کو بھی غور سے نہیں پڑھا اور ہر مسجد کی علیحدہ شریعت بناتے پھر رہے ہیں ۔ تفصیل میں جائے بغیر میں عرض کر دوں کہ اسلامی شریعت صرف ایک ہی ہے اور اس کی بنیاد ۔ اوّل قرآن ۔ دوم سُنت ۔ سوم اجماع اور آخر قیاس ہے جس پر تمام آئمہ کرام متفق ہیں ۔ یقین نہ ہو تو سُنی اور شیعہ دونوں مسالک کے مُستند عالِموں سے پوچھ لیجئے یا اس سلسلہ میں کسی جامع کتاب کا سے استفادہ حاصل کر لیجئے

5 ۔ غیر تو غیر ہوئے اپنوں کا بھی چارہ نہ ہوا ۔ میرے ہموطن اتنا شیطان کو بدنام نہیں کرتے جتنا خود اپنے دین اسلام کی دھجیاں بکھیرتے رہتے ہیں اور اس پر انواع و اقسام کے سرنامے [labels] لگاتے رہتے ہیں ۔ اسلام اللہ کا دین ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام اس دین کے تابع تھے ۔ دین اسلام ایک مکمل ضابطہِ حیات ہے اور قیامت تک کیلئے ہے ۔ اسلام کسی فرد کی ملکیت نہیں اور نہ کسی فرد کو اس میں تحریف کی اجازت ہے ۔ فرقہ بندی ذاتی اغراض کی بنا پر ہے دین میں اس کی گنجائش نہیں ۔ بہرکیف اسلامی سلطنت کے بنیادی اصولوں جن کی بنیاد اسلامی شریعت ہے میں کسی کو اختلاف نہیں ۔ طالبان کا بنایا ہوا اسلام ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈہ کے علاوہ کچھ نہیں

6 ۔ آئین کی شقات 246 اور 247 جو نیچے نقل کی گئی ہیں کے مطابق مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کی ضروریات اور امن قائم کرنے کی خاطر مُلک کے دوسرے علاقوں میں نافذ قوانین سے مختلف قوانین وضع اور نافذ کئے جا سکتے ہیں ۔ اسلئے ریاست کے اندر ریاست کا تصور کم عِلمی پر مبنی ہے

246. Tribal Areas.
In the Constitution,
(a) “Tribal Areas” means the areas in Pakistan which, immediately before the commencing day, were Tribal Areas, and includes:
(i) the Tribal Areas of Baluchistan and the North-West Frontier Province; and
(ii) the former States of Amb, Chitral, Dir and Swat;

247. Administration of Tribal Areas.

(4) Notwithstanding anything contained in the Constitution, the President may, with respect to any matter within the legislative competence of Parliament, and the Governor of a Province, with the prior approval of the President, may, with respect to any matter within the legislative competence of the Provincial Assembly make regulations for the peace and good government of a Provincially Administered Tribal Area or any part thereof, situated in the Province.

(5) Notwithstanding anything contained in the Constitution, the President may, with respect to any matter, make regulations for the peace and good Government of a Federally Administered Tribal Area or any part thereof.

(7) Neither the Supreme Court nor a High Court shall exercise any jurisdiction under the Constitution in relation to a Tribal Area, unless Parliament by law otherwise provides

وزیراعظم پاکستان نے بھی وضاحت کی ہے کہ

سوات معاہدہ آئین کے مطابق ہے اور صدر آصف علی زرداری معاہدے کی توثیق کر دیں گے ۔ سوات میں ماضی میں بھی شریعت نافذ رہی ہے ۔ برطانوی دور میں بھی یہاں خصوصی ریگولیشنز رہے ہیں

جہاں تک حکومت کی عملداری [writ] کا تعلق ہے وہ تو پورے مُلک میں کہیں نظر نہیں آتی خواہ اجناس خوردنی [edibles] کی کمرتوڑ مہنگائی پر نظر ڈالیں یا قابلِ استفادہ خدمات [utility services] کے بحران پر یا امن و امان کی صورتِ حال پر ۔ سب جگہ ایک ہی اصول نظر آتا ہے “جس کی لاٹھی اُس کی بھینس”۔ بلوچستان میں خواتین کو زندہ دفن کیا جائے ۔ سندھ میں کاری کہہ کر قتل کر دیا جائے ۔ جنوبی پنجاب یا صوبہ سرحد میں کم سِن بچیاں ونی یا سوارا کہہ کر اپنے جُرم کی بھینٹ چڑھا دی جائیں ۔ کراچی شہر میں کھُلے بندوں میدانِ جنگ بنیں اور لاشیں گریں ۔ پورے پاکستان میں برسرِعام موبائل فون ۔ نقدی یا گاڑی چھینی جائے ۔ دن دہاڑے گھروں دکانوں یا بنکوں پر ڈاکے ڈالے جائیں ۔ لڑکیوں یا عورتوں کی عزتیں لوٹی جائیں ۔ سب جگہ حکومت کی عملداری کی بجائے بے بسی ہی نظر آتی ہے

پاکستان کے آئین کی جن شقات کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں اُن کے علاوہ نیچے درج شقات 2 اور 31 کے مطابق تو پورے مُلک میں دین اسلام مخالف تمام قوانین رد کر کے اُن کی جگہ اسلامی قوانین نافذ ہونے چاہئیں یعنی دوسرے الفاظ میں پورے مُلک میں اسلامی شریعت کا نفاذ ہونا چاہیئے ۔ چلئے ابھی اتنا ہی غنیمت ہے کہ صرف اسلامی نظامِ عدل کا تجربہ مالاکنڈ اور کوہستان کے 8 اضلاع میں کر لیں ۔ تجربہ کامیاب ہو تو پورے پاکستان میں پہلے اسلامی نظامِ عدل نافذ کریں اور پھر پوری اسلامی شریعت ۔ دعا ہے کہ اللہ ہمارے مُلک میں اسلامی نظامِ حکومت کے نفاذ کی صورتیں پیدا فرمائے

2 Islam shall be the State religion of Pakistan
2A The principles and provisions set out in the objectives Resolution reproduced in the Annex are hereby made substantive part of the Constitution and shall have effect accordingly

31.Islamic way of life.
(1) Steps shall be taken to enable the Muslims of Pakistan, individually and collectively, to order their lives in accordance with the fundamental principles and basic concepts of Islam and to provide facilities whereby they may be enabled to understand the meaning of life according to the Holy Quran and Sunnah.

