میں بہت پہلے سیکولر ہو نے کا دعوٰی کرنے والی دنیا کی منافقت کے کئی پہلو اُجاگر کر چکا ہوں ۔ میرے کچھ ہموطنوں کو میری تحاریر پر پریشانی ہوتی رہی ہے ۔ مختصر یہ کہ بھارت میں سیکولر حکومت اور عیسائیوں کے گرجے جلائے جاتے ہیں اور حکومت کے بڑوں کی اشیرباد سے مساجد جلائی اور گرائی جاتی ہیں ۔ داڑھی سکھ ہندو عیسائی يہودی اور دہریئے سب رکھتے ہیں بلکہ یہودی مذہبی پیشواؤں کی داڑھی ویسی ہی ہوتی ہے جیسی افغانستان کے طالبان کی لیکن امریکا ہو یا یورپ داڑھی والا صرف مسلمان ہی بُرا سمجھا جاتا ہے ۔ سر پر رومال عیسائی یہودی اور دوسری عورتیں بھی باندھتی ہیں مگر مسلمان عورتیں اگر سر پر رومال باندھیں تو دنیا کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور اُن کے ساتھ بدتمیزی بھی کی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ سکول کی بچیوں کو رومال باندھنے کی سزا کے نتیجہ میں سکول سے نکال دیا جاتا ہے
ان تمام حقائق کے باوجود سمجھا جاتا تھا اور میرا بھی خیال تھا کہ سوٹزرلینڈ ایک سیکولر ملک ہے ۔ وہاں پر کسی کے مذہب یا عقیدہ یا ذاتی زندگی پر اعتراض نہیں کیا جاتا مگر حکومت میں اکثریت رکھنے والی سیاسی جماعت کی ایماء پر ریفرینڈم اور اس کے نتیجہ میں مسجد کے مینار یا گُنبد بنانے پر پابندی نے واضح طور پر ثابت کر دیا ہے کہ سیکولرزم ایک دھوکا ہے اور غیرمُسلم دنیا کی انسانیت پسندی کا دعوٰی منافقت کا ایک بہت بڑا ڈرامہ ہے ۔ کمال تو یہ ہے کہ عیسائیوں کے گرجاؤں کے مینار مسجد کے میناروں سے بھی اُونچے ہوتے ہیں مگر اُن پر کسی کو اعتراض نہیں
موجودہ سیکولرزم ایک نقاب ہے جس کے پیچھے غیر مذہبی طبقہ اپنی جنونیت چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ جنونیت مذہبی طبقے کی شدت پسندی کے راست متناسب ہے۔
حالاں کہ دنیا کو اس وقت معتدل مزاجی کی بے انتہا ضرورت ہے۔
محمد احمد صاحب
آپ نے درست کہا ہے
یہ ناچیز بھی احمد صاحب کے تبصرے سے متفق ہے۔
سیکولرازم
http://1.bp.blogspot.com/_Lg0JfoStBEg/SRm8XrfrhtI/AAAAAAAAACk/TUuNl7VB9ls/s400/Deen+Jamhoor.gif
سب سے پہلے تو عید کی مبارکباد قبول فرمائیں گو زرا دیر سے سہی
لبرل ازم غیر مزہبی نہیں بلکہ سارے کافروں کا ایک نقاب ہے اسی لیئے وہ کافر ایک خاندان کے طور پر ایک دوسرے سے خوش رہتے ہیں مزہب بھی چلتا رہتا ہے اور لبرل ازم بھی مگر جہاں بات لا الہ الاللہ کی آئے تو تکلیف بھی ہوتی ہے اور لبرل ازم آگے کرکے اپنا کفر کا وار بھی کرتے ہیں
دنیا میں کوئی بھی لامزہب نہیں ہر آدمی کا کوئی دین ہوتا ہے
ہے زلیخہ خوش کہ محو ماہ کنعاں ہوگئیں..
