جدھر جائیں جمہوریت کی صدا لگائی جا رہی ہوتی ہے ۔ زمینی حقائق پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ سب خوابی دنیا میں بس رہے ہیں ۔ ایک محفل میں پڑھے لکھے لوگ بیٹھے تھے اور بحث ہو رہی تھی کہ نظامِ حکومت کونسا اچھا ہے ؟ ایک صاحب بولے اسلامی ۔ اس پر دوسرے صاحب بولے “اسلامی خلافت چار خُلفاء سے آگے نہ جا سکی”۔ آگے چلنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ خلافت کا نظام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نافذ کیا ۔ اُن کے وصال کے بعد ابو بکر صدیق ۔ عمر ابن الخطاب ۔ عثمان ابن عفان اور علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہم نے بھی مکمل طور پر اسلامی ۔ انسانی اور فلاحی مملکت قائم رکھی ۔ یہ دور آدھی صدی پر محیط تھا ۔ اس کے بعد پانچویں خلیفہ راشد ہیں عمر ابن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ
جب اعتراض کرنے والے صاحب سے پوچھا گیا کہ “کونسا ایسا نظام ہے جو خُلفائے راشدین کے دور سے زیادہ چلا اور اچھا بھی ہے ؟” جواب ملا “جمہوریت”
اول تو جمہوریت کی بھی ابھی تک کوئی انسان دوست عملی مثال سامنے نہیں آئی پھر بھی دیکھتے ہیں کہ جمہوریت عملی طور پر کس مُلک میں ہے ۔ آگے بڑھنے سے پہلے لازم ہے کہ معلوم ہو جمہوریت ہوتی کیا ہے ؟
جمہوریت ہوتی ہے عوام کی حکومت عوام کے نمائندوں کے ذریعے عوام کے لئے
بہت دیانت داری سے بھی ایسی حکومت بنائی جائے تو جو لوگ انتخابی عمل سے گذر کر حکومت کا حصہ بنتے ہیں وہ تمام عوام کے نمائندہ تو کسی صورت میں نہیں ہوتے لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ عوام کی اکثریت کے نمائندہ ہو ۔ اگر ہر حلقہ میں دو سے زیادہ اُمیدوار انتخاب میں حصہ لیں تو جو شخص انتخاب جیتے گا وہ عام طور پر اس حلقے کے عوام کی اقلیت کا نمائندہ ہو گا چنانچہ جمہوریت کیلئے ضروری ہے کہ مُلک میں صرف دو سیاسی جماعتیں ہوں ۔ جن ممالک میں ایسا ہے وہاں جمہوریت چل رہی ہے لیکن پھر بھی غریب اور کمزور کو اس کا حق نہیں ملتا ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ انتخابات میں حصہ لینا غریب آدمی کے بس کی بات نہیں اور عام طور پر شریف آدمی کے بھی بس کی بات نہیں ہوتی
جب حکومت بن جاتی ہے تو اسے عوام کے تمام فیصلے کرنے کا اختیار مل جاتا ہے ۔ پھر عوام پر ٹیکس لگا کر وصول کی گئی دولت دوسرے ممالک پر حملوں میں استعمال کی جاتی ہے اور اپنے اللے تللوں پر بھی جس کا عوام نے اُنہیں حق نہیں دیا ہوتا ۔ یہی جمہوریت کی عملی شکل ہے
انتخابات جیتنے کیلئے دولت کا بے دھڑک استعمال کیا جاتا ہے ۔ کیوں ؟ کیا یہ دولت منافع کے ساتھ واپس وصول نہیں کی جاتی ؟ درست کہ چند جمہوری ممالک میں اپنے اُمیدوار کو جتانے کیلئے چندہ جمع کیا جاتا ہے ۔ جو لوگ بڑھ چڑھ کر چندہ دیتے ہیں کیا وہ تجارت نہیں کر رہے ہوتے کہ اگر ان کا اُمیدوار جیت گيا تو ان کے کچھ خصوصی کام کروا دے گا ؟ اس طرح غریب اور شریف آدمی کا حق مارا جاتا ہے
