Yearly Archives: 2009

ٹیلیفون کس کا؟

کل اسلام آباد میں یہ سوال انتہائی اعلٰی سطح پر پوچھا جا رہا تھا اور قیافہ آرائی کا بازار گرم تھا

“وہ ٹیلیفون کس کا تھا ؟ ”

بدھ 25 فروری کو گورنر راج نافذ کر کے آئین اور قانون کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کی عمارت کو نہ صرف تالے لگا دیئے گئے تھے بلکہ اس کے اردگرد پولیس اور رینجرز تعینات کر دیئے گئے تھے ۔ کل سہ پہر واشنگٹن سے کسی نے آصف زرداری کو ٹیلیفون کیا ۔ اُس کے بعد چند منٹوں کے اندر پنجاب اسمبلی کی عمارت کو کھول دیا گیا اور اور اسمبلی کے اسپیکر جنہوں نے کل بھی اسمبلی کی عمارت سے باہر زمین پر بیٹھ کر اجلاس کیا تھا اُن کو اسمبلی کی عمارت میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی

کوئی کہتا ہے کہ یہ ٹیلیفون کسی امریکی اہلکار کا تھا لیکن زیادہ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ٹیلیفون پاکستان کی فوج کے سربراہ اشفاق پرویز کیانی کا تھا جو آج کل امریکہ میں ہیں ۔ اگر کوئی قاری حقیقت سے واقف ہے تو واضاحت کرے

جذبہ عشق

سُنا تھا
جذبہ عشق ہو باقی تو کچے دھاگے سے چلیں آئیں گے سرکار بندھے ۔
یہ صرف لڑکا لڑکی کے درمیان جو وقتی اُبال ہوتا ہے وہ بات نہیں ہے بلکہ انسان کسی بھی کام کو خلوصِ نیّت سے کرنے لگے تو راستے کھُلتے چلے جاتے ہیں ۔
میں نے کل “چور چوری سے جائے” کے تحت ایک سکول کا ذکر کیا تھا ۔ یہ واقعہ میں نے کسی تیسرے شخص سے سُنا تھا ۔ اتفاق سے اس سکول کے متعلقہ ایک شخص سے گذشتہ شام ملاقات ہو گئی ۔ علیک سلیک اور حال احوال کے بعد میں نے پوچھا “وہ سکول کا کیا قصہ ہے ؟” جو اُنہوں نے بتایا اُس کا خلاصہ یہ ہے

“اس سکول کی مالکہ بینظیر بھٹو کی سہیلی تھیں ۔ اس کی درخواست پر بینظیر بھٹو نے ان کے سکول کیلئے متذکرہ گرین بیلٹ میں سے زمین تحفہ کے طور دلوا دی یعنی سرکاری قیمت پر ۔ زرداری نے نئے چیئرمین سی ڈی اے کو ٹارگٹ دیا ہے کہ دو ارب روپیہ مہیا کرے ۔ چنانچہ متذکرہ سکول سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی زمین کی قیمت موجودہ مارکیٹ ریٹ کے حساب سے لگا کر بقایا رقم ادا کریں جو کہ شاید ڈھائی کروڑ روپیہ فی کنال بنتی ہے ۔ اگر زمین 20 کنال ہے تو سکول والوں کو 50 کروڑ روپیہ ادا کرنا ہو گا “

وضاحت

میں نے کل کچھ اُونچی باتیں اور خبریں لکھی تھیں جن کے متعلق استفسار ہوا ۔ ایسی سینہ بسینہ چلنے والی باتوں کا ثبوت دینا مشکل ہوتا ہے ۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ بات آگے پہنچانے سے پہلے خبربرداروں کو پرکھ لوں کہ کتنے عام زندگی میں کتنے سچے ہیں ۔ بہرحال ان باتوں کی موجودہ صورتِ حال یہ ہے

