میرے کچھ قارئین کا استدلال ہے کہ ہر شخص کا مذہب ہوتا ہے ۔ کہتے وہ درست ہیں ۔ ہر شخص کا کوئی نا کوئی عقیدہ ہوتا ہے اور اسی کا نام مذہب ہے ۔ اگر مذہب کا ترجمہ دیکھا جائے یعنی فرقہ تو بھی یہ استدلال درست نظر آتا ہے ۔ اللہ کا تفویض کردہ دین اسلام ہے جو ایک ایسا مذہب ہے جس میں ہر لحاظ سے اللہ کی تابعداری واجب [compulsory] ہے ۔ تمام نبیوں کا دین اسلام ہی تھا کیونکہ وہ اللہ کے مُسلِم یعنی تابعدار تھے [سورت 2 ۔البقرہ آیت127 ، 128 ۔ 131تا 133 ۔ سورت 3 آلِ عمران آیت 19 ، 67 ، 102 ۔ سورت 5 المآئدہ آیت 3 ، 44 سورت 10 یونس آیت 72 ، 84 ۔ سورت 27 النمل آیت 91 ، 92 ۔ سورت 42 الشورٰی آیت 13 ۔ مزید کچھ اور بھی ہیں]۔ سیکولر ازم کی وضاحت کیلئے یہاں کلِک کیجئے اور اس کے اثرات کا ایک پہلو دیکھنے کیلئے یہاں کلِک کیجئے
میرے متذکرہ قارئین کرام Secularism کا ترجمہ “دینِ جمہور” کرتے ہیں ۔ ایک قاری ‘طاہر سلیم مغل” صاحب نے “دینِ جمہور” کی تشریح کچھ اس طرح سے کی ہے
جو لوگ آپ سے اسرائیل کی محبت میں آکر بحث کرتے ہیں انکے لیئے ایک لنک آپ اس پر مزید لکھ سکتے ہیں آپ کے پاس لازماٰ اور معلومات بھی ہوں گی
http://www.jang.com.pk/jang/dec2009-daily/05-12-2009/u13286.htm
یہ بات ہم ہی کرتے ہٰن کہ ہر آدمی کا کوئی نہ کوئی مزہب ہوتا ہے یا دین ہوتا ہے ، کسی نہ کسی کو اس نے اپنے رب کا درجہ دے رکھا ہے لہٰذا یہ کہنا کہ بے دین اور لبرل کہ دین کوئی نہیں بلکل غلط ہے اور اسی لیئے یہ جنگ ہو یا کوئی بھی اسی بنیاد پر رہی
اور دین کی 2 قسمیں ہیں اللہ کا دین اور باطل مزہب
اللہ کے دین میں اول سے آخر سب نبیوں کا ایک ھی دین تھا اور رہے گا اسی لیئے ایک بھی نبی کا انکار سارے نبیوں کا انکار ہے
اور باطل مزہب میں سارے غیراللہ والے آجاتے ہیں
جس کا یہ ایمان نہیں اسکا تعلق اللہ کے دین سے کیسے بن سکتا ہے؟
یہ کیسا ہے
http://www.ummatpublication.com/2009/12/05/story7.html
میرے خیال میں تو دین جمہور کا مطلب سیکولر ازم نہیں۔ سیکولر ازم سے مراد یہ ہے کہ مذہب کو ریاستی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں ہو گی۔ یعنی ریاست بے مذہب ہو گی۔ اس لحاظ سے اسلامی ریاست بھی سیکولر ہی ہے کہ اسکا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ ہر شہری کے بلا تفریق حقوق مقرر ہوتے ہیں۔
دین جمہور کا مطلب اکثریت کی حکومت یا ڈیموکریسی ہے۔ اگر اکثریت اسلامی نظام چاہے تو وہ لاگو ہو گا ورنہ نہیں۔
کسی زمانے میں لوگ اسلام کو سوشلزم یا سرمایادارانہ نظاموں میں سے کسی ایک میں فٹ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام اتنا جامع نظام ہے کہ پچھلی چند صدیوں میں بننے والے ان نظاموں میں سے کسی ایک میں نہیں سما سکتا۔
اسطرح اسلام کسی حد تک سیکولر ازم بھی رکھا ہے کہ انصاف، قانون کی عملداری اور شہری حقوق کی ادائیگی میں کسی بھی شہری میں کوئی تخفیف نہیں کرتا۔ اسی طرح اسلام دین جمہور بھی ہے کہ کوئی معاملہ جو دین کے براہ راست متصادم نہ ہو، میں عوام کی رائے کا بذریعہ بیعت یا شوریٰ وغیرہ، احترام کرتا ہے۔ ہاں معاملہ اگر دین میں وضاحت سے بیان کردہ ہو مثلاً معاملات وراثت تو پھر شخصی آزادی محدود ضرور کرتا ہے۔
فیصل صاحب
آپ کا خیال درست ہے ۔ لیکن بات اس عملی دنیا کی ہو رہی ہے جو آجکل ہے