امریکہ جو اسرائیل کو ہر سال تین ارب ڈالر ناقابلِ واپسی امداد دیتا ہے اور اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کے خلاف کوئی قرارداد منظور نہیں ہونے دیتا ۔ کیا اس کی وجہ یہی نہیں ہے کہ امریکا کا ہر صدر یہودیوں کی دولت کے بل بوتے پر منتخب ہوتا ہے ؟ ایک جان ایف کینڈی تھا جو اُن کے چُنگل میں نہیں آيا تھا تو اُس کا انجام کیا ہوا ؟
حقیقت یہی ہے کہ جمہوریت جس کا نام ہے وہ دولتمند اور طاقتور کے ہاتھ کا کھلونا ہے جس سے جس طرح چاہے وہ کھیلے
انکل جی اگر خلافت کا نظام نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نافذ کیا تھا تو پھر بنو ہاشم نے چھ ماہ تک خلیفہ اول کی بیعت کیوں نہ کی؟ خاتون جنت نے تمام عمر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بیعت کیوں نہ کی؟ کیا وہ سب نعوذ باللہ نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نافذ کردہ نظام کے باغی تھے؟ یقیناَ نہیں۔ اسی لئے عرض کرتے ہیں کہ اسلام نے امت مسلمہ کو کسی خاص نظام حکومت کا پابند نہیں کیا۔ ہاں حکمرانوں کو مکلف ضرور کیا عوام کی ضروریات پورا کرنے کا۔ جمہوریت کے جو مسائل آپ نے گنوائے اس سے زیادہ مسائل ایک فرضی “نظام خلافت” میں گنوائے جاسکتے ہیں جس کا خاکہ تو کسی کے پاس نہیں لیکن حوالہ ہر ایک کےپاس ہے۔
اسلام علیکم
پروفیسر شفیق جالندھری پنجاب یونیورسٹی کی دوران تعلیم اپنے امریکی پروفیسر سے اس موضوع پر بحث ہوئی تو اس امریکی نے کہا کہ مانا جمہوریت میں ہزار خرابیاں ہیں مگر یہ واحد سسٹم ہے جو انسانی “عقل” دریافت کر پای ہے اور جو انتخاب کا ایک ساینسی طریقہ کار فراہم کرتا ہے ۔
میری ناچیز راےء میں اسلام کسی ایک طریقہ انتخاب تک اپنے آپ کو محدود نہیں کرتا ۔ پہلے چار خلفاے راشدین کے انتخاب میں nomination, electoral college اور popular election سب کو باری باری آزمایا گیا ۔ اب آج کے مسلمان ان میں سے کوی ایک نظام منختب کر سکتے ہیں یا اجتہاد سے کوی ایسا نظام وضع کر سکتے ہیں جو جدید زمانہ میں ان کی ضروریات پوری کر سکے۔ ایران اس کی ایک مثال ہے جہاں انہوں نے جمہوریت میں پیوند کاری کر کے اسے اپنے ملک کی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے ۔
مگر بہر حال جمہوریت ایک زریعہ ہے کوی منزل نہیں ۔ میں ذاتی طور پر ایک عادل اور مہرباں ڈکٹیٹر شپ میں رہنے کو ترجیح دوں گا بہ نسبت ایک ظالم جمہوریت کے ۔ جوحضرات بغیر کسی گہرے ذہنی تفکر کے یہ رٹ لگاتے ہیں کہ چونکہ اب جمہوریت کا نظام ملک میں آگیا ہے چنانچہ سب اپنی زباں بندی کر کے تماشہ دیکھیں تو وہ “عوام ” کے ساتھ کوی ذیادہ انصاف نہیں کر رہے ہوتے ۔ جرات کردار ہو تو چین جیسی ایک لا مذہب ریاست بھی اپنے شہریوں کو انصاف ،علم اور ترقی سے ہمکنا ر کر سکتی ہے ۔