ایک ۔ اب دنیا نیوز ٹی وی چینل پر بھی نشر ہو چکی ہے
دو ۔ تین اور چار ۔ اخبار دی نیوز میں شائع ہو گئی ہیں
پانچ ۔ یہ آئینی صورتِ حال ہے ۔ جو کچھ گورنر اور صدر نے پنجاب کے بارے میں کیا ہے سب غیر آئینی ہے ۔ ایک پرانی مثال ہے کہ نواز شریف جب وزیراعظم تھے تو سندھ میں حالات خراب ہونے پر گورنر راج نافذ کیا گیا تو صوبائی اسمبلی کے سپیکر مستعفی ہو گئے ۔ مرکزی حکومت نے اسمبلی کا کام جاری رکھنے کیلئے رولز آف بزنس تبدیل کر کے ڈپٹی سپیکر کو اسمبلی چلانے کو کہا ۔ اس کے خلاف رِٹ پیٹیشن دائر کی گئی ۔ عدالتِ عالیہ نے فیصلہ دیا کہ آئین کے مطابق رولز آف بزنس اور دوسرے صوبائی کام صوبائی اسمبلی یا اس کی نمائندہ کابینہ یا وزیر اعلٰی اور اگر یہ نہ ہوں تو پارلیمنٹ یعنی قومی اسمبلی اور سینٹ مل کر چلا سکتے ہیں ۔ چنانچہ مرکزی حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا تھا ۔
چھ ۔ یہ تو اب تمام ٹی وی چینلز سے نشر ہو چکا ہے اور اخبارات میں چھپ چکا ہے

چورچوری سےجائے

محاورہ ہے ۔ ۔ ۔ چور چوری سے جائے پر ہیراپھیری سے نہ جائے ۔ ۔ ۔ میرا مشاہدہ ہے کہ چور نہ چوری چھوڑتا ہے اور نہ ہیراپھیری ۔ دو دہائیاں پیچھے ایک چور نے جو کہ توبہ تائب ہو چکا تھا میرے سامنے کچھ اس طرح اعتراف کیا “مجھے بچپن سے چوری کی عادت پڑ گئی ۔ گرفتاری کے بعد جیل میں ملاقات ایک بزرگ سے ہوئی جس نے مجھے سمجھایا اور میں نے چوری سے توبہ کر لی ۔ لیکن کچھ سمجھ نہیں آتی مجھے کیا ہو جاتا ہے جب کوئی قیمتی یا خوبصورت چیز مجھے نظر آتی ہے میں اُسے چُرانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ کبھی کبھی اُٹھا کر چھُپا بھی لیتا ہوں پھر خیال آتا ہے کہ کیا کر رہا ہوں تو واپس رکھ دیتا ہوں”۔ البتہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی قادر و کریم ہے کسی پتھر دِل میں اپنا خوف ڈال دے تو وہ پانی ہو جائے

بینظیر بھٹو کا دوسرا دور تھا ۔ میں اسلام آباد میں ایک قومی اعلٰی سطح کے اجلاس میں شریک تھا ۔ چائے کے وقفہ میں سندھ سے آئے ہوئے ایک اعلٰی عہدیدار جو خالص سندھی تھے سے میں نے تفصیلی حال احوال پوچھا تو میرے قریب ہو کر جواب دیا “بھائی ۔ ایسی باتیں سرِ عام نہ پوچھا کریں”۔ یہ کہہ کر وہ صاحب اپنی چائے لے کر دور ایک چھوٹی میز پر جا بیٹھے ۔ لمحہ بعد میں نے بھی اپنی چائے کی پیالی اُٹھائی اور اُن کے پاس جا بیٹھا اور پوچھا “ہاں جناب ۔ پھر کیا حال ہے ؟ سُنا ہے کہ آپ نے کراچی جِمخانہ کی زمین بھی لے لی ہے”۔ جواب ملا “بھائی کیا پوچھتے ہو ۔ اب تو کراچی میں شاید کوئی پولٹری فارم بھی نہیں رہا جس میں مردِ اوّل کا حصہ نہ ہو”۔ میں نے کہا “تو ٹَین پرسَینٹ [ten per cent] کو ٹوَینٹی یا تھرٹی پرسَینٹ [twenty or thirty percent] کرنا پڑے گا؟” جواب ملا “یہ کچھ سال رہ گیا تو ڈر ہے کہ ہنڈرڈ پرسَینٹ [hundred per cent] نہ ہو جائے ۔ ہمارا کیا بنے گا؟”۔ میرے ساتھ گفتگو کرنے والے پیپلز پارٹی کے خاص آدمیوں میں شمار ہوتے تھے