پھر آپ نے دائیں بازو کے یورپی طالبانوں کے کارنامے کی ذمہ داری سیکولر حلقوں پر ڈال دی حالانکہ اکثریت نے اس ریفرنڈم کی نا صرف مذمت کی ہے بلکہ یورپی پریس نے بھی شدید انداز میں اس ریفرنڈم کی مذمت کی ہے۔۔
http://news.bbc.co.uk/2/hi/europe/8388776.stm
حکمت عملی کا ایک پہلو یہ بھی ہونا چاہیے کہ اگر کسی معاملے میں سپورٹ حاصل کی جاسکتی ہے تو حاصل کی جائے نا کہ ہمیشہ صرف رد عمل کی ۔ جس چیز کا گلہ ہم بطور امت باقی تمام دنیا سے کرتے ہیں کہ چند مٹھی بھر شدت پسندوں کی وجہ سے سارے مسلمانوں پر زمین تنگ کی جاتی ہے بعینہی یہی صورت ہمارے رد عمل کی بھی ہوتی ہے جب ایک بڑی چھتری کھول کر تمام انسانوں کو اسکے نیچے رکھ لیا جاتا ہے۔ ایسے معاملات میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے خاص کر ہمیں جن کا اپنا دامن مذہبی رواداری کے معاملے میںکوئی اتنا اجلا نہیں۔
سیکولرزم اور فری سپیچ دونوں خوب ھیں مگر یہ سچ ہے کہ مسلمانوں کے معاملے میں ان کی پابندی نہیں کی جاتی۔ اور یہ راشد صاحب کا لکھنا کہ بڑی تنقیدیں کی گئ ھیں یہ بھی اچھا طریقہ ھے۔ یہ ایسا ھی ھے کہ جب ایک وکیل جیوری پر اثر ڈالنے کے لیے سوال پوچھتا ھے جس میں وہ نکتہ صاف نظر آ رھا ہوتا ھے۔ دوسرا وکیل اوبجیکشن اٹھاتا ھے تو وکیل اپنا سوال واپس لیتا ھے۔ ایک دفعہ پابندی عاءد کر دی اب بھلے سے اسے ختم بھی کر دیں تو کیا ھے مسلمانوں پر اپنی حکومت کا رعب تو بٹھا ہی دیا گیا ھے جب مسلمان اوبجیکشن اٹھاتے ھیں تو کہا جاتا ہے
ھمیں فری سپیچ کی آزادی ہے جو چاہیں کہیں اور جیسے مرضی کارٹون بناءین ہمیں آزادی ہے
ڈنمارک کی ملکہ کی تحریر دیکھی آپ نے؟
طاہر سلیم مغل صاحب
آپ نے سیکولر ازم کا درست نقشہ کھینچا ہے
مکی صاحب
اس شعر کا تعلق واضح کر دیجئے
راشد کامران صاحب
بات اولادِ آدم کی یا جمہور کی نہیں ہو رہی بلکہ حکومتوں کی ہو رہی ہے ۔ آپ کے استدلال کے مطابق یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ جمہوریت یا سیکولر ازم کی دعويدار حکموتیں چند شددت پسندوں کے قبضہ میں ہیں
ڈاکٹر وھاج الدین احمد صاحب نے آدھی صدی سے زیادھ یورپ اور امریکہ میں گذاری ہے اور میرا خیال ہے کہ آخری آدھی صدی کے لگ بھگ امریکہ میں غزارا ہے ۔ ذرا ان کا نظریہ بھی پڑھ لیجئے
اس نکتے پر تو مثبت بحث کا سلسلہ ہی ختم ہوجاتا ہے جب عمر اور ماہ و سال کی بنیاد پر یہ طے کیا جائے کہ کس نقطہ نظر کو کتنی اہمیت دینی ہے۔۔ شاید مناسب یہ ہو کہ سیاق و سباق اور دلائل کی بنیاد پر یہ طے کیا جائے کہ کس نقطہ نظر میں کتنا دم ہے۔۔
میرا کہنا صرف یہ ہے کہ مساجد پر میناروں کی پابندی کی دنیا بھر میں مخالفت ہوئی ہے اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے اور اس مثبت رائے کو استعمال کیا جانا چاہیے۔۔ اور جو اکائی جس معاملے میں ملوث ہو جیسا کے سوئس دائیں بازو کے طالبان جنہوں نے اسلام کا خوف پھیلانے میں کوئی کسر نہیںچھوڑی ان پر فوکس کیا جانا چاہیے۔۔ اسلامو فوبیا کا توڑ امریکا فوبیا، سیکولر فوبیا اور یورپ فوبیا میںنہیں ہے۔۔ یہ میں چوتھائی صدی پاکستان میں گزارنے کے بعد کہہ رہا ہوں۔
راشد کامران صاحب