ویسے ہم عیسایوں کو اس بات پر مطعون تو بہت کرتے ہیں کہ انہوں نے مذہب کو نظام حکومت سے الگ رکھا کر زیادتی کی ہے مگر جو کچھ کلیسا نے ان سے صدیوں تک روا رکھا ہے اس کے بعد وہ مذہب کا نام سن کر بدک جاتے ہیں اور ان کی نظروں میں کلیسا کی آگ کی سزاوءں اور سر میں کیل ٹھونکنے جیسے مناظر گھومنے لگتے ہیں ۔
میرے نزدیک معاشرے کی مناسب تربیت اور تعلیم کے بغیر کوی بھی نظام فیل ہو سکتا ہے ۔ ہمیں یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہم پاکستانی دنیا کو کوءی بہتر نمونہ دینے میں ناکام رہے ہیں ۔ اب وقت آگیا کہ اس موضوع پر اچھی طرح غور کرکے کسی حد تک کوی متفقہ لایحہ عمل اور نظام عمل وضع کیا جاے ۔
آپ نے کسی ایک پوسٹ میں چودھری غلام احمد پرویز کا ذکر کیا ۔ میں ان کی تعلیمات اور قرآنی تشریحات کے بہت سے پہلووں سے اختلاف کے باوجود یہ سمجھتا ہووں کہ کم ازکم وہ دوسروں اور اپنے آپ کو اس موضوع پر غوروفکر کی زحمت تو دیتے تھے ۔ آجکل کل تو علما ہر چیز جو ان کی سمجھ میں نہیں آتی کفر اور الحاد اور معتزلہ کی تعلیمات یا یہودی سازش قرار دے کر فارغ ہو جاتے ہیں اور سو جاتے ہیں ۔ کتنا اسان کام ہے ۔
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ، ضرب ہے کاری اقبال
اب کہاں سے بے داغ شباب ڈھونڈیں اورآجکل ضرب کاری بھی تو علم کے بغیر ممکن نہیں
سلام عرض ہے
بلکل بجا آپ نے اس خبیث نظام کو سامنے لانے کی سعی کی۔ گو کہ بات مختصر ہے اور نامکمل۔
اللہ سے ڈرنے والے انسان کا صاف روپ آجاتا ہے خلوت اور جلوت تقریبا ایک جیسے ہوجاتے ہیں کیونکہ ایمان آجاتا ہے تو منافقت نکل جاتی ہے وہ جانتا ہے کہ مخلوق نہیں دیکھ رہی تو اللہ تو دیکھ رہا ہے
اب دنیا دار اور جمہوریت کے کے کرتا دھرتاؤں کو دیکھیں
اعتزازاحسن جس طرح سے ایک رول نبھا رہا تھا لوگ اسکو سب سے زہین ، سب سے مخلص اور ناجانے کیا کیا کہنے لگے تھے اور وہ پھولا نہیں سماتا تھے سال بھر پہلے ایک بڑے وکیل جو کہ ان کے دوست بھی تگھے سے ملاقات ہوئی تو وہ ان کے شان میں دنیا جہان ایک کرنے لگے ان سے کہا تھا کہ تصویر کا دوسرا رخ سامنے آنے میں زیدہ وقت نہیں لے گا کہ اب سال ہفتوں میں طے ہونے لگے ہیں
اب دیکھیں
یہ زرداری کو صدر بننے کا مسروہ دیتا ہے
جب اسکی گردن پھنسنے لگتی ہے ( جو کہ پھنسے گی نہیں انتا خوش گمان جو ہوگا وہ نادان ہے( تو یہ سب سے پہلے سامنے آتا ہے
حارث مل والوں سے جنکا مجرم ہانا عیاں ہے کا کیس لڑنے ( بچانے( کو کروڑوں لیتا ہے
اور اب دیکھو نکھر رہا ہے جیسے دودھ الگ پانی الگ
یہی جمہوریت ہے
“چودھری غلام احمد پرویز [جس نے احادیث کا انکار کیا] غور فکر کی دعوت دیتا ہے”۔۔۔۔۔ بہت خوب!