یہ تو ہے تاریخ ۔ اب کچھ تازہ بتازہ

عوام آج تک نہیں سمجھ پائے کہ 20 ستمبر 2008ء کو کس نے میریئٹ ہوٹل[Marriat Hotel] اسلام آباد کو تباہ کرنے کی سازش کی اور اتنے ہائی سکیورٹی زون میں تین چیک پوسٹیں عبور کرتا ہوا بارود سے بھرا ٹرک کیسے میریئٹ ہوٹل تک پہنچ گیا ؟ اسلام آباد کے اعلٰی دائرے میں چلیں جائیں تو اس سلسلہ میں سب مطمئن نظر آئیں گے ۔ میں نے چند روز قبل لکھا تھا کہ ہمارے لوگوں کو کل کی بات یاد نہیں رہتی ۔ آصف زرداری کے مُلک میں واپس آ نے کے بعد ایک خبر اخبار میں چھپی تھی کہ میریئٹ ہوٹل اسلام آباد زرداری نے خرید لیا ہے ۔ ہوا یہ تھا کہ زرداری نے صدرالدین ہاشوانی سے ہوٹل مانگا تھا لیکن اُس نے دینے سے انکار کر دیا ۔ جس کی سزا اُسے 20 ستمبر 2008ء کو دی گئی

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ۔ 11/3 اور سیکٹر ای ۔ 11 کے درمیان گرین ایریا پر ایک سکول ہے ۔ یہ سکول بنانے کیلئے زمین کا ٹکڑا بینظیر بھٹو نے اپنے دورِ حکومت میں سکول کے مالکوں کو تحفہ کے طور پر دیا تھا یعنی رعائتی قیمت پر ۔ حال ہی میں مِسٹر ٹَین پرسَینٹ کے آدمی نے سکول کے مالکوں سے کہا کہ اس زمین کی مارکیٹ ویلیو [maket value] اتنی بنتی ہے اسلئے اس حساب سے بقایا جات کی ہمیں ادائیگی کی جائے ۔ کوئی جواب نہ ملنے پر سکول کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور مالکوں کو بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں

بزنس بزنس ہوتا ہے [business is business] اور بزنس مین [bsinessman] جہاں بھی بیٹھ جائے بزنس ہی کرتا ہے ۔ اس کی دو مثالیں میاں نواز شریف نے اپنی شیخو پورہ کی تقریر میں پیش کیں ۔ صدر آصف زرداری سے نواز شریف کی آخری ملاقات میں زرداری نے کہا تھا “آپ پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007ء کے اقدامات کی توثیق کر دیں تو میں آپ کی بات مان لیتا ہوں “۔ اس کے بعد جب صدر نے وزیرِ اعلٰی پنجاب شہباز شریف کو کھانے پر بُلایا تھا تو اُسے کہا “میرے ساتھ بزنس ڈِیل کرو ۔ آپ عبدالحمید ڈوگر کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے آئینی ترمیم میں میری مدد کریں اور میں آپ کے نااہلی کے مقدمات کا فیصلہ آپ کے حق میں کروا دیتا ہوں”

اللہ ہمیں ہر بُرائی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے

کچھ اُونچی باتیں اور خبریں

ایک ۔ 24 فروری کو مرکزی حکومت نے باقاعدہ طور پر امریکی حکومت کو آگاہ کیا کہ کل یعنی 25 فروری کو نواز شریف اور شہباز شریف کو نااہل قرار دیا جا رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ آقا سے آشیرباد ملنے کے بعد یہ قدم اُٹھایا گیا