(2) The state shall endeavour, as respects the Muslims of Pakistan:

(a) to make the teaching of the Holy Quran and Islamiat compulsory, to encourage and facilitate the learning of Arabic language and to secure correct and exact printing and publishing of the Holy Quran;
(b) to promote unity and the observance of the Islamic moral standards; and
(c) to secure the proper organisation of zakat, ushr, auqaf and mosques.

مختصر حقیقت یہ ہے کہ جنگ بندی کے بعد سوات کے عوام کو کچھ چین ملا ہے ۔ پچھلے پونے دو سال میں فوجی کاروائیوں نے نہ صرف اُن کے ذرائع روزگار تباہ کر دیئے بلکہ اُن کے عزیز و اقارب بھی ہلاک ہوئے اور جائیدادیں بھی تباہ ہوئیں ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سوات کے زیادہ تر عوام کی مالی حالت پہلے ہی کمزور تھی اور اب ابتر ہو گئی ہے ۔ وہ نہ تو مُلک میں نافذ انگریزی قانون کے مطابق چلنے کیلئے وکیلوں کی فیسیں دے سکتے ہیں اور نہ دس پندرہ سال عدالتوں کی پیشیاں بھُگتنے کیلئے اپنی روزی پر لات مار سکتے ہیں

کسی ملک کے استحکام اور ترقی کیلئے امن و امان بنیادی ضرورت ہے ۔ گذشتہ کئی سالوں میں پہلے بلوچستان اور پھر صوبہ سرحد کے قبائلی علاقوں میں فوجی کاروئی کے نتیجہ میں افراطِ زر اور کساد بازاری انتہائی بلندیوں کو چھو رہے ہیں ۔ مالی خسارہ کھربوں تک پہنچ چکا ہے اور عوام کا بال بال غیر مُلکی قرضوں میں جکڑا گیا ہے اور ملک عدمِ استحکام کا شکار ہونے کو ہے ۔ غیروں کی جنگ لڑتے لڑتے ہم نے اپنے قومی فرائض نظر انداز کر دیئے ۔ فوجی کاروائیوں کے نتیجہ میں امن قائم ہونے کی بجائے حالات اور بگڑتے گئے ۔ اب اس کے سوا چارہ کار کیا ہے کہ ان جنگجوؤں کے ساتھ مل بیٹھ کر بات کی جائے ؟ آخر وہ اسی مُلک کے باشندے ہیں ۔ اگر کسی شریف آدمی کا بیٹا اوباش ہو جائے تو کیا وہ اُسے سمجھانے کی بجائے گولی مار کر ہلاک کر دیتا ہے ؟

پاکستان اور صوبہ سرحد میں سیکولر جماعتوں کی حکومت ہے ۔ اے این پی اُن لوگوں کی جماعت ہے جو نظریہ پاکستان کے خلاف رہے ہیں اور اب بھی اپنے آپ کو سیکولر کہتے ہیں ۔ اب اگر ایسی جماعت اسلام کے نام لیواؤں سے مذاکرات اور معاہدے کی بات کرتی ہے اور اس کی تائید مُلک کی ایک بڑی سیکولر جماعت پیپلز پارٹی کر رہی ہے تو مجوزہ معاہدے کی بنیاد کوئی حِکمت اور افادیت ضرور ہو گی ۔ وہ لوگ جنہیں اندرونی حالات کا کوئی ادراک نہیں ہلکان کیوں ہوئے جا رہے ہیں ؟ کیا عورتوں کو زندہ دفن کر کے ہلاک کرنے والوں یا جوان عورت کو خونخوار کُتوں کے آگے ڈال کر ہلاک کرنے والوں یا ذاتی انا کے خلاف بات کرنے والی عورت کو کاری قرار دے کر ہلاک کرنے والوں کو گولی تو کیا کسی نے ایک تھپڑ بھی مارا ہے ؟ مُلک میں ہزاروں قاتل دنداتے پھر رہے ہیں ۔ اُن کے خلاف کوئی فوجی کاروائی ہوئی ہے ؟ اُن میں سے بعض کو تو انعام سے نوازہ جاتا ہے کسی کو گورنر اور کسی کو وزیر بنا دیا جاتا ہے

اصل مسئلہ امن قائم کرنے کا ہے جو طاقت کے ذریعہ قائم نہیں ہو سکا ۔ بلا شُبہ اس علاقہ میں شر پسند عناصر یا دشمن کے ایجنٹوں نے موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھا کر حالات کو سنگین بنایا ہے ۔ اگر مذاکرات اور ایک محدود علاقہ میں جہاں ماضی میں کئی صدیاں اسلامی نظامِ عدل قائم رہنے سے کوئی گڑبڑ نہ ہوئی تھی وہاں دوبارہ اسلامی نظامِ عدل قائم کر دیا جائے تو پھر حکومتی اہلکاروں کو فتنہ پرور لوگوں سے نبٹنے کیلئے نہ صرف وقت بلکہ سہولت بھی میسّر ہو گی ۔ اس علاقہ میں امن کوششوں کیلئے صوفی محمد جسے قبل ازیں دو بار آزمایا جا چکا ہے سے زیادہ قابلِ اعتماد اور مؤثر اور کوئی شخص نہیں ہو سکتا تھا ورنہ حکومت اُسے یہ کام نہ سونپتی ۔ صوفی محمد کا 23 فروری کو حکومت کی جانب سے شریعت کے عملی نفاذکے اعلان اورچیک پوسٹیں ختم کرنے پران کے شکریہ ادا کرتے ہوئے حکومت ۔ حکومتی اہلکاروں اورتحریک طالبان سوات سے اپیل کی