شیعہ خرم سے پوچھا جاسکتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی کیا خلافت کیا تھی؟ سوال یہ بھی ہے کہ جب تم قرآن کو نہیں مانتے تمہاری کتاب تو کوئی لیکر بھاگ گیا ہے اور علی تو نبی سے بھی افضل ہے اور تو اور تمہارے امام بھی تو اپنے مزہب کو اپنے ہاں لاگو کرو، اگر بات کچھ مسلمان اپنی قوم کی کرتے ہوں تو اپنی بکواس وہاں تھوپنے کی کیا حاجت ہے؟
کاش عامی مسلمان یہ جان لے کہ سب سے خبیث فتنہ رافضیت ہی تھا اور یہ وہ خناس ہے جس کو پہچانے بنا ظلم کو نہیں روکا جاسکتا
مگر پھر آفریں ہے حضرت مودودی اور قطب کو جنہوں نے اپنے پسینہ سے اس کی آبیاری کی اور تف ہے احسان فراموشوں سے کہ آج تک ان کے نام کوئی ایوارڈ نہیں کیا
بڑی دیر سے مگر یہود کی نمائندہ بی بی سی نے ایک کو صدی کی سب سے بڑی مفکر شخصیت قرار دے دیا لیکن۔۔۔
حق ادا نہ ہوا۔۔
خرم صاحب
اس سلسلہ میں میں آپ سے بحث نہیں کروں گا ۔ میری کتابیں ان دنوں میرے پاس نہیں ہیں اور ان سے استفادہ بھی مستقبل قریب میں ممکن نہیں ۔ فی الحال آپ مجھے یہ بتا دیجئے کہ کیا علی رضی اللہ عنہ نے بیت کی تھی یا نہیں ؟
محمد ریاض شاہد صاحب
خلافت میں اللہ کی حاکمیت ہے اور انسان اللہ کا خلیفہ ہوتا ہے جو صرف اللہ کے احکام کے مطابق کام کرتا ہے ۔ انسان کا بنایا ہوا کوئی نظام اس کسوٹی پر پورا نہیں اُترتا ۔
سقراط کا نام کبھی دین کے حوالے سے نہیں لیا گیا ۔ صرف عقل کے حوالے سے لیا جاتا ہے ۔ سقراط کا قول ہے کہ “اگر انتخاب کا حق ہر ایک کو دے دیا جائے تو غُنڈے حکمران بن جائیں گے” ۔
غلام احمد پرویز اور جاوید احمد غامدی جیسے لوگ دلائل بڑے اچھے دیتے ہیں اور اسی طرح وہ دین کا علم نہ رکھنے والوں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ ابلیس کیا کم عقل رکھتا ہے ؟
محترم احمد صاحب
اسلام علیکم
آسان کام کیا آپ نے تو، یعنی میرے تمام تبصرے میں آپ کو جو بات نظر آئی وہ پوسٹ کے موضوع سے متعلق نہیں بلکہ دوسروں کے مفروضہ عقیدے اور شخصیات سے متعلق ہے چناچہ آپ نے آسانی سے چند سطروں میں ایک ہی وار میں خرم صاحب کو شیعہ اور مجھے پرویز کے ہمدرد کا درجہ عطا کر دیا ۔ یقینا یہ یہودیوں کی کوی سازش ہوگی ۔ اب آپ کا کام مکمل ہو گیا حلوہ کھائیے اور سو جائیے۔
آپ کے تبصرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ایک انتہای جذباتی انسان ہیں جو اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے گالیوں کا سہارا لینے میں بھی کوی عار محسوس نہیں کرتا ۔ اب آپ کوی علمی سوال کرتے تو جواب بھی دیتا گالیوں کا کیا جواب لکھوں
محترم بھوپال صاحب
السلام و علیکم
