قائداعظم سے ملاقات میں جنرل اکبر نے فوجی میسوں میں انگریز حکومت کی شروع کی گئی شراب نوشی کی رسم کو ختم کرنے کی تجویز دی جس کے جواب میں قائداعظم نے اپنے اے ڈی سی کو بلایا اور کانفیڈریشن باکس لانے کو کہا۔ قائداعظم نے جیب سے چابی نکالی اور باکس کو کھول کر مراکشی چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی ۔ انہوں نے اسے اس مقام سے کھولا جہاں نشانی رکھی ہوئی تھی اور فرمایا “جرنل یہ قرآن مجید ہے اس میں لکھا ہے کہ شراب و منشیات حرام ہیں”
میں [جنرل اکبر] نے عرض کیا کہ “آپ ایک حُکم جاری کریں اور افسروں کو متنبہ کریں کہ شراب حرام اور منع ہے”۔
قائداعظم مسکرائے اور فرمایا کہ “کیا تم سمجھتے ہو کہ قائداعظم کا حُکم قرآن مجید کے احکامات سے زیادہ موثر ہوگا؟”
” سٹینو کو بلایا گیا ۔ قائداعظم نے ایک مسودہ تیار کیا اس میں قرآنی آیات کی جانب توجہ دلا کر فرمایا کہ شراب و منشیات حرام ہیں۔ میں [جنرل اکبر] نے اس مسودے کی نقل لگا کر شراب نوشی بند کرنے کا حکم جاری کر دیا جس پر میری ریٹائرمنٹ تک عمل ہوتا رہے“
دانشوروں کا ایک منظم گروہ گزشتہ چند برسوں سے دن رات یہ ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف ہے کہ قائداعظم سیکولر ذہن کے مالک تھے اور وہ پاکستان میں سیکولر نظام نافذ کرنا چاہتے تھے۔ یہ حضرات قائداعظم کی 11 اگست1947ء والی تقریر کو اپنا سیکولر ایجنڈا آگے بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں کیونکہ انہیں قائداعظم کی دیگر ہزاروں تقاریر میں کوئی ایسا مواد نہیں ملتا جسے وہ اپنی پراپیگنڈہ مہم کا ہر اول دستہ بنا سکیں۔ قائداعظم نے تقسیم ہند سے قبل تقریباً 101بار یہ اعلان کیا کہ پاکستان کے نظام کی بنیاد اسلامی اصولوں پر اٹھائی جائے گی اور قیام پاکستان کے بعد چودہ بار یہ واضح کیا کہ پاکستان کے نظام، آئین اور ملکی ڈھانچے کو اسلامی اصولوں پر استوار کیا جائے گا۔ انہوں نے لاتعداد بار کہا کہ قرآن ہمارا راہنما ہے اور ہمیں قرآن ہی سے راہنمائی کی روشنی حاصل کرنی چاہئے۔ ان سینکڑوں اعلانات اور وعدوں کے باوجود سیکولر حضرات اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ اپنے ذہن کے دریچے کسی اختلافی بات پر کھولنے کے لئے تیار نہیں
اللہ جانتا ہے کہ میرا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں، میری سوچ کا محور و مرکز صرف پاکستان ہے اور میں خلوص نیت سے سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے نظام کا فیصلہ پاکستان کے عوام نے کرنا ہے جنہوں نے پاکستان کے قیام کا فیصلہ کیا تھا اس لئے اگر مجھے قائداعظم کی تقریروں سے کہیں بھی سیکولرازم (لادینیت) کی بو آتی تو میں اسے نہ ہی صرف تسلیم کرتا بلکہ کھُلے ذہن سے اس کا اظہار کرتا کیونکہ میرے نزدیک قائداعظم سے عقیدت اور فکری دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ بابائے قوم کے فرمودات کو کھُلے ذہن اور تعصب سے پاک دل کے ساتھ پڑھا جائے
11اگست کو دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب ہونے کے بعد قائداعظم کی تقریر فی البدیہہ تھی اور اس میں انہوں نے باقی باتوں کے علاوہ جس طرح مذہبی اقلیتوں کو برابری کے درجے کا وعدہ کیا اور مذہبی آزادی کا پیغام دیا وہ دراصل میثاق مدینہ کی روح کے مطابق ہے جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے مذہبی اقلیتوں سے کیا تھا اور انہیں برابر کے شہری حقوق دیئے تھے۔ جو حضرات پاکستان کی پہلی کابینہ میں چودھری ظفر اللہ خان اور جوگندر ناتھ منڈل (ہندو) کو وزارتیں دینے پر اعتراض کرتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ وہ میثاق مدینہ کا مطالعہ کریں جس کا ترجمہ رفیق ڈوگر کی کتاب ”الامین“ جلد دوم میں موجود ہے