حکومت فوج کو اسکولوں ۔ مکانات ۔ اسپتالوں اور دیگر عمارتوں سے ہٹا کر محفوظ مقامات پرمنتقل کرے اورتمام رکاوٹیں ختم کرے تاکہ لوگوں کی تکالیف ختم ہوسکیں ۔ حکومت تمام پولیس ۔ ایف سی اور لیویز کے معزول اور قید اہلکاروں کوبحال کرے اور عوام کے تمام نقصانات کاازالہ کیاجائے

تحریک طالبان سوات کے قائدین اپنے ساتھیوں کو فی الفورحکم دیں کہ وہ ناکے ختم اورتلاشی کاسلسلہ بندکردیں اورمسلح چلنا پھرنا اور دیگرکارروائیاں فی الفورختم کردیں ۔ راشن لے جانے والی گاڑیوں اور فوج کے محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کے دوران کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالیں ۔ انتظامیہ اورپولیس کے امورمیں مداخلت نہ کریں ۔

تمام پولیس ۔ ایف سی اورلیویز اہلکار اپنے فرائض انجام دینے کیلئے ڈیوٹی پر حاضرہوجائیں ۔

انہوں نے کہا وزیراعلیٰ امیرحیدرخان ہوتی کے اعلان کے مطابق کام شروع کیاجائے اوروزیراعلٰی خودسوات کادورہ کرکے اس نیک کام کاافتتاح کریں

میں یہ نہیں کہتا کہ صوفی محمد یا اُس کا داماد فضل اللہ عالِمِ دین ہیں یا متقی و پرہیزگار ہیں اور نہ ہی میں اس کا اُلٹ کہہ سکتا ہوں ۔ لیکن بنیادی بات جو زیرِنظر رہنی چاہیئے وہ یہ ہے کہ
ا ۔ اچھا عمل اچھا ہی ہوتا ہے چاہے اُسے کوئی بھی کرے ۔
ب ۔ دینی لحاظ سے کوئی بھی مسلمان شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کر سکتا ہے چاہے اُس کا اپنا عمل قرآن و سُنّت کے عین مطابق نہ ہو
ج ۔ پاکستان کے آئین کی پاسداری کرتے ہوئے کوئی بھی پاکستانی خواہ وہ غیر مُسلم ہی ہو پاکستان میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرسکتا ہے

مجھے اس حوالے سے ایک واقعہ یاد آیا ۔ جسٹس اے آر کارنیلیس جو اُن دنوں پاکستان کے چیف جسٹس تھے ایک بین الاقوامی چیف جیورسٹس کانفرنس میں شریک تھے تو ایک سوال پوچھا گیا کہ بہترین نظامِ عدل و انسانیت کونسا ہے ؟ سب چیف جسٹس صاحبان کچھ نہ کہہ سکے آخر میں جسٹس اے آر کارنیلیس کی باری آئی تو اُنہوں نے کہا “اسلام کا نظام” اور کسی کو اس کی نفی کی جراءت نہ ہوئی ۔ جسٹس اے آر کارنیلیس مسلمان نہیں تھے

اگر حکومت آئین کے مطابق کام کرے تو خون خرابے اور کسی قسم کی بدامنی کی نوبت نہ آئے ۔ جب احتجاج کرنے والے عوام پر فوجی کاروائی کی جائے تو وہ ہتھیار اُٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ ایسی صورتِ حال مُلک کیلئے سودمند نہیں ہوتی ۔ آئین کے بار بار توڑے جانے اور حکومت پر غاصبانہ قبضہ کے باوجود آئین کی جن بنیادی شقات کا میں نے اُوپر حوالہ دیا ہے ہمیشہ سے آئین میں موجود رہیں لیکن ان بنیادی شقات پر عمل کی کوشش نہیں کی گئی ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان شقات پر عمل کرنے سے مُلک کے سیاست دانوں اور حُکمرانوں کی اکثریت میدان سے باہر ہو جائے گی

میرے اللہ آپ ربِ ارض و سماء و دیگر کُل مخلوقات ہو اور سارا نظام آپ کے حُکم کے تابع ہے ۔ ہماری بے راہ روی کی طرف نہ دیکھئے ۔ آپ رحیم و کریم ہو ۔ ہم پر فضل کیجئے ۔ ہمیں حق کو سمجھنے اور حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائیے

سوات ۔ طالبان اور حُکمران ۔ قصور کس کا ؟

کچھ قابلِ قدر قارئین نے پُرزور فرمائش کی کہ میں سوات میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا پسِ منظر اور تاریخ بیان کروں ۔ ہرچند کہ میں تاریخ دان نہیں ہوں لیکن اپنے مُلک کے متعلق تھوڑا بہت علم حاصل کرنے کا ہمیشہ سے شوق رہا ہے ۔

میرے خالق و مالک ۔ میرے لئے میرا سینہ کشادہ فرما دے اور میرا کام میرے لئے آسان فرما دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے کہ لوگ میری بات سمجھ سکیں ۔ آمین

ہمارے نویں دسویں جماعت میں تاریخ کے اُستاذ سبغت اللہ قریشی کہا کرتے تھے “ہماری قوم کی تاریخ بڑی کمزور ہے”۔ جب ہم نے میٹرک پاس کر لیا اور سکول شاباشیں لینے گئے ہوئے تھے تو ایک ساتھی نے اُستاذ سے پوچھا “ہماری قوم کی تاریخ کیسے کمزور ہے ؟” اُستاذ مُسکرا کر بولے “جب میری عمر کو پہنچو گے تو معلوم ہو جائے گا”۔ درُست کہا تھا اُنہوں نے ۔ ہماری قوم کی اکثریت کو تاریخ تو کیا کل کی بات یاد نہیں رہتی