دو ۔ 25 فروری کی دوپہر جب ابھی شریف برادران کی نااہلی کے فیصلے کا اعلان نہیں ہوا تھا مسلم لیگ ق کی ایک عہدیدار نوشین سعید سفما کے ظہرانے میں شریک تھی کہ اسکے موبائل فون پر پیغام آیا کہ شریف برادران کو نااہل قرار دے کر پنجاب میں گورنر راج نافذ کیا جا رہا ۔ اس پر وہ ششدر رہ گئی

تین ۔ 25 فروری کو عدالت سے شریف برادران کی نااہلی کا فیصلہ آنے کے بعد جب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی صدر زرداری کے پاس گئے تو اُن کا خیال تھا کہ صدر زرداری مسلم لیگ ن کو پنجاب میں دوبارہ حکومت بنانے کا کہیں گے ۔ اس کے برعکس اُن کو پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کی خبر دی گئی جس سے وہ پریشان ہوئے

چار ۔ 26 فروری کو زرداری کے مشیروں نے ذرائع ابلاغ پر پابندی لگانے کا مشورہ دیا تاکہ وہ ملک میں ہونے والے احتجاج کو نہ ٹی وی پر دکھائیں اور نہ اخباروں میں اس کی تفصیل لکھیں ۔ اس کا جب وزیر اطلاعت شیری رحمان کو علم ہوا تو اُس نے کہا کہ “محترمہ بینظیر بھٹو نے مرنے سے قبل آزاد ذرائع ابلاغ کا وعدہ کیا تھا ۔ اسلئے اگر پابندی لگائی گئی تو میں وزارت سے مستعفی ہو جاؤں گی”

پانچ ۔ گورنر پنجاب نے جو رولز آف بزنس میں تبدیلی کی ہے آئین کے مطابق یہ صوبائی اسمبلی کا کام ہے جو صوبائی کابینہ یا وزیر اعلٰی سرانجام دیتا ہے اور اُن کی عدم موجودگی میں مُلک کی پارلیمنٹ یہ کام کرتی ہے ۔ چنانچہ رولز آف بزنس میں تبدیلی اور جو بے شمار اعلٰی عہدیداروں کو تبدیل کیا گیا ہے یا او ایس ڈی بنایا گیا اور جو نئے عہدیدار تعینات کئے گئے ہیں یہ سب آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے

چھ ۔ آج رائے وِنڈ میں پنجاب مسلم لیگ ن کی صوبائی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا ۔ اس میں مسلم لیگ ن کے علاوہ مسلم لیگ ق کے 33 ارکان پنجاب اسمبلی نے شرکت کی ۔ مسلم لیگ ق کے ایک رکن پنجاب اسمبلی جو اس وقت بلوچستان میں ہیں نے موبائل فون کے ذریعہ مسلم لیگ ن کو اپنی حمائت کا یقین دلایا ۔ مسلم لیگ ق کے ایک رکن پنجاب اسمبلی جو اس وقت ملک سے باہر ہیں ایک دو دن میں واپس پہنچ رہے ہیں ۔ ان کے متعلق بھی کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حمائت کریں گے ۔ مسلم لیگ ن کے پنجاب اسمبلی میں 170 ارکان ہیں اور حکومت بنانے کیلئے اُنہیں مزید صرف 16 ارکان کی ضرورت ہے جبکہ مسلم لیگ ق کے 35 اور دوسرے 7 ارکان اُن کے ساتھ ہیں جو کُل 212 بنتے ہیں ۔ اگر باقی تمام ارکان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل بھی جائیں تو کل 157 بنتے ہیں ۔ چنانچہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کا کوئی امکان نہیں ۔ اسلئے ہو سکتا ہے کہ گورنر راج کو غیر آئینی طریقہ سے طول دیا جائے