میں آپ کے خیالات اور جذبات کی قدر کرتا ہوں ۔ قران ہی کے ارشاد کے مطابق غور فکر کا حکم دیا گیا ہے اور جب بھی مسلمانوں نے اپنی تاریخ میں اسلام کی پیروی عقل و شعور کے ساتھ کرتے رہے خدا نے ان کا ساتھ دیا اور جب محض اندھی تقلید کا دامن تھاما توویسے بن گیے جیسے آج ہیں اور کوی معجزہ بھی رونما نہ ہوا ۔
جس طرح چور سب کم و بیش ایک ہی طریقے سے واردات کرتے ہیں آپ سب کا جواب دینے اور راہ فرار اختیار کرنے کا بھی ایک ہی طریقہ ہے
آپ کی رائے پر صاحب تحریر مناسب جواب دیں گے ہم نے تو ایک نقطہ واضح کیا جس سے آپ اپنے جواب سے خود واضح ہوگئے اسی لیئے اصل جگہ ہاتھ لگایا تھا باقی بات آپ نے درد کی کیفیت میں آتے ہی کردی
خرم کا شیعہ ہونا کوئی ڈھکی چھپی بات ہے؟ اسکو شیعہ ہم نے بنایا ہے؟ اختیاری کالے کو کالا کہنا گناہ کب سے ہوگیا؟ جو وہ اپنی مرضی سے بنا ہے اسکو چھپانا کیسا؟ اتنی اخلاقی ہمت ہی پیدا کرلیں کہ جو ہیں سامنے لائیں
خرم صاحب سے پو چھے گئے سوالات کے جواب کیا ہوئے؟
سب جانتے ہیں ہولوکاسٹ اور شیعت پر بات کرنا اپنی موت کو دعوت دینا ہے گالیاں کھانا ہے تو کیا سچ بولنے سے گریز کیا جائے؟
ہم نے آپ کو کون سے گالی دی؟
جو لوگ اللہ پر افتراء باندھ لیتے ہیں لوگ بھلا ان کے سامنے کیا چیز ہیں۔ اللہ پاک ایسوں کے شر سے محفوظ رکھیں
ہم جانتے تھے کہ اجمل صاحب آپ کو مناسب جواب دیں گے اور بہت خوب دیا بھی۔ ان کا اسٹائل یہ ہے کہ بات سے واضح کرنے کو کوشش کرتے ہیں جبکہ ہم زرا آگے بڑھ کر نقاب اتار لیتے ہیں ہم سے ظلم اب اور دیکھا نہیں جاتا صدیاں ہوگئیں اب بس!
اور احمد بیشک ایک کا نام ہے مگر یہ کم از کم 3 ہیں
محترم احمد صاحب
مزید گالیاں عطا کرنے پر بندہ آپ کا مشکور ہے ۔ اللہ کرے زور ۔۔ اور زیادہ ۔ میں کیا بات کر رہا ہوں بلاگر اس سے خوب واقف ہے
ریاض صاحب
کیوں لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں بہتان باندھ کر
ہم نے آپ کو گالیاں دیں ؟ کب؟ کہاں؟
شاطرانہ مزاج سے سب ہی آگاہ ہیں مگر کیا ہر بار دال گل جاتی ہے؟ جی نہیں
اصل بات کو شاطر انداز سے ادھرادھر کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ کبھی بھی نہیں رہا ہاں ایک راستہ آپ لوگوں کے پاس آخری رہا کرتا ہے یعنی راستے سے ہی ہٹا دینا آپ لوگ احمد کو بھی اب ہٹانے کا اب سوچنے ہی لگے ہوں گے
جو لوگ اللہ پر افتراء باندھ لیتے ہیں لوگ بھلا ان کے سامنے کیا چیز ہیں۔ اللہ پاک ایسوں کے شر سے محفوظ رکھیں
محترم احمد صاحب
اسلام علیکم
میرے خیال میں ساری غلط فہمی اس بات سے پیدا ہوی کہ میرا تبصرہ خرم صاحب کے تبصرے کے بعد چھپ گیا ۔ اصل میں جب لکھنا شروع کیا میرا نمبر پہلا ہی تھا مگر جواب طویل تھا اس لیے کچھ دیر لگ گیی اور جب پوسٹ کیا تو خرم صاحب کا مختصر تبصرہ چھپ چکا تھا ۔ میرے دوسرے نمبر پر آنے کی وجہ سے آپ نے یہ سمجھا کہ میں خرم صاحب کے موقف کی تاید کر رہا ہوں اور ان کے خیالات سے پوری طرح متفق ہوں