جب انگریز ہندوستان چھوڑنے پر راضی ہو گئے تو اُنہوں نے جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہندوستان کے اندر داخلی طور پر خودمختار ریاستوں کا فیصلہ اُن کے حاکموں پر چھوڑ دیا کہ اپنے عوام کی رائے کے مطابق پاکستان یا بھارت سے الحاق کا فیصلہ کریں ۔ چالبازی یہ کی گئی کہ پاکستان کو نہ دولت اور اثاثوں کا حصہ دیا گیا اور نہ اسلحہ کا ۔ مسلمان فوجیوں کو پہلے ہی سے مجوزہ پاکستان سے دور علاقوں میں تعینات کر دیا گیا تھا ۔ وہیں اُنہیں غیر مسلحہ کر کے گھروں کو جانے کا حُکم دیا گیا ۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ پاکستان بنا تو نہ اس کے پاس حکومت چلانے کو کچھ تھا اور نہ اپنا دفاع کرنے کا سامان ۔ اس صورتِ حال سے مکمل فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھارت نے بھارت کے اندر یا بھارت سے ملحق تمام ریاستوں کو بھارت کے ساتھ الحاق کا حُکم دیا ۔ جن چار ریاستوں [گجرات کاٹھیاواڑ ۔ منادور ۔ حیدآباد دکھن اور جموں کشمیر] نے لیت و لعل کیا اُن پر یکے بعد دیگرے فوج کشی کر کے قبضہ کر لیا ۔ اس کے بر عکس پاکستان کی حکومت نے پاکستان کے اندر ریاستوں کو داخلی خود مختاری دیئے رکھی جب تک کہ وہ ریاستیں خود ہی پاکستان میں ضم نہ ہوئیں ۔

چنانچہ ریاست سوات نے 1969ء میں پاکستان میں ضم ہونے کا اعلان کیا ۔ اُس وقت تک وہاں اسلامی نظامِ عدل رائج تھا ۔ یہ نظام ہندوستان پر انگریزوں کے صد سالہ دورِ حکومت کے دوران بھی رائج تھا ۔ 1973ء کے آئین کے نفاذکے بعد وہاں کا مروجہ نظام ختم کر کے انگریزوں کا بنایا ہوا عدالتی نظام قائم کر دیا گیا جس کے کچھ سال بعد قتل کی سالانہ وارداتیں جو کبھی دہائی کے ہندسہ میں نہ پہنچی تھیں سینکڑے کے ہندسہ میں پہنچ گئیں ۔ قانونی چارہ جوئی جو پہلے 3 سے 6 ماہ میں فیصل ہو جاتی تھی وہ سالوں تک بغیر کسی نتیجہ کے جاری رہنا شروع ہو گئی ۔ سوات کے لوگ اس صورتِ حال سے پریشان ہو کر احتجاج کرتے رہے اور اُنہیں 1973ء کے آئین کی وہ شِقیں دکھا کر چُپ کرایا گیا جن کے تحت مُلک میں کوئی قانون اسلام کے منافی نہیں بنایا جا سکتا اور اسلام کے منافی موجود قوانین کو کلعدم قرار دیا جائے گا ۔ 1977ء میں مارشل لاء لگ گیا اور اسلام کا نام لیا جانے لگا ۔ پھر افغانستان میں روسی تسلط کے خلاف جنگ شروع ہو گئی جس سے وقتی طور پر سواتیوں کا مطالبہ دب گیا

افغانستان سے روسوں کے انخلاء کے بعد پھر سواتیوں کا زبانی احتجاج شروع ہوا اور بالآخر 1994ء میں جب ملک میں پھر پیپلز پارٹی کی حکومت تھی مطالبہ زور پکڑ گیا جسے پولیس اور ریجرز کے ذریعہ فوجی کاروائی سے دبانے کی کوشش کی گئی تو تحریک نفاذ شریعت محمدی جس کے سربراہ صوفی محمد تھے نے ہتھیار اُٹھا لئے ۔ سوات ۔ شانگلہ ۔ دیر ۔ کوہستان اور مالاکنڈ کے دیگر علاقوں میں چوٹیوں پر مورچے قائم کرلئے اور ان علاقوں کو جانے والے تمام راستے بلاک کر دیئے ۔ 70 کے قریب سرکاری اہلکار جن میں پولیس کے افسران اور جج بھی شامل تھے یرغمال بنا لئے اور سیدو شریف کی ایئرپورٹ پر قبضہ کر لیا ۔ اپنی دال گلتی نہ دیکھ کر پیپلز پارٹی کی حکومت نے صوبہ سرحد کے وزیر اعلٰی آفتاب شیر پاؤ کی سربراہی میں ایک وفد کو صوفی محمد سے مذاکرات کا کہا ۔ صوفی محمد سے وعدہ کیا گیا کہ امن کی صورت میں اُن کے علاقہ میں اسلامی شریعت نافذ کر دی جائے گی

تمام زمینی راستے بند ہونے کی وجہ سے ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں میجر جنرل فضل غفور جو اُن دنوں فرنٹیئر کور کا انسپکٹرجنرل تھا کچھ سرکاری اہلکاروں اور صوفی محمد کو ساتھ لے کر روانہ ہوا ۔ ہیلی کاپٹر متذکرہ بالا اور دیگر علاقوں جہاں جہاں جنگجو موجود تھے باری باری اترتا رہا اور صوفی محمد اسلحہ برداروں کو سمجھاتا رہا کہ رینجر بھی مسلمان ہیں اور مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑنا اسلامی شریعت کے خلاف ہے ۔ یہ ایک خطر ناک مُہِم تھی اور اس میں صوفی محمد کی اپنی جان کو بھی خطرہ تھا کیونکہ سارے اسلحہ بردار صوفی محمد کی تحریک سے تعلق نہ رکھتے تھے ۔ بہرحال صوفی محمد کی کوششوں سے ٹکراؤ ختم ہو گیا اور سب راستے کھول دیئے گئے اس وعدہ پر کہ علاقہ میں اسلامی شریعت کا قانون نافذ کیا جائے گا مگر حکومت نے مروجہ انگریزی قانون میں جج اور کورٹ کی بجائے قاضی اور قاضی کورٹ لکھ دیا اور اسی طرح کی اور لیپا پوتی [cosmetic changes] کر کے اُسے شریعت ریگولیشن کا نام دے دیا