جب کسی ملک کے لوگ کوئی غلط رویہ اختیار کریں تو وہ اور بات ہے لیکن جب حکومت اس غلط رویہ کو قانون بنا دے تو پھر صرف اس کی مخالفت کرنے والوں کو دیکھ کر اپنے آپ کو تسلی دے دی جائے ۔ ایک عجیب فلسفہ ہے ۔ کیا اسی لئے کسی نے کہا تھا بغل میں چھُری منہ میں رام رام ؟
رہی بات اپنے ملک کی تو ہمارے سیاستدان اگر منافقت اختیار نہ کریں تو ایسی غلط کاروائیوں کے خلاف مؤثر قدم اُٹھا سکتے ہیں ۔ حضور خاکسار نے اپنے وطن عزیز پاکستان میں 54 سال گذارے ہیں اور اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے اس کے ہر حصہ کا مطالعاتی دورہ کرایا ہے
ایک عجیب فلسفہ ہے ۔ کیا اسی لئے کسی نے کہا تھا بغل میں چھُری منہ میں رام رام ؟
کل میں نے یہی سوال ایک فورم پر اٹھایا تو وہاں ایک شخص نے یہ لکھا [کچھ چیزوں کے بارے میں مجھے سو فیصد یقین نہیں محض ترجمہ کررہا ہوں ]
“مسلمانوں نے دو شہروں میں کسی بھی غیر مسلم کا داخلہ منع کر رکھا ہے، کئی مسلم ملکوں میں کسی دوسرے مذاہب کے لوگوں کو تبلیغ کی اجازت نہیں ہے اور سعودی عرب میں عیسائیوں کو کلیسا پر کراس ایک حد سے بڑا لگانے کی اجازت نہیں ہے اور کچھ جگہوں پر کلیسا بنانے کی ہی اجازت نہیں اور مسلم ملکوں میں موجود مندروں اور گرجا گھروں سے گھنٹیاں بجانے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اگر سوئٹزرلینڈ نے مسجدوں پر میناروں کی پابندی لگائی ہے تو مسلمانوں نے تو دوسرے مذاہب کی ان کے ملکوں میں ترویج پر زیادہ شدید پابندی لگا رکھی ہے جبکہ مغربی ممالک کے اکثر مسلمان یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں جبر نہیں اور ہر کسی کو مکمل مذہبی آزادی ہے حالانکہ اصل صورت حال اس کے انتہائی برعکس ہے۔ پہلے اپنا گھر تو درست کرو بعد میں کسی پر تنقید کرنا”
اب یہ بتائیے کہ اس بات کا کیا جواب دیا جائے؟
راشد کامران صاحب
جو ملک ایسی پابندیاں لگاتے ہیں وہ اپنے آپ کو سیکولر نہیں کہہ سکتے ۔ اور یہی میرا استدلال ہے ۔
میری آپ سے استدعا ہے کہ اپنا ایک نظریہ بنا کر سب کچھ اس کے مطابق نہ سمجھا کریں ۔ اس طرح دوسرے کا مدعا کبھی سمجھ میں نہیں آ سکتا
جناب عالی میں نے عرض کی کہ ایک فورم پر کسی غیر مسلم نے یہ سوال داغ رکھا ہے۔۔میرا نظریہ نہیں۔۔ میں نے تو آپ سے مدد کی درخواست کی ہے کہ کیا جواب دیا جائے کیونکہ کم از کم مجھے سجھائی نہیں دیتا کہ شاید ظالم سچ بول رہا ہے۔۔
میری آپ سے استدعا ہے کہ اپنا ایک نظریہ بنا کر سب کچھ اس کے مطابق نہ سمجھا کریں۔
میری بھی آپ سے یہی درخواست ہے۔۔ خاص کر پچھلی پانچ چھ پوسٹس کے حوالے سے تو خصوصی درخواست ہے۔
راشد کامران صاحب
یہ تین تحاریر میں نے مجبور ہو کر لکھی ہیں کہ شاید کسی کی سمجھ میں حقیقت آ جائے ۔ میں کسی سے دُشمنی نہیں کر رہا بلکہ ان کی کوتاہی کی طرف ان کی توجہ مبزول کرنے کی کوشش کی ہے ۔
“جو ملک ایسی پابندیاں لگاتے ہیں وہ اپنے آپ کو سیکولر نہیں کہہ سکتے ۔ اور یہی میرا استدلال ہے ۔”
ليکن ايسے ممالک اسلامی ہوں توں کوئ حرج نہيں؟ ذرا يہ سمجھا ديجيئے کہ اسلامی ممالک ايسا کريں تو ٹھيک کيوں ہے؟ ابھی اگلے دن ہی کئی عيسائيوں کو زندہ جلاديا گيا ہے- چرچوں کو جلانا اور عيسائيوں کے خلاف قوانين اسکے علاوہ ہيں-
حسن صاحب
آپ بات کسی حوالے سے کریں تو جواب دیا جائے ۔ میرا مطلب ہے
Please comment with reference to context. A general statement is neither here not there