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ قائداعظم ہرگز کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھے اور نہ ہی وہ پاکستان کو مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے اور نہ ہی تھیو کریسی کا تصور اسلام میں موجود ہے ۔ ان کا تصور پاکستان ایک ماڈرن جمہوری ریاست کا تھا جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر ہو یعنی جس میں نہ ہی صرف غیر اسلامی قوانین اور رسومات کو ختم کر دیا جائے بلکہ اس کے آئین،قانون اور ڈھانچے کی بنیاد بھی اسلامی اصولوں کی روح کی عکاسی کرے۔ کامن سینس کی بات ہے کہ جس ملک کی بہت بڑی اکثریت مسلمان ہو وہاں غیر اسلامی قوانین بن ہی نہیں سکتے۔ اسلام کی عین روح کے مطابق قائداعظم مذہبی فرقہ واریت اور مذہبی تشدد کے خلاف تھے اور وہ تحمل، برداشت [Tolerance] اور سماجی یگانگت پر زور دیتے تھے چنانچہ موجودہ مذہبی منافرت، فرقہ واریت اور مذہبی تشدد [Militancy] اس تصور پاکستان کی نفی کرتا ہے جو قائداعظم نے پیش کیا تھا اور جس کی حمایت مسلمانان ہندو پاکستان نے کی تھی۔ یہ سب کچھ ہماری اپنی حکومتوں کی بے بصیرت پالیسیوں اور حکمرانوں کی فکری گمراہی کا نتیجہ ہے جس کے ڈانڈے تحریک پاکستان سے ملانا بہت بڑی بے انصافی ہے۔ جمہوری نظام کے علاوہ قائداعظم پاکستان میں اسلام کی روح کے مطابق قانون کی حکمرانی، انصاف، انسانی مساوات اور سماجی و معاشی عدل چاہتے تھے اور اگر وہ زندہ رہتے تو ایسا ہی ہوتا لیکن اگر موجودہ پاکستان میں ان اصولوں کے نفاذ کی امید بھی نظر نہیں آتی تو کیا یہ تصورِ پاکستان کا قصور ہے؟ تصورِ پاکستان تو ایک آئیڈیل ہے جسے شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے ابھی مزید جدوجہد کی ضرورت ہے اسی لئے میں عرض کیا کرتا ہوں کہ منزل کا شعور زندہ رہنا چاہئے، یہ آرزو باقی رہے تو کبھی نہ کبھی منزل بھی مل جاتی ہے۔ قائداعظم قانون کی حکمرانی، معاشی عدل اور انسانی مساوات کے ساتھ ساتھ جاگیرداری نظام کا بھی خاتمہ چاہتے تھے ۔ وہ ہر قسم کی کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتے تھے جبکہ آج کا پاکستان جاگیرداروں، رؤسا اور جرنیلوں کی جاگیر بن چکا ہے جن کی کرپشن کی کہانیاں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے آج کے پاکستان میں قانون کی حکمرانی، معاشی عدل ا ور انسانی مساوات کے تصور کو پامال کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود عوام کی سردمہری کا یہ حال ہے کہ وہ بار بار انہی سیاستدانوں کو ووٹ دے کر اقتدار کے شیش محل میں بٹھا دیتے ہیں جنہوں نے قومی خزانے لوٹے اور عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالے اور عوام کی جمہوریت سے محبت کا یہ عالم ہے کہ وہ ہر بار فوجی حکومت کو خوشی سے قبول کرلیتے ہیں اور جرنیلوں کو نجات دہندہ سمجھنے لگتے ہیں۔ اس صورتحال نے ہر طرف مایوسی کے اندھیرے پھیلا دیئے ہیں اور نوجوان نسلوں کو قیام پاکستان کے حوالے سے غیر یقینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس فضا میں قائداعظم کے تصورِ پاکستان کی شمع جلائے رکھنا ضروری ہے تاکہ نوجوان نسلوں کے سامنے ایک آئیڈیل موجود رہے اور وہ قائداعظم مخالف لابی کے پراپیگنڈے کا شکار نہ ہوں