پنجابی میں ایک محاورہ ہوا کرتا تھا “سیاسہ والا” یہ “سیاسہ” لفظ “سیاست” ہی ہے ۔ مطلب تھا۔ ہوشیار دھوکہ باز جو پکڑائی نہ دے ۔ یہ محاورہ ہمارےاکثر حُکمرانوں پر چُست بیٹھتا ہے جو قوم کو بار بار دھوکہ دینے کے باوجود عوامی رہنما کہلاتے ہیں

جب لوگوں کے عدالتی معاملات لٹکتے چلے گئے اور سالہا سال بغیر فیصلہ کے رہے تو لوگوں کو احساس ہوا کہ اُن کے ساتھ دھوکہ ہوا تھا ۔ صرف نام بدلے گئے تھے اور کچھ بھی نہ ہوا تھا ۔ اس پر پھر احتجاج شروع ہوا ۔ اُس وقت ملک میں مسلم لیگ کی حکومت تھی ۔ 1999ء تک بے اطمینانی تمام علاقہ میں پھیل گئی اور بدامنی کا احتمال ہوا تو مسلم لیگ کی حکومت نے پیپلز پارٹی کے بنائے ہوئے شریعت ریگولیشن میں کچھ تبدیلیاں کر کے نافذ کر دیا ۔ یہ بھی اسلامی نظامِ عدل تو کیا اُس نظامِ عدل کے بھی قریب نہ تھا جو 1973ء کے آئین سے قبل سوات میں رائج تھا

فطری طور پر کچھ عرصہ لوگ نئے شریعت ریگولیشن کے عملی پہلو کا جائزہ لیتے رہے ۔ 2001ء میں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کر دیا اور سب کی توجہ اس بڑی آفت کی طرف ہو گئی ۔ 2002ء میں صوبہ سرحد میں متحدہ مجلسِ عمل کی حکومت آ گئی ۔ اُنہوں نے اسلامی شریعت کے حوالے سے تین سال میں حسبہ کے قانون کا مسؤدہ تیار کیا جو مرکزی حکومت نے نامنظور کر دیا تو لوگوں کو احساس ہوا کہ اُن کی اُمیدیں بے بنیاد تھی ۔

ان مذاق رات [مذاکرات] کے نتیجہ میں نافذ ہونے والے نام نہاد شریعت ریگولیشنز کی عملی صورت سے پریشان ہو کر تین سال قبل پھر احتجاج شروع ہوا ۔ کسی کے توجہ نہ کرنے کے نتیجہ میں سوات کے لوگوں نے تین ماہ بعد اپنی عدالتیں قائم کرنے کا اعلان کر دیا ۔ پھر خود ہی تاریخ مؤخر کرتے رہے ۔ آخر چھ ماہ بعد ایک قاضی مقرر کر دیا اور اپنے فیصلے خود کرنے کا عندیہ دیا ۔ دو سال قبل پچھلی حکومت نے امریکہ کے حُکم پر اُن کے خلاف فوجی کاروائی شروع کر دی ۔ موجودہ جمہوری حکومت نے امریکہ سے اپنی وفاداری جتانے کیلئے فوجی کاروائیوں میں شدت پیدا کر دی جس کے نتیجہ میں نہ صرف دونوں طرف کافی جانی نقصان ہوا بلکہ عوام بیچارے دونوں طرف کے حملوں کا نشانہ بنے ۔ اس کاروائی کے نتیجہ میں مرنے والے کم از کم 70 فیصد عام شہری ہیں جن میں بوڑھے جوان مرد عورتیں اور بچے شامل ہیں ۔ حکومت سوات کے لوگوں کو تحفظ مہیا نہ کر سکی نتیجہ یہ ہوا کہ سوات کے 80 فیصد علاقہ کے لوگ پاکستانی طالبان کے حمائتی ہو گئے ۔ ان حالات نے موجودہ حُکمرانوں کو امن کیلئے مذاکرات پر مجبور کر دیا

جس نظامِ عدل ریگولیشن پر اب اتفاق ہوا ہے سننے میں آیا ہے کہ یہ بھی اسلامی نظامِ عدل نہیں بلکہ 1999ء کے ترمیم شُدہ شریعت ریگولیشن میں کچھ اور ترامیم کی جا رہی ہیں ۔ اللہ کرے کہ موجودہ حکومت اس سلسلہ میں نیک نیتی برتے اور درست اسلامی نظامِ عدل نافذ کرے ۔ ویسے حالات کچھ سازگار نہیں لگتے ۔ حالیہ معاہدہ جو کہ صدر کی منظوری سے ہوا پر صدر کا دستخط کرنے کے عمل کو متاءخر کرنے اور کچھ مرکزی وزراء کے بیانات سے شبہات جنم لے چکے ہیں اور پاکستانی طالبان نے ہتھیار پھنکنے اور لڑکیوں کے سکول کھولنے کیلئے پہلے اسلامی نظامِ عدل نافذ کرنے کی شرط عائد کر دی ہے ۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے امن معاہدےکی خلاف ورزی کرتے ہوئے پشاور میں پاکستانی طالبان کے دو ساتھیوں کو گرفتار کر لیا تھا اور ایک کو دیر ضلع میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا ۔ تنبیہہ کے طور پر طالبان نے سوات میں نئے تعینات ہونے والے ڈی سی او خوشحال خان کو چھ ساتھیوں سمیت اغواء کر لیا تھا اور بعد میں رہا کر دیا