اگر آپ میرے تبصرے پر دوبارہ غور فرمایں تو وہ خلافت کی مذمت میں نہیں بلکہ خلیفہ کے طریقہ انتخاب کے متعلق ہے ۔ طریقہ انتخاب ہی وہ مناقشہ ہے جس اس فرقہ پرستی کا بیج پھوٹا جس آج امت مسلمہ لہو لہان ہے ۔ میں ذاتی طور فرقہ پرستی سے سخت بیزار ہوں اور اسے قرانی حکم کے خلاف سمجھتا ہوں ۔
رہی بات پرویز صاحب کی تو میں بشمول ان تمام ان ہستیوں کے جن کا آپ نے ذکر کیا ہے یا ذکر کرنے سے رہ گیے ہیں ان سب حضرات کی آرا کا احترام کرتا ہوں جنہوں نے امت مسلمہ کی تکالیف کا کوی قابل عمل حل نکالنے کی کوشش کی ہے ۔ اور یہ تمام اصحاب محض انسان تھے اور ان میں سے کسی سے بھی اسلام کی درست تفہیم میں غلطی ہو سکتی ہے ۔ خامیوں سے مبرا صرف رسول صلی علیہ کی ذات تھی ۔
خرم صاحب کا مسلک کیا ہے مجھے واقعی نہیں معلوم نہ مجھے اس سے دلچسپی ہے ۔ دلچسپی ہے تو اس دلیل سے ہے جس سے موجودہ زمانے میں اسلام اور امت مسلمہ موجودہ عذاب سے نکل سکے اور اسلام کا بھلا ہو سکے ۔ “اور جو زندہ ہوا وہ دلیل سے ہوا اور جو ہلاک ہوا وہ دلیل سے ہلاک ہو”۔ اجمل صاحب کی بات بجا ہے کہ ہر ایک کو ووٹ دینے کا حق بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ مختلف طریقہ انتخاب میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جا سکتا ہے ۔
آخر میں یہ عرض کر دوں کہ شرفا اپنی گفتگو میں خبیث ، بکواس ، چور جیسے الفاظ استعمال نہیں کرتے کیونکہ اس سے اچھی بھلی گفتگو علمی درجے سے اتر کر طعنوں اور کوسنوں کی جنگ بن جاتی ہے ۔ آپ نے اپنے تبصرے میں راستے سے ہٹا دینے ک بات لکھی ہے ۔ محترم اگر میرا انداز فکر ایسا ہوتا تو اس وقت میں اس یہ تبصرہ لکھنے کی بجاے جسم سے بم باندھ کر اپنی آرا سے متصادم لوگوں کو اڑا رہا ہوتا ۔ میرے خیال میں چونکہ بلاگر نے ایک نیی پوسٹ لکھ دی اور یہ اس موضوع کو بند کرنے کا مہذب اشارہ ہے ۔
محمد ریاض شاہد صاحب
درست ۔ میں بھی اندھی تقلید کا عادی نہیں
افتخار انکل ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت بی بی خاتون جنت رضی اللہ تعالٰی عنہا کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بیعت کی تھی اور یہ بھی دہرایا تھا کہ خلافت کے معاملہ میں بنو ہاشم کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ بنوہاشم، حضرت سلمان فارسی اور کئی دیگر جلیل القدر صحابہ کرام نے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بیعت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بیعت کی تھی۔
احمد صاحب – میں کون ہوں آپ اس فکر میں کیوںہلکان ہوئے جاتے ہیں میرے بھائی؟ اور سوال کوئی آپ نے پوچھا ہی نہیں تو جواب کیا دیں؟
خرم صاحب
ابھی میرا اسلام آباد جانے کا سلسلہ نہیں ہے ۔ فی الحال آپ یہ دیکھ ليجئے
http://www.faizeraza.net/phpBB2/viewtopic.php?t=3232