اجتماعی دعا کریں

میرے اللہ ۔ بادشاہی کے مالک ۔ تو جس کو چاہے بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ۔ تو نے ہی ہمیں یہ مُلک پاکستان عطا کیا کہ ہم تیرے دین کے مطابق عمل کر سکیں ۔ ہمیں تو نے ہر نعمت سے نوازہ اور ہم مضبوط ہو کر دنیا کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوئے ۔ لیکن پھر ہم راستے سے بھٹک گئے اور اس فانی دنیا کی دولت و شہرت کے پیچھے لگ گئے جس کے نتیجہ میں آج ہم پریشان و خوار ہیں اور ذلت میں ڈوبے ہوئے ہیں

میرے اللہ ۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ۔ تو پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے اور بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔ ہماری خطائیں اور لغزشیں معاف فرما اور ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما

میرے اللہ ۔ ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے اور بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔ ہمارے ملک و قوم کو بیرونی اور اندرونی خطرات اور سازشوں سے محفوظ فرما اور ہماری قوم اور ہمارے مُلک کو تباہی سے بچا لے اور ہمارے ملک کو پھر اپنے دین کا قلعہ بنا دے

میرے اللہ ۔ تو تمام مخلوقات کا خالق ۔ ایجاد واختراع کرنے والا اور صورت گری کرنے والا ہے ۔ ہمارے حکمرانوں کے دلوں میں ملک و قوم کی بھلائی کا جذبہ پیدا فرما دے اور اُنہیں اس جذبے پر عمل کی توفیق بھی عطا فرما دے

میرے اللہ ۔ تو سلامتی اور امن دینے والا ہے ۔ اگر ہمارے حکمران سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق نہیں رکھتے تو ہمیں ملک و قوم کی محبت اور اس کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے حکمران نصیب فرما اور ہمارے ملک کو امن کا گہوارہ بنا دے

آمین ثم آمین ۔ یا اب العالمین

کیا گورنر راج کا جواز ہے ؟

گونر راج کا نفاذ آئین کی شق 234 کے تحت کیا گیا ہے جو نیچے نقل کی گئی ہے ۔ یہ شق صرف ایمرجنسی کی صورت میں نافذ ہو سکتی ہے جب صوبے کی حکومتی میشینری ناکام ہو جائے جبکہ پنجاب میں ایسی صورت حال پیدا نہیں ہوئی تھی صرف وزیر اعلٰی کو نااہل قرار دیا گیا تھا ۔ آئین کی رو سے سینئر وزیر جو کے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتا تھا فوری طور پر وزیر اعلٰی کا عہدہ سنبھال سکتا تھا اور پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلا کر نئے وزیر اعلٰی کا انتخاب 7 دن کے اندر کرنا تھا ۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ پنجاب کی اسمبلی کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے جو کہ آئین کی اسی شق یعنی 234 کی خلاف ورزی ہے [Article 234 (1) (a)
]
کچھ حقائق
پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ [ن] کے 171 ارکان ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے 107 اور مسلم لیگ [ق] کے 85 ہیں ۔ ارکان کی کل تعداد 370 ہے اسلئے اکثریت بنانے کیلئے 186 ارکان کی ضرورت بنتی ہے ۔

حکومت بنانے کیلئے مسلم لیگ [ن] کو مزید 14 ارکان کی حمائت چاہیئے ۔ پہلے ہی سے مسلم لیگ فنکشنل کے 3 اور متحدہ مجلس عمل کے تین ارکان اُن کے ساتھ ہیں ۔ صدارتی الیکشن میں مسلم لیگ [ن] کے اُمید وار کو 201 ووٹ ملے تھے جبکہ مسلم لیگ [ق] کا اُمیدوار بھی میدان میں تھا ۔ اس کا مطلب ہوا کہ مسلم لیگ [ن] کو مسلم لیگ [ق] کے کم از کم 24 ارکان کی پہلے سے ہی حمائت حاصل ہے اور سننے میں آیا ہے کہ یہ تعداد اب بڑھ چکی ہے ۔

پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے کیلئے مزید 79 ارکان کی ضرورت ہے جو کہ 5 آزاد اور 85 مسلم لیگ [ق] کے ارکان میں سے پورے کرنا تھے ۔ مسلم لیگ [ق] کے کم از کم 24 ارکان مسلم لیگ [ن] کے حمائتی ہو جانے کے بعد 61 ارکان بچتے ہیں ان میں سے بھی کئی پیپلز پارٹی کی حمائت کیلئے راضی نہیں ۔ اگر پیپلز پارٹی کسی طرح 5 آزاد ارکان کو اپنے ساتھ ملا لے پھر بھی اُسے مزید 74 ارکان کی ضرورت ہے جو کہ فی الحال ناممکن ہے ۔

اسی وجہ سے گورنر راج نافذ کیا گیا ہے ۔ دیگر اسمبلی کو آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس لئے کام کرنے سے روکا گیا ہے کہ اجلاس ہونے کی صورت میں وہ اپنا وزیر اعلٰی چن لیں گے جو مسلم لیگ [ن] کا ہی ہو گا اور شہباز شریف کو عدالت کے ذریعہ نااہل قرار دلوانے کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا ۔

234. Power to issue Proclamation in case of failure of constitutional machinery in a Province.
(1) If the President, on receipt of a report from the Governor of a Province or otherwise, is satisfied that a situation has arisen in which the Government of the Province cannot be carried on in accordance with the provisions of the Constitution, the President may, or if a resolution in this behalf is passed at a joint sitting shall, by Proclamation,
(a) assume to himself, or direct the Governor of the Province to assume on behalf of the President, all or any of the functions of the Government of the Province, and all or any of the powers vested in, or exercisable by, any body or authority in the Province, other than the Provincial Assembly;
(b) declare that the powers of the Provincial Assembly shall be exercisable by, or under the authority of, Parliament; and
(c) make such incidental and consequential provisions as appear to the President to be necessary or desirable for giving effect to the objects of the Proclamation, including provisions for suspending in whole or in part the operation of any provisions of the Constitution relating to any body or authority in the Province:
Provided that nothing in this Article shall authorize the President to assume to himself, or direct the Governor of the Province to assume on his behalf, any of the powers vested in, or exercisable by, a High Court, or to suspend either in whole or in part the operation of any provisions of the Constitution relating to High Courts.

(2) The Provisions of Article 105 shall not apply to the discharge by the Governor of his functions under clause (1).

(3) A Proclamation issued under this Article shall be laid before a joint sitting and shall cease to be in force at the expiration of two months, unless before the expiration of that period it has been approved by resolution of the joint sitting and may by like resolution be extended for a further period not exceeding two months at a time; but no such Proclamation shall in any case remain in force for more than six months.

(4) Notwithstanding anything contained in clause (3), if the National Assembly stands dissolved at the time when a Proclamation is issued under this Article, the Proclamation shall continue in force for a period of three months but, if a general election to the Assembly is not held before the expiration or that period, it shall cease to be in force at the expiration of that period unless it has earlier been approved by a resolution of the Senate.

(5) Where by a Proclamation issued under this Article it has been declared that the powers of the Provincial Assembly shall be exercisable by or under the authority of Parliament, it shall be competent-
(a) to Parliament in joint sitting to confer on the President the power to make laws with respect to any matter within the legislative competence of the Provincial Assembly;
(b) to Parliament in joint sitting, or the President, when he is empowered under paragraph (a), to make laws conferring powers and imposing duties, or authorizing the conferring of powers and the imposition of duties, upon the Federation, or officers and authorities thereof;
(c) to the President, when Parliament is not in session, to authorize expenditure from the Provincial Consolidated Fund, whether the expenditure is charged by the Constitution upon that fund or not, pending the sanction of such expenditure by Parliament in joint sitting; and
(d) to Parliament in joint sitting by resolution to sanction expenditure authorized by the President under paragraph (c).

(6) Any law made by Parliament or the President which Parliament or the President would not, but for the issue of a Proclamation under this Article, have been competent to make, shall, to the extent of the incompetency, cease to have affect on the expiration of a period of six months after the Proclamation under this Article has ceased to be in force, except as to things done or omitted to be done before the expiration of the said period.