اُس وقت کے صدر اسکندر مرزا کے حُکم پر جنرل محمد ایوب خان نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا تو ایک قانون بنا جس کے تحت بد دیانتی کی پہچان [Reputation of dishonesty] رکھنے والے کہہ کر 604 افراد کو برطرف کر دیا گیا
جنرل آغا محمد یحیٰ خاں صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا تو ایک قانون بنا جس کے تحت بد دیانتی کی پہچان [Reputation of dishonesty] رکھنے والے کہہ کر 303 افراد کو برطرف کر دیا گیا
پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو حکومت ملی تو وہ صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گیا اور بغیر کوئی قانون بنائے 1600 افراد کو برطرف کر دیا گیا
مندرجہ بالا جو افراد برطرف کئے گئے ان کے خلاف کوئی مقدمہ کسی بھی عدالت میں دائر نہیں کیا گیا تھا
اب پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کے دور میں 8014 افراد کے خلاف بد دیانتی کے مقدمات مختلف عدالتوں میں قائم ہیں جن میں سے 7793 کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے ۔ ان 8014 افراد میں سے 34 سیاستدان ہیں جن کی اکثریت حکومت میں شامل ہے ۔ آصف علی زرداری نے پُرزور الفاظ میں کہا ہے کہ “ان الزامات کی وجہ سے کوئی مستعفی نہیں ہو گا”
دنیا تیرے رنگ نیا رے
سچ کہا تھا سقراط نے “اگر جاہلوں کو منتخب کرنے کا حق دیا جائے تو حکمران بدمعاش ہی بنیں گے”
میرے خیال کے مطابق جمہوریت کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے
انکل جی آپ پر تو پہلے ہی متعصب پنجابی ہونے کا الزام شدومد سے عائد کیا جاتا ہے۔ اب یہ سات ہزار کی بات کرنے پر تو تیار ہو جائیں آپ۔
خرم صاحب
یہ سات ہزار اور آٹھ ہزار وزیرِ مملکت برائے قانون و انصاف افضل سندھو نے بتائے ہیں ۔ ویسے جس کے پاس کو جواب نہیں ہوتا وہ متعصب کہہ کر اپنا دل خوش کر لیتا ہے
ویٹ اینڈ سی پالیسی پر عمل کریں
فرحان دانش صاحب
کب تک بیٹھے دیکھتے رہیں گے ؟