لاہور کے ایک بڑے نام والے ہسپتال [Doctor’s Hospital] میں ایک ننھے فرشتے 3 سالہ بچی کو جسے ہاتھ پر گرم پانی پڑ جانے کی وجہ سے ہسپتال لایا گیا تھا کس طرح ڈاکٹروں نے موت کی نیند سُلا دیا ۔ یہاں کلک کر کے پڑھیئے پورا واقعہ ۔ پنجاب حکومت اخبار میں خبر پڑھنے کے بعد قانونی کاروائی شروع کر چکی ہے ۔ ہسپتال کے ذمہ دار ڈاکٹروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہو چکی ہے اور انہیں گرفتار کرنے کیلئے چھاپے مارے جا رہے ہیں
انکل ایک طویل فہرست ہے اس ہسپتال کے جرائم کی۔ لیکن ایمان کے والد کی ہمت ہے کہ انہوں نے اس زیادتی پر خاموش رہنے کی بجائے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ فیس بک پر ایک گروپ بھی ہے۔ ہم سب کو کوشش کرنا چاہئے کہ یہ ذبح خانہ نہ صرف بند ہو بلکہ اس کے کرتا دھرتاؤں کا پاکستان میں مسیحائی کا لائسنس بھی تمام عمر کے لئے منسوخ ہوجائے۔ انشاء اللہ۔
محترمی بھوپال صاحب
ایک اندازے کے مطابق لاہور کے زیادہ تر پرایویٹ اسپتال کے مالکان ڈاکٹر نہیں ۔ یہ ہسپتال غالبا واحد ایسا تھا جو ایک ڈاکٹر کی ملکیت ہے ۔ اگر اس کا یہ حآل ہے تو باقی کا تو خدا حافظ ہے ۔
خرم و محمد ریاض شاہد صاحبان
میں نہیں کہتا کہ میں کبھی پرائیویٹ کلنک نہیں گیا لیکن میں سرکاری ہسپتال کو ترجیح دیتا ہوں حالانکہ لمبی قطار میں انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ سرکاری ہسپتال میں دوائیاں نہیں ہوتیں اسلئے بازار سے خرید لیتا ہوں
اسپتالوں کا حال پچھلے دنوں ایمانے ملک کی ہلاکت کی شکل میں آپ کے سامنے آیا۔ اللہ مرحومہ کے والدین کو صبر عطا فرمائے اور اس صورت حال کا ذمہ دار کون ہے، مکمل غیر جانبدار تفتیش سے ہی معلوم کیا جاسکے گا ، پنجاپ حکومت معصوم بچی کی ہلاکت کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔
اب جب کسی آواز اٹھائی ہے تو ہم سب کو صرف کلام سے نہیں عملاَ بھی ان کا ساتھ دینا ہوگا۔
صبا سیّد صاحب
جب عمل شروع ہو گا تو حالات اللہ سُبحانُہُ ٹھیک کر دے گا