میری تحریر “دریائے سندھ ۔ کچھ حقائق” پر ایک دو تبصرہ نگاروں نے تحریر کے مندرجات سے قطع نظر کرتے ہوئے مجھ پر تعصب کا سرنامہ [label] چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مجھے اس غلط کوشش کا رنج نہیں مگر دُکھ اس بات کا ہے کہ ہماری جوان نسل جس نے مستبل میں ملک کی باگ دوڑ سنبھالنا ہے وہ اپنی تاریخ کے علم اور حقائق کے ادراک سے محروم ہے ۔ میں وہیں جواب لکھ چکا تھا مگر خیال آیا کہ بات تاریخ اور حقائق کی ہے اسلئے سرِ ورق لکھی جائے تاکہ ایک طرف جو قارئين کسی وجہ سے اس بارے میں علم نہیں رکھتے اُن تک بات پہنچے اور دوسری طرف باعِلم لوگوں کی نظر سے یہ تحریر گذرے تو وہ میرے عِلم میں اضافہ کا باعث بنیں
بات پاکستان میں بہنے والے دریاؤں کے پانی کی ہو رہی تھی لیکن سوال پانی کے ذخیروں کا بنا دیا گیا ۔ جب دریاؤں میں پانی ہی نہیں ہو گا تو ذخیرہ کرنے کیلئے جھیل بنا کر کیا کریں گے ؟ جہاں تک پانی کے ذخیروں کی بات ہے پہلا پانی کا ذخیرہ واسک میں ایوب خان کے دور سے قبل بنا دوسرا منگلا میں ایوب خان کے دور میں اور تیسرا تربیلہ میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ۔ پہلے ذخیرہ کی منصوبہ بندی ایوب خان کے دور سے قبل ہوئی تھی دوسرے اور تیسرے ذخیروں کی منصوبہ بندی ایوب خان کے دور میں ہوئی تھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان انجنیئرنگ کانگریس کی مخالفت کے باوجود ذخیرہ کالا باغ کی بجائے تربیلہ میں بنایا جس کے نتیجہ میں دس ارب روپيہ زیادہ بعد کی مرمتوں پر خرچ ہوا ۔ تربیلا کے بعد آج تک کوئی ذخیرہ بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی
دس بارہ سال قبل تک پاکستان میں موجود پانی کے ذخیرہ کیلئے بنائی گئی یہ تین جھیلیں نہ صرف بھری رہتی تھیں بلکہ فالتو پانی دریاؤں میں چھوڑنا پڑتا تھا ۔ پچھلے کئی سالوں سے یہ حال ہے کہ سال میں دو بار منگلا اور تربیلہ کی جھیلیں تقریباً خالی ہو جاتی ہیں جس کے نتیجہ میں بجلی کا بحران ملک کو گھیرے ہوئے ہے
کراچی کا کچھ حصہ پاکستان بننے سے قبل بھی سطح سمندر سے نیچا تھا ۔ عبداللہ غازی کے مزار اور بارہ دری سے سمندر کی طرف ایک ڈیڑھ کلو میٹر اندر پتھر کا بند نمعلوم کس زمانہ سے بنا ہوا تھا پھر بھی مد ہوتا تو سمندر کا پانی کسی جگہ سے میٹروپول ہوٹل سے ایک ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے تک پہنچ جاتا تھا ۔ جب جزر ہوتا تو پانی واپس چلا جاتا جس کی وجہ سے میٹروپول ہوٹل اور کلفٹن کے درمیان کچھ حصہ میں ایک دلدل ہوا کرتی تھی جس میں سے مردہ مچھلیوں کی بدبُو آیا کرتی تھی ۔ بعد میں ایک کافی اُونچا اور پہلے بند سے آگے سمندر کے اندر بند بنا کر زمین کی طرف بھرائی کی گئی ۔ جس جگہ آجکل فن لینڈ ہے یہ سمندر تھا ۔ بند باندھ کر اسے فن لینڈ بنایا گیا
میں سُنی سنائی باتیں نہیں لکھ رہا یہ سب کچھ میں نے خود دیکھا ہوا ہے ۔ نہ کراچی میرے لئے اجنبی ہے اور نہ میں کراچی کیلئے
میری تحریر میں سمندر کی سطح بلند ہونے کا حوالہ بھی تھا جس کا مذاق اُڑانے اور اسے بھی میرے تعصب کا نتیجہ قرار دینے کی کوشش کی گئی ۔ ایک منٹ بعد کیا ہونے والا ہے صرف اللہ ہی جانتا ہے تو میں کیسے بتا سکتا ہوں ؟ ایسے اندیشے اور پیشگوئیاں سائنسدان کرتے رہتے ہیں اور آج دورِ حاضر کے لوگ من و عن تسلیم کرتے ہیں لیکن میں نے نقل کیا تو تعصب بن گیا
سمندر کا پانی سندھ ڈیلٹا المعروف کیٹی بندر میں داخل ہونے کی بڑی وجہ سطح سمندر کی بلندی ہے اور یہ عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے ۔ درست کہ پچھلے پانچ دس سالوں سے سندھ میں بہت کم پانی بہہ رہا ہے اور اس کی وجوہات میں نے متذکرہ بالا تحریر میں لکھی ہیں
تاریخی حقائق کو دیکھا جائے تو کراچی کے علاوہ ہالینڈ کا ساحلی شہر راٹرڈیم بھی سطح سمندر سے نیچے ہے ۔ آج ہالینڈ کے ساحل سمندر پر بنے بند کو ٹوڑ دیا جائے تو راٹرڈیم سمندری پانی میں ڈوب جائے گا ۔ کراچی کے ساحلِ سمندر کے کنارے جو ڈیم بنایا گیا ہے اُسے گرا دیا جائے تو سمندر کا پانی میٹرو پول ہوٹل اور سینٹرل ہوٹل تک پہنچ جائے گا اور دوسری طرف آدھا ڈی ایچ اے سمندری پانی میں ڈوب جائے گا
تربیلا والی بات آپ نے بہت اچھی لکھی انکل۔ سو ایک خالصتاً تکنیکی مسئلہ کو بھٹو صاحب نے سیاسی بنیاد پر ایسا الجھایا کہ آج تک بھگت رہے ہیں۔ حاکموں کے غلط فیصلوں کو قوم کیسے بھگتتی ہے اس کا ایک شاندار اظہاریہ تو یہ حقیقت بھی بنی۔
خُرم صاحب
یہ تو میری دیکھی بھالی بات ہے ۔ میں اللہ کے فضل سے بہت محرک انجنیئر رہا ہوں لیکن میں سوچتا ہوں کہ مُجھ میں ایسی کوئی خوبی نہیں لیکن اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے ایسے کاموں پر لگائے رکھا کہ ایسے ایسے سرکاری اعمال میرے سامنے آئے جو بڑے بڑوں کی نظر سے اوجھل رہے ۔ میں اگر لکھوں تو کچھ لوگ پریشان ہو جائیں گے