سیکولر حضرات مذہب اور ریاست کی علیحدگی کا پرچار کرتے ہیں اور یہ بھو ل جاتے ہیں کہ ریاست اور چرچ کی علیحدگی کاتصور بنیادی طور پر عیسائیت کا تصور ہے کیونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں بقول اقبال
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
ان کا یہ الزام کہ موجودہ فرقہ واریت اور دہشت گردی سیاست کو مذہب سے ملانے کا نتیجہ ہے سراسر بے بنیاد اور سطحیت کا شاہکار ہے کیونکہ اسلام بذات خود فرقہ واریت، دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مذمت کرتا ہے۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا۔ دراصل یہ سب کچھ ہمارے حکمرانوں کی بے بصیرت پالیسیوں اور عالمی قوتوں کی چالوں کا کیا دھرا ہے جس میں پاکستانی عوام پھنس کر رہ گئے ہیں۔
ایک ریسرچ سکالر کے بقول قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل تقریباً 101بار یہ اعلان کیا کہ نئی مملکت کی بنیادیں اسلامی اصولوں پر استوار کی جائیں گی
یوں تو ان [قائداعظم] کی سینکڑوں تقریریں اس حقیقت کی غمازی کرتی ہیں لیکن آپ کو اس کی ایک چھوٹی سی جھلک دکھانے کے لئے میں قائداعظم کے خط بنام پیر مانکی شریف آف صوبہ سرحد سے چند سطریں پیش کر رہا ہوں کیونکہ اس خط کا ذکر قائداعظم کی تقاریر اور اکثر کتابوں میں نہیں ملتا اور نہ ہی لوگ عام طور پراس سے آگاہ ہیں۔ یاد ر ہے کہ صوبہ سرحد میں خان عبد الغفار خان [اسفند یار ولی کے دادااور عبدالولی خان کے والد] بے پناہ سیاسی اثر رکھتے تھے اور انہیں کانگرس کے ایک ستون کی حیثیت حاصل تھی۔ ان کا صحیح معنوں میں توڑ پیر آف مانکی شریف تھے جن کی مسلم لیگ کے لئے حمایت سیاسی پانسہ پلٹ سکتی تھی۔ 1945ء میں پیر صاحب نے مسلم لیگ کو جوائن کرنے سے قبل قائداعظم سے تصور پاکستان کے حوالے سے وضاحت چاہی تو قائداعظم نے پیر صاحب کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے وضاحت کی کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کبھی شریعت کے منافی قوانین نہیں بنائے گی اور نہ ہی پاکستان کے مسلمان غیر اسلامی قوانین کی اجازت دیں گے۔ [بحوالہ دستور ساز اسمبلی کارروائی 9مارچ 1949ء جلد: V نمبر3صفحہ نمبر46]
آج یہ تصور کرنا بھی محال ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد نوزائیدہ مملکت کو مسائل کے کوہ ہمالیہ کاسامنا تھا جن میں خاص طور پر لاکھوں مہاجرین کی آبادکاری، خالی خزانہ، وسائل کا فُقدان اور نئی مملکت کے لئے انتظامی ڈھانچے اور مرکزی حکومت کا قیام قابل ذکر ہیں۔ دوسری طرف خود قائداعظم کی صحت دن بدن گر رہی تھی اور کئی دہائیوں کی مسلسل محنت نے انہیں ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا دیا تھا چنانچہ قیام پاکستان کے ایک برس بعد وہ ستمبر 1948ء میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ قائداعظم زندہ رہتے تو کس طرح اپنے وعدے شرمندہ تعبیر کرتے اور کس طرح نئی مملکت کی تعمیر کرتے اس کا اندازہ ان کے دستور ساز اسمبلی 14اگست 1947ء کے خطاب سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا رول ماڈل قرار دیا اور جنوری 1948ء کے امریکی عوام کے نام پیغام سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کا دستور جمہوری طرز کا ہوگا جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ اس ارادے کی ایک معمولی سی جھلک پاکستان کے پہلے سپہ سالار جنرل محمد اکبر خان [انگروٹ] کی کتاب ”میری آخری منزل“ کے صفحہ نمبر 281 میں ملتی ہے جو بہت سے لوگوں کے لئے اچنبھے کا باعث ہوگی۔ جنرل محمد اکبر [آرمی پی 71نمبر1] کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ 25جون 1948ء سے تین دن کے لئے علیل قائداعظم کے زیارت میں مہمان رہے۔ قائداعظم سے ملاقات میں جنرل اکبر نے فوجی میسوں میں انگریز حکومت کی شروع کی گئی شراب نوشی کی رسم کو ختم کرنے کی تجویز دی جس کے جواب میں قائداعظم نے اپنے اے ڈی سی کو بلایا اور کانفیڈریشن باکس لانے کو کہا۔ ”قائداعظم نے جیب سے چابی نکالی اور باکس کو کھول کر مراکشی چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی، انہوں نے اسے اس مقام سے کھولا جہاں نشانی رکھی ہوئی تھی اور فرمایا جرنل یہ قرآن مجید ہے اس میں لکھا ہے کہ شراب و منشیات حرام ہیں۔ لہٰذا میں نے عرض کیا کہ آپ ایک حکم جاری کریں اور افسروں کو متنبہ کریں کہ شراب حرام اور منع ہے قائداعظم مسکرائے اور فرمایا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ قائداعظم کا حکم قرآن مجید کے احکامات سے زیادہ موثر ہوگا… سٹینو کو بلایا گیا۔ قائداعظم نے ایک مسودہ تیار کیا اس میں قرآنی آیات کی جانب توجہ دلا کر فرمایا کہ شراب و منشیات حرام ہیں۔ میں نے اس مسودے کی نقل لگا کر شراب نوشی بند کرنے کا حکم جاری کر دیا جس پر میری ریٹائرمنٹ تک عمل ہوتا رہے“۔
قائداعظم کانفیڈریشن باکس ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے اور اس باکس میں قرآن مجید کا نسخہ بھی شامل تھا۔ جنرل اکبر کی عینی شہادت سے پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم قرآن مجید پڑھتے اور ضروری مقامات پر نشانیاں بھی رکھتے تھے۔ اسی طرح 15اگست 1947ء کوپاکستان کا جھنڈا لہرانے کے لئے قائداعظم کا مولانا شبیر عثمانی کو کہنا بھی ایک واضح اشارہ ہے۔ اس لئے اگر انہیں موقعہ ملتا تو وہ یقینا اسلامی اصولوں کے نفاذ کے لئے اقدامات کرتے اور تصور پاکستان کو حقیقت کا جامہ پہناتے لیکن بدقسمتی سے موت کے بے رحم ہاتھوں نے قائد کو ہم سے چھین لیا اور تکمیل پاکستان کی جدوجہد ادھوری رہ گئی اور پھر ملک پر جاگیردار اور جرنیل چھا گئے جنہوں نے پاکستان کو پاکستان نہ بننے دیا اب ہمیں مِل جُل کر پاکستان کو پاکستان بنانا ہے اور قائداعظم کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ہے۔
تحریر : ڈاکٹر صفدر محمود
”ایمان، اتحاد اور نظم“ کی حقیقت کے متعلق یہاں کلک کر کے پڑھیئے
یہ لکھتے ہیں
ہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ قائداعظم ہرگز کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھے اور نہ ہی وہ پاکستان کو مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے اور نہ ہی تھیو کریسی کا تصور اسلام میں موجود ہے ۔ ان کا تصور پاکستان ایک ماڈرن جمہوری ریاست کا تھا جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر ہو یعنی جس میں نہ ہی صرف غیر اسلامی قوانین اور رسومات کو ختم کر دیا جائے بلکہ اس کے آئین،قانون اور ڈھانچے کی بنیاد بھی اسلامی اصولوں کی روح کی عکاسی کرے۔”
کیا انکی یہی بات ان کی اپنی باتوں کے خلاف نہیں جاتی؟
کیا اسلام نامکمل ہے جو اس میں مڈرن ، جمہوریت وغیرہ کا پیوند لگانا لازم ہے؟
خلافت راشدہ کیا مکمل اسلامی ریاست نہیں تھی؟
یہ لوگ اسلام کی بات بھی کرتے ہیں اور اسلام سے ڈرتے بھی ہیں جس کو مودودیت کہا جاتا ہے وہ یہی ہے
یہ اسلامی کالم نگار جماعت میں تھے یا ان سے متاثر ہیں، یہ بات حقیقت ہے کوئی چاہے تو تفشیش کرلے
محترم بھوپال صاحب
اسلام علیکم