صوفی محمد مغربی طرز کے جمہوی نظام کو غیر اسلامی قرار دیتا ہے ۔ [اس پر انشاء اللہ پھر کبھی لکھوں گا] اس نظریہ اور متذکرہ خدشات کے باوجود وہ امن قائم کرنے اور حالات کو معمول پر لانے کیلئے تن من کی بازی لگائے ہوئے ہے ۔ صوفی محمد لڑکیوں کی تعلیم کے حامی ہیں ۔ اگر پھر 1994ء کی طرح صوفی محمد کے ساتھ دھوکہ کیا گیا تو نتیجہ بہت خطرناک ہو سکتا ہے ۔ نہ صرف موجودہ حُکرانوں کیلئے بلکہ مُلک کیلئے بھی ۔ یہ معاملہ صرف سوات کا نہیں ہے بلکہ پورے مالاکنڈ ۔ پورے دیر ۔ چترال ۔ شانگلہ ۔ بُنر اور کوہستان کا بھی ہے

عارضی امن کے نتیجہ میں سوات میں ایک عرصہ کے بعد کاروبارِ زندگی شروع ہو گیا ہے ۔ کل یعنی پیر 23 فروری سے سکول بھی کھُل گئے ہیں لیکن ہزاروں لوگ جو اپنے ہی مُلک میں مہاجر بن چکے ہیں وہ اس انتظار میں گھڑیاں گِن رہے ہیں کہ کب اسلامی نظامِ عدل نافذ ہو ۔ پائیدار امن معرضِ وجود میں آئے ۔ وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹیں اور اُن کی کس مپُرسی ختم ہو

اس معاہدے جوکہ دراصل معاہدہ نہیں بلکہ باہمی اتفاق کی یاد داشت [Memorandum of understanding ] ہے کا خوشگوار اثر یہ بھی ہوا ہے کہ باجوڑ میں جنگجوؤں [طالبان] نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے ۔ مرکزی اور صوبائی تمام قبائلی علاقوں کے طالبان افغانستان کے مُلا عمر کو اپنا سُپریم کمانڈر کہتے ہیں ۔ مُلا عمر نے تمام طالبان کو کسی پاکستانی فوجی پر فائرنگ نہ کرنے کا کہا ہے

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی پاکستان کو محفوظ رکھے ۔ پاکستانیوں بالخصوص حُکمرانوں کو مُلک و قوم کی بھلائی سوچنے اور اس کیلئے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین

باقی اِنْ شَاء اللہ کل

بنی اسراءیل کی مختصر تاریخ

میں ریاست اسرائیل کی مختصر تاریخ قسط وار مندرجہ ذیل تواریخ کو لکھ چکا ہوں ۔ صیہونیوں کے کردار کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ بنی اسرائیل کی تاریخ کا مختصر جائزہ لیا جائے

10-01-2009 14-01-2009 18-01-2009 24-01-2009
30-01-2009 01-02-200905-02-2009 09-02-2009

حصہ اوّل ۔ 585 قبل مسیح تک

حضرت ابراھیم علیہ السّلام کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السّلام اور چھوٹے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السّلام تھے ۔ خانہ کعبہ حضرت ابراھیم علیہ السّلام اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے آج سے 4000 سال قبل تعمیر کیا تھا البتہ کچھ حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسی جگہ حضرت آدم علیہ السّلام نے کعبہ بنایا اور اور مشہور طوفان کے بعد حضرت نوح علیہ السّلام نے اسے تعمیر کیا تھا ۔ حضرت ابراھیم علیہ السّلام نے فلسطین کے علاقہ بیت المقدّس میں بھی عبادت گاہ بنائی ۔ حضرت اسحاق علیہ السّلام بھی وہاں عبادت کرتے رہے مگر حج کے لئے وہ مکّہ مکرمہ میں خانہ کعبہ ہی جاتے تھے ۔

حضرت اسحاق علیہ السّلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السّلام تھے ۔ اسراءیل حضرت یعقوب علیہ السّلام کا لقب تھا ۔ اسراءیل کے معنی ہیں عبداللہ یا اللہ کا بندہ ۔ بنی اسراءیل حضرت یعقوب علیہ السّلام کے قبیلہ کو کہا جاتا ہے ۔حضرت یعقوب علیہ السّلام کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السّلام تھے جو مصر کے بادشاہ بنے ۔ بنی اسراءیل میں پھر حضرت موسی علیہ السّلام مصر میں پیدا ہوۓ ۔ ان کے بعد صحراۓ سینائی کے علاقہ میںحضرت داؤد علیہ السّلام پیدا ہوۓ جو بعد میں فلسطین چلے گئے ۔

جب حضرت داؤد علیہ السّلام نے طاقتور دیو ہیکل جالوت (گولائتھ) کو اللہ کی نصرت سے غلیل کے پتھر مار کر گرا دیا تو فلسطین کے بادشاہ صَول نے حسبِ وعدہ ان کی شادی اپنی بیٹی مِشَیل سے کر دی ۔ صَول کے مرنے کے بعد حضرت داؤد علیہ السّلام فلسطین کے بادشاہ بنے ۔ حضرت داؤد علیہ السّلام کی وفات کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السّلام فلسطین کے بادشاہ بنے ۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے ہوا ۔ جِن اور ہر قسم کے جانور حضرت سلیمان علیہ السّلام کے تابع کر دیئے تھے ۔ قبل مسیح 961 سے قبل مسیح 922 کے دوران حضرت سلیمان علیہ السّلام نے جنّوں کی مدد سے ایک عبادت گاہ اُس جگہ تعمیر کروائی جہاں حضرت ابراھیم علیہ السّلام نے عبادت گاہ تعمیر کرائی تھی

جاگتے رہنا

پہلے تازہ خبر ۔ ابھی ابھی یعنی صبح 8 بج کر 49 منٹ اور 55 سیکنڈ پر اسلام آباد میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے

میں جب چھٹی یا ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا [1949ء] تو انگریزی کے رسالے میں ایک بند پڑھا تھا جو میں کبھی نہ بھُول سکا ۔ اُس کا میں نے اُردو میں ترجمہ کر کے اپنے دوستوں سے داد و تحسین وصول کی ۔ کسی ساتھی نے ہمارے اُستاذ صاحب کو بتا دیا ۔ اُس زمانہ میں اگر اُستاذ صاحب ہمیں بلائیں تو جان ہی خانے سے جاتی تھی سو ہوا یہی کہ ایک بڑی جماعت کا لڑکا آیا اور کہا کہ فلاں اُستاذ صاحب بُلا رہے ہیں ۔ میرا حال ہوا کہ کاٹو تو لہو نہیں ۔ ایک ایک من کا ایک ایک قدم اُٹھاتا پہنچا ۔ اُستاذ صاحب نے پوچھا “یہ تم نے لکھا ہے ؟” مجھے نہ کچھ نظر آ رہا تھا اور نہ کچھ سُنائی دے رہا تھا ۔ جب تیسری بار اُستاذ صاحب نے میرے کندھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا” بیٹا ۔ میں پوچھ رہا ہوں کہ یہ تم نے لکھا ہے ؟ ” پھر جب اُنہوں خود ہی کہا “آخر ایسے جماعت میں اوّل نہیں آتے”۔ تو مجھے سمجھ میں آیا کہ استاذ صاحب کیا کہہ رہے تھے ۔ میں نے ہاں میں سر ہلایا تو کہنے لگے “شاباش ۔ یہ میں اپنے پاس رکھوں گا ”

جو جانے اور نہ جانے کہ جانے ہے ۔ سویا ہے ۔ جگا دو
جو نہ جانے اور جانے کہ نہ جانے ہے ۔ سادہ ہے ۔ تربیت دو
جو نہ جانے اور نہ جانے کہ نہ جانے ہے ۔ احمق ہے ۔ دُور رہو
جو جانے اور جانے کہ جانے ہے ۔ عقلمند ہے ۔ تقلید کرو

انگریزی کا بند یہ تھا

He, who knows and knows not he knows, is asleep. Awake him
He, who knows not and knows he knows not, is simple. Teach him
He, who knows not and knows not he knows not, is fool. Shun him
He, who knows and knows he knows, is wise. Follow him

کیا اعلٰی عہدیداروں میں شامل غداروں کے بغیر یہ ممکن ہے ؟

چند روز قبل ہی بازار میں فروخت کیلئے پیش ہونیوالی ڈیوڈ ای سینگر کی تحریر کردہ کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے پاک فوج کے افسران کی ٹیلیفون پر بات چیت سن رہے تھے اور جاسوس طیاروں کے ذریعے حملوں کا فیصلہ ایسی ہی اعلیٰ سطح کی گفتگو سننے کے بعد کیا گیا جس میں طالبان کو پاکستان کیلئے ”اسٹریٹجک اثاثہ“ قرار دیا گیا تھا۔ ”دی اِن ہیریٹنس ۔ امریکی طاقت کو درپیش چیلنجز اور وہ دنیا جس کا اوباما کو سامنا ہے“ کے نام سے تحریر کردہ کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستانی علاقوں پر حملوں کا فیصلہ اس وقت کیا گیا جب سی آئی اے اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ آئی ایس آئی مکمل طور پر طالبان کا ساتھ دے رہی ہے۔ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی [این ایس اے] نے ایسے پیغامات کا سراغ لگایا جن سے اشارہ ملتا تھا کہ آئی ایس آئی کے افسران افغانستان میں ایک بہت بڑا بم حملہ کرانے کیلئے منصوبہ بندی میں طالبان کی مدد کر رہے ہیں تاہم اس کا ہدف واضح نہیں تھا۔ چند روز کے بعد قندھار جیل پر طالبان نے حملہ کیا ا ور سیکڑوں طالبان کو رہا کرالیا۔

اگر کتاب میں عائد کردہ الزامات درست ہیں تو جنرل اشفاق پرویز کیانی پاکستانی فوج کے دوسرے سربراہ ہونگے جن کی گفتگو امریکیوں نے سنی ہے۔ قبل ازیں ایف بی آئی نے صدر پرویز مشرف کی بینظیر بھٹو کیساتھ ہونیوالی وہ گفتگو سنی تھی جب پرویز مشرف نے انہیں دھمکی دی تھی کہ پاکستان میں ان کی سلامتی کا انحصار انکے [پرویز مشرف] ساتھ تعلقات پر ہے۔ بھارتیوں نے بھی جنرل پرویز اور جنرل عزیز کی گفتگو اس وقت ریکارڈ کی تھی جب کارگل جنگ کے دوران جنرل پرویز مشرف بیجنگ میں تھے۔ مصنف، جنہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 20 جنوری کو جارج بش کے صدارت چھوڑنے سے قبل وائٹ ہاؤس میں منعقد ہونیوالے متعدد اجلاسوں میں خفیہ ریکارڈ تک براہِ راست رسائی دی گئی تھی، نے کتاب میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ این ایس اے پہلے بھی ایسی گفتگو سن چکی ہے کہ پاکستان آرمی کے یونٹس قبائل میں اسکول کو نشانہ بنانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ پیشگی انتباہ کر رہے ہیں کہ کیا ہونیوالا ہے۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے لازماً 1-008-HAQOANI
ڈائل کیا ہوگا۔ یہ بات اس شخص نے کہی ہے جو اس سے آگاہ تھا۔