میرا خیال تھا کہ نطریہ پاکستان کا دفاع کرنے والا صرف ایک سپاھی زندہ ہے جو ہر اس وقت اپنے قلم کو حرکت میں لے آتا ہے جبب نظریہ پاکستان کی اساس پر کویء حملہ ہوتا ہے مگر آپ کا کالم پڑھ کر گونا گوں خوشی ہویء ۔کافی عرصے بعد یہ پوسٹ ایک جاندار پوسٹ ہے ۔ لگے رہیے ۔
احمد صاحب
نہ تو اسلام نامکمل ہے اور نہ اسے ماڈرن بنانے کی ضرورت ہے ۔ بات ریاست کی ہو رہی ہے جسے اسلام کے اصولوں پر مکمل کاربند کرنا ہے اور اللہ ہی کی ودیعت کردہ جدید سہولیات سے مستفید ہونا ہے
دوسری چیز جو میں آج تک سمجھ نہ سکا وہ لفظ “مودودیت” کا استعمال ہے جو آپ اکثر کرتے ہیں ۔ اپنے بلاگ پر اس کی تشریح کر دیجئے تا کہ سمجھ آ جائے ۔ ہرچند کہ میں جماعت اسلامی میں کبھی نہیں رہا میں نے مودودی صاحب کی تفہیم القرآن اور چند اور کُتب پڑھی ہیں ۔ اُن میں مجھے کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جو اسلام سے متصادم ہو یا اسلام کے مطابق نہ ہو ۔ اگر آپ نے کوئی ایسی چیز دیکھی ہو تو ضرور بتایئے گا
محمد ریاض شاہد صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ
ایک تصحیح ۔ جنرل محمد اکبر خان پاکستان کے پہلے سپہ سالار ہوتے لیکن انہوں نے اس منصب کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔ وہ پاکستان فوج کے سب سے سینئر ممبر ضرور ہیں کہ برطانوی فوج میں وہ پہلے اور واحد مسلم جنرل تھے اور ان کا پاکستان آرمی نمبر 1 ہے۔
اجمل صاحب
ہم نے جو بات سوالیہ انداز سے کی تھی مقصد یہ تھا کہ بے عمل اور اسلامی تعلیمات سے عاری اورغلط العقیدہ لوگوں کا یہ کام نہیں کہ اسلام کو موضوع بنائیں
اسلام جب تک خلافت راشدہ کے ماڈل پر نہیں اپنایا جائے گا ریاست کی سطح اسلام کے نام پر فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا
اب آتے ہیں مودودیت کی طرف۔ ویسے تو یہ عیاں ہے کہ آپ کا قلبی اور ذہنی رجحان اسی طرف ہے اب معاملہ سنگین یہ ہے کہ جس پر انگلی اٹھتی ہو اس سے لوگ واضح طور پر اپنے تعلق کا اظہار نہیں کرپاتے۔ گو کسی تبدیلی کا خیال بھی نہیں ہے مگر آپ کی خوائش پر آپ کو ایمیل میں چند باتیں پڑھنے کو بھجوا دیں گے اب یہ سب یہاں لکھنے کو جاوید صاحب کی اسپیڈ درکار ہے
مگر سمجھنے کو صحافت میں دیکھ لیں کنتے لوگ جماعت میں تھے اور کنتے ہمدردی رکھتے ہیں پھر انکا کام دیکھیں ، سمجھنا مشکل نہیں ہوگا
خرم صاحب
میرا خیال بھی یہی ہے کہ جنرل محمد اکبر کمانڈر اِن چیف نہیں بنے تھے اور میرا خیال ہے کہ شیر علی جو ہوائی حادثہ میں ہلاک ہوئے وہ ان سے سنیئر تھے
بہت عمدہ مضمون ہے اور اپنے قائد کے بارے میں جب بھی پڑھوں بہت اچھا لگتا ہے
اجمل صاحب سلام
قائد اعظم کے متعلق زیادہ تحقیق تو نہیں کی لیکن جسونت سنگھ کی کتاب میں قائداعظم کی ، کتے کو اٹھائے ہوئے تصویر کو دیکھ کر اچنبھا ضرور ہوا۔ کسی کی ذات پر بغیر تحقیق کے الزام تو نہیں لگایا جا سکتا مگر جمہور مسلمانوں میں کتا نجس ہے اور اپنے مشرف صاحب بھی اس کو اٹھا کر تصویر بنوانے کے چکر میں خاصے مطعون ہوئے تھے لیکن وہ تو شاداں تھے کہ سیکولرازم کے دعویدار تھے۔
سیفی صاحب
میں نے وہ تصویر نہیں ديکھی جو جسونت سنگھ نے لگائی ہے لیکن ایک ديکھی تھی جو قرار دادِ مقاصد 1940ء بہت پہلے کی تھی ۔ میں نے قاعد اعظم کو پکا مسلمان نہیں کہا ۔ لیکن اُن کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کا تدارک میرے خیال میں ہر پاکستانی پر فرض ہے ۔ کتا نجس ضرور ہے لیکن اپنی اپنے گھر کی یا ریوڑ کی حفاظت کیلئے کتا رکھنا یا پالنا منع نہیں ہے