ایک اور پیرا گراف کے مطابق اسکول کو بھیجی گئی وارننگ کی تفصیلات تقریباً مضحکہ خیز تھیں۔ اس میں کہا گیا تھاکہ ”اوئے! ہم تمہاری جگہ کو چند روز میں نشانہ بنانے والے ہیں لہٰذا اگر وہاں کوئی اہم آدمی موجود ہے تو اس سے کہو کہ وہ چیخ و پکار کرے“۔ کتاب میں یہ بھی دعویٰ کیاگیا ہے کہ امریکا کو ان زمینی حقائق سے پوری آگاہی تھی اور انہوں نے پاکستانی علاقوں میں اس وقت حملے کرنا شروع کئے جب انہوں نے سوچا کہ پاکستانی فوج اور خُفیہ ادارے طالبان سے لڑنے میں مزید دلچسپی نہیں رکھتے۔

کتاب کے باب نمبر 8 ”کراسنگ دی لائن“میں پاکستان کے حوالے سے مصنف نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ کس طرح پاک فوج کے ایک میجر جنرل نے امریکی جاسوسی ادارے کے سربراہ مائیک میک کونیل کے سامنے دانستہ پاک فوج کے پورے خفیہ منصوبے کو کھول کر رکھ دیا تھا۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے خفیہ ادارے یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ پرویز مشرف ان کیساتھ ڈبل گیم کھیل رہے ہیں ۔ ایک جانب تو وہ امریکا کو یقین دلاتے تھے کہ صرف وہی طالبان کے خلاف لڑ سکتے ہیں تو دوسری جانب وہ عسکریت پسندی اور عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ پرویز مشرف کے دُہرے معیار کا ریکارڈ جانا پہچانا تھا۔
مصنف نے پاکستان پر یہ باب امریکا کے دو اعلیٰ خفیہ اداروں کے سربراہان مائیک میک کونیل اور مائیکل ہیڈن جن کی عرفیت ” Two Mikes
” تھی کے خفیہ دوروں کی بنیاد پر تحریر کیا ہے۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرف سمیت پاک فوج کے اعلیٰ افسران کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کی تھیں۔ مصنف نے تحریر کیا ہے کہ مئی 2008ء کے آخر میں میک کونیل نے پاکستان کا خفیہ دورہ کیا جو نیشنل انٹیلی جنس کا ڈائریکٹر بننے کے بعد ان کا چوتھا یا پانچواں دورہ تھا اور اس کے نتیجے میں بش انتظامیہ کے آخری دنوں میں پاکستان میں سرحد پار سے خفیہ ایکشن بہت زیادہ بڑھ گیا تھا

کیا پورے پاکستان میں خون خرابہ کرنا ہو گا ؟

مالاکنڈ بشمول سوات میں تباہی اور خُون خرابہ بسیار کے بعد کل یعنی 15 فروری 2009ء کو صوبہ سرحد کے حکومتی اہلکاروں نے صوفی محمد کے ساتھ مذاکرات کئے جس کے نتیجہ میں 10 روز کی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا ۔ آج صبح پشاور میں جرگہ ہوا جس میں معاہدہ طے پایا کہ نظام عدل ریگولیشنزکے تحت مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی عدالتیں قائم کی جائیں گی ۔ عدالتوں میں شرعی قوانین کا علم رکھنے والے ججز کو تعینات کیا جائے گا ۔ شرعی عدالتیں دیوانی مقدمات کا فیصلہ 6 ماہ اورفوجداری کا فیصلہ 4 ماہ میں کریں گی ۔ مالاکنڈ میں شریعت سے متصادم قوانین کالعدم ہونگے اور شریعت کے خلاف کوئی قانون قابل قبول نہیں ہوگا ۔ اللہ کرے اب اس معاہدے پر نیک نیّتی سے عمل کیا جائے اور اس کا حشر پچھلے معاہدوں کی طرح نہ ہو ۔

یہ مت سمجھا جائے کہ ریاست کے اندر ریاست قائم ہو رہی ہے جیسا کہ دین بیزار لوگ کہتے آئے ہیں ۔ یہ اقدام پاکستان کے آئین کے عین مطابق پہلا قدم ہے ۔ ملاحظہ ہوں آئین کی متعلقہ شقات اس تحریر کے آخر میں

اگر ایس قانون مالاکنڈ جو کہ پاکستان کا حصہ ہے مین نافذ ہو سکتا ہے تو پورے پاکستان مین کیوں نافذ نہیں ہو سکتا ؟
کیا پورے پاکستان میں شرعِ اسلام کا نظامِ عدل نافذ کرنے کیلئے پورے پاکستان میں بھی خُون خرابہ کرنا ہو گا ؟
کیا اسلامی نظامِ عدل نافذ کرنے پاکستان کے تمام صوبوں اور شہروں کی سڑکوں ۔ گلیوں اور گھروں کو مسلمان مردوں ۔ عورتوں ۔ بوڑھوں ۔ جوانوں اور بچوں کے خون سے سینچنا ضروری ہے ؟

کون دے گا ان سوالوں کا جواب ؟

آئینِ پاکستان سے متعلقہ اقتباسات

Preamble

Whereas sovereignty over the entire Universe belongs to Almighty Allah alone, and the authority to be exercised by the people of Pakistan within the limits prescribed by Him is a sacred trust;
Wherein the principles of democracy, freedom, equality, tolerance and social justice, as enunciated by Islam, shall be fully observed;
Wherein the Muslims shall be enabled to order their lives in the individual and collective spheres in accordance with the teachings and requirements of Islam as set out in the Holy Quran and Sunnah;
Wherein the independence of the judiciary shall be fully secured;
Faithful to the declaration made by the Founder of Pakistan, Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah, that Pakistan would be a democratic State based on Islamic principles of social justice;

Article 62

(d) he is of good character and is not commonly known as one who violates Islamic Injunctions;
(e) he has adequate knowledge of Islamic teachings and practises obligatory duties prescribed by Islam as well as abstains from major sins ;
(f) he is sagacious, righteous and non-profligate and honest and ameen;
(g) he has not been convicted for a crime involving moral turpitude or for giving false evidence;
(h) he has not, after the establishment of Pakistan, worked against the integrity of the country or opposed the Ideology of